• Sun, 26 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

میرے لئے شاعری زندگی کی قدم بہ قدم کروٹیں لیتی برقی رَو کا نام ہے

Updated: September 21, 2025, 1:01 PM IST | Baqar Mehdi | Mumbai

۲۳؍ستمبر ممتاز نقاد اور عمدہ شاعر باقر مہدی کی برسی کا دن ہے، اس موقع پر ملاحظہ کیجئے اُن کی اپنے فن پر ایک تحریر جو ۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی تھی۔

Baqar Mehdi. Photo: INN
باقر مہدی۔ تصویر: آئی این این

’’اپنے بارے میں چند جملے لکھنا بھی دشوار ہے۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو جانتے ہیں کہ زندگی ناقابل برداشت ’’پل صراط‘‘ سے گزر رہی ہے اور سب فنکاروں نے اپنی اپنی قیمتیں اپنے اپنے گلے میں ’’پنہاں طوق‘‘ کی طرح لٹکا رکھی ہیں اور جتنا بڑا نام ہے اتنی بڑی قیمت ہے۔ فنکاروں کی خرید و فروخت ہر دور میں ہوتی رہی ہے مگر آج کا دور سب سے سبقت لے جاچکا ہے۔ ایسے ماحول میں ہم متوسط طبقے کے سرکش ادیب اور شاعر فنکاری کی کیا باتیں کریں ؟ میں نے نوجوانی میں ایک شعر کہا تھا:
ہر شخص کی قیمت ہے، بکے جاتے ہیں کتنے
دیکھے سرِ محفل یہ تماشا کوئی کب تک!
لیکن میں ابھی تک یہ تماشا دیکھ رہا ہوں۔ میرا تین برس پرانا شعر ہے:
کل بغاوت کا بھی نیلام اٹھا
بوڑھے سرکس کا نشاں ڈوب گیا
پھر جب اتنا گھور اندھیرا ہو تو …تو میں نئے لکھنے والوں سے ملتا ہوں اور فنکاری کی باتیں کرتا ہوں کیونکہ میرے لئے ’’فرار‘‘ یا تسکین کا یہی راستہ بچا ہے۔ ان سے آزاد نظم کی کہانی اور اس کی ناکامی، پھر چند برسوں بعد اس کی مقبولیت کی وجوہ بتاتا ہوں، یہی کہ میراجیؔ اور راشدؔ کا آہستہ آہستہ مگر دیرپا اثر ہوااور شاعری کا سارا لب و لہجہ ہی بدل گیا اور اب ’’نثری نظموں ‘‘ کا دور آگیا۔ 
میرے لئے شاعری زندگی کی قدم بہ قدم کروٹیں لیتی برقی رو کا نام ہے۔ میں اسی لئے خود کو ایک ’’سیاسی‘‘ شاعرکہتا ہوں ، اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ ’’منظوم اداریے‘‘ لکھتا رہتا ہوں۔ اس سے صرف اس قدر مراد ہے کہ شہروں میں جتنی تیز طبقاتی کشمکش نظر آتی ہے اتنی چھوٹے قصبوں میں نہیں ہے اور نئی شاعری اسی ’’فن سوز‘‘ ماحول میں پروان چڑھی ہے اور چڑھے گی۔ آہستہ آہستہ مگر زہر کی طرح اپنا اثر چھوڑتی جارہی ہے اور نئے لکھنے والے کم از کم اردو میں لکھنا شروع کرتے ہیں تو اضطراری کیفیت سے مجبور ہوکر ہی لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ مطالعہ، تجربہ اور جنون کے بغیر شاعری کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ علامت کی تخلیق، استعارے کا استعمال، الفاظ کی در و بست، جذبے کی شدت اور سب سے بڑھ کر ایک لب و لہجہ کی تشکیل مدتوں بعد شاعر سیکھتا ہے اور پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے جذبہ کم، فکر کی ندرت غائب اور زندگی کا بورڈم نہایت خاموشی سے رگ رگ سے ہوتا ہوا اشعار اور نظموں میں داخل ہوجاتا ہے۔ کیا سب کا یہی انجام ہے؟ شاید!
میری نسل کے شاعروں کا مسئلہ ترقی پسند ادبی نظریے سے متصادم تھا۔ اس لئے کہ وہ ’’دقیانوسیت‘‘ میں پناہ ڈھونڈ چکے تھے اور ’’مقبولیت‘‘ کی سند کو حاصل ِ شاعری سمجھ بیٹھے تھے۔ آج میں اپنے ہم عصروں کا کلام پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان کا شعری سرمایہ کتنا کم ہے اور میرا… میرا تو ادیبوں اور شاعروں کی فہرست میں نام بھی آنا مشکل ہے اس لئے کہ میں نے ’’فنکاری‘‘ سے زیادہ سرکشی کو مقدم سمجھا۔ اسی لئے میں خود ’’اپنے مذاقِ کرب آگیں ‘‘ کا شکار ہوگیا اور اب یہ کہتا ہوں :
مرے دوست دشمن سبھی بک گئے
مرا مول اٹھا آدمی بھیج دے!
میرے تین شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں جنہیں میں نے خود شائع کیا تھا اور اب چوتھا شعری مجموعہ شائع کرنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی ناشر کیسے ملے گا؟ میں ’’صاحب ِ اقتدار‘‘ لوگوں سے مراسم ہی نہیں رکھتا۔ اتنے بڑے بمبئی شہر میں میرے ’’نامور شعراء‘‘ سے برائے نام مراسم بھی نہیں ہیں۔ ہاں اردو، مراٹھی، ہندی اور انگریزی کے نوجوان شعراء سے میرے خاصے اچھے مراسم ہیں۔ میں نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’شہر آرزو‘‘ کے بعد دو سال خاموشی اختیار کی، پھر نئے انداز سے شعر کہنے کی کوشش کی۔ میرا دوسرا مجموعہ ’’کالے کاغذ کی نظمیں ‘‘ ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے شروع میں ایک نظم دیباچے کے طور پر رکھی تھی۔ اس کی چند سطریں ہیں :
اب میں اپنی نظموں کے صحرا میں 
ٹھوکر کھاتا پھرتا ہوں 
ایک ایک مصرعے سے یونہی الجھتا رہتا ہوں 
ایسا کیوں ہے … ایسا کیوں ہے!
میں نے ان کو بدل بدل کر اور بھی الجھا ڈالا ہے
ان کا نغمہ چیخ بنا اور پھر سناٹے میں کھو سا گیا
کتنے مصرعے کاٹ کے میں نے نئے لکھے 
لیکن بات نہیں بنتی، یارو!
بات بنے گی کیسے؟
جب ہر پہلو میں ایک نوکیلا کانٹا ہو
ہر کانٹے میں پھولوں کی ہلکی ہلکی خوشبو ہو
ہر خوشبو میں زہر چھپا ہو…!
میں نے خود سے پوچھا ہے
کیوں لکھتا ہوں ؟ کیوں ؟
یہ اظہار کی پیہم خواہش، جینے کی بے معنی ہوس
کب تک میرے ساتھ رہے گی
میرے پاس سوالوں کے 
تیز نوکیلے نشتر ہیں 
اور بھلا کیا ہے؟
ہر لمحہ، یہ …ڈئیلما مجھ میں چھپ کر
میرے ساتھ رہا کرتا ہے
میری نظمیں عکس ہیں اس کا
لرزاں لرزاں، دھندلا دھندلا 
شاید کچھ کچھ بے معنی سا!‘‘
یہ نظم آج سے ۱۴؍ برس پہلے لکھی تھی اور آج جبکہ میں ’’بیماریوں کے بھنور‘‘ میں گھر گیا ہوں کہ تیز زندگی گزارنے کا یہی انجام ہوتا ہے تو اپنی زندگی کے سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں :
میری نظمیں خود فریبی سے آگے نکلتی نہیں 
اور میں … ایک کرم کتابی
تیز آندھی کی تمنا لئے
اپنی کمزور نظموں کی شاخوں سے لپٹا ہو
…زرد پتوں کو اڑتا ہوا دیکھتا ہوں !‘‘
(مارچ ۱۹۸۳ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK