لہو اگل رہا ہے آج، میرا پُرفنوں قلم : شکست آرزو کا کیا، فسانہ ہوسکے رقم
EPAPER
Updated: October 29, 2023, 11:27 AM IST | Inquilab Desk | Mumbai
لہو اگل رہا ہے آج، میرا پُرفنوں قلم : شکست آرزو کا کیا، فسانہ ہوسکے رقم
یروشلم، یروشلم
نعیم صدیقی
لہو اگل رہا ہے آج، میرا پُرفنوں قلم
شکست آرزو کا کیا، فسانہ ہوسکے رقم
خیال پرزے پرزے ہیں ، کروں میں کس طرح بہم
…یروشلم، یروشلم!
یروشلم، یروشلم، تو اک حریمِ محترم
ترے ہی سنگ ِ در پہ آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بہ زخم دل بہ چشم نم
…یروشلم، یروشلم!
جہاں کی ساری راحتیں سپرد سیلِ نار کیں
کئی ہزار میتیں ، گلی گلی نثار کیں
ترے وقار کے لئے، لہو دیا قدم قدم
…یروشلم، یروشلم!
یہیں سے ہو کے عرش کو، سواریٔ نبیؐ گئی
ابھی تک اِن فضاؤں میں ہے اک مہک بسی ہوئی
یہاں کی خاک پر ٹکے، براقِ نور کے قدم
…یروشلم، یروشلم!
نمازِِ بے مثال یاں ، وہ کی گئی ہے اک ادا
بہ اقتدائے مصطفیٰؐ، حبیبِ خاص کبریا
کھڑے تھے اک قطار میں ملا کے انبیاء قدم
…یروشلم، یروشلم!
تسلط یہودیاں ، رہے؟ نہیں ، کبھی نہیں
یہ ظلم ایسا ظلم ہے کہ جس کی تاب ہی نہیں
میں دیکھتا ہوں آج پھر ’’صلاحِ دین‘‘ کا علم
…یروشلم، یروشلم!
بہ راہِ داستانِ دل، مہیب حادثوں کے موڑ
صدارتوں کی سازشیں ، سفارتوں کے جوڑ توڑ
مثال ِ زلف یار ہیں ، سیاستوں کے پیچ و خم
…یروشلم، یروشلم!
حریف جاں سے کہو
قیصرالجعفری
جو ایک بار اڑی تھی تمہارے چہرے پر
تمہارا عہد اسی خاکِ پا کی زد پر ہے
زمین بوجھ اٹھائے گی اور کتنے دن
تمام شہر ستمگر فنا کی زد پر ہے
ہزار بار جلاؤ ہزار بار بجھے
تمہاری شمع، ازل سے ہوا کی زد پر ہے
لہولہان شجر چیختے ہیں صدیوں سے
تمہاری تیشہ زنی بددعا کی زد پر ہے
ستارے ٹوٹنے والے ہیں پتھروں کی طرح
تمہاری شام ہماری نوا کی زد پر ہے
لرز رہے ہیں در و بام، کوچہ و بازار
کہاں چھپو گے کہ ہر چھت بلا کی زد پر ہے
یہ دور پھر کسی فرعون کو ڈبوئے گا
کہ سارا نیل کا پانی عصا کی زد پر ہے
سمٹنے والا ہے یہ کاروبارِ تیرہ شبی
تمہاری رات چراغ حرا کی زد پر ہے
نکال پھینکیں گے تم کو تمہارے دروازے
تمہاری ساری خدائی، خدا کی زد پر ہے
مجاہد فلسطین
شمس غازی آبادی
اے واقف اسرار خودی رمد خود آگاہ
اے میرے مجاہد اے شبیہ رخ سلماں
اٹھتے ہوئے مردانہ صفت یہ ترے اقدام
فی الاصل بدل ڈالیں گے اب گردشِ دوراں
یہ عزم، یہ ایثار و عمل کا ترے عالم
عالم کو بنا دے نہ کہیں دیدۂ حیراں
ہیں مشورے اغیار کے کوچوں میں تو کیا ہیں
ہے جذبۂ ایماں ترے موقف کا نگہباں
صدیوں رہا یورپ کی کلیسائی پہ حاوی
بازو میں ہے پنہاں ترے وہ قوت ِ یزداں
اٹھنا ہے تجھے بہر تقاضائے مشیت
کرنا ہے مہیا تجھے پھر زیست کا ساماں
دینا ہے تجھے پھر سے زمانے کو وہ پیغام
حاکم ہے نہ محکوم ہے انسان کا انساں
اعدائے جہاں سے ذرا للکار کے کہہ دے
تخریب عدو ہے ترے افسانے کا عنواں
طاقت کے بھروسے پہ نہ اترائے کوئی قوم
ایمان بھی اوسان بھی رکھتا ہے مسلماں
دیکھے ہیں بہت زیر و زبر اس نے جہاں میں
آتا ہے اسے خوب ہر اک درد کا درماں
ساتھ اس کے ہوا کرتی ہے تقدیر الٰہی
شمشیر بکف ہوتا ہے جب مردِ مسلماں
افسوس یہ ہے دعویٔ تہذیب ہے جن کو
کرتے ہیں وہی امن ِ زمانہ کو پریشاں
پیچھے کی طرف لوٹ ذرا گردشِ ایام
آجائے زمانے کو نظر ظلم کا انجام
انتباہ
انتظار نعیم
کسی بھی وقت کا فرعون ہونے دو
ہمیشہ نیل کی
موجیں
اُچھلتی کودتی سی
چیختی پیہم
اُسے پیغام دیتی ہیں
ابھی وا ہے
درِ توبہ
ابھی بھی وقت ہے
ظلم و ستم سے،
سرکشی سے باز آجائے
تکبر ترک کرنے
بارگاہ ِ رب میں آکر
سر جھکانے کو
نہیں تو
ہے جہاں واقف
کوئی توبہ،
پشیمانی
جو بعد از وقت ہو
بے کار ہوتی ہے
ہمیشہ اس کا حاصل
ذلتوں کا باب ہوتا ہے
کسی بھی وقت کا فرعون ہو،
غرقاب ہوتا ہے!!
مصائب فلسطین
انعام اللہ خاں ناصر
کہیں اہل فلسطیں کس سے یہ رنج و محن اپنا
کہ مٹتے دیکھتے ہیں اپنی آنکھوں سے چمن اپنا
عرب کے رہنما اس وقت کیوں پردیس کو جاتے
بڑی حسرت سے مجبوری میں چھوڑا ہے وطن اپنا
یہی خطہ ہے جو دار الاماں مشہور تھا پہلے
بنایا ہے اسے اب فتنہ و شر نے وطن اپنا
نکالا جارہا ہے آج بھی یورپ کے ملکوں سے
نہیں چھوڑا نہیں بدلا یہودی نے چلن اپنا
کفن دزدان مغرب آکے حیراں ہیں فلسطیں میں
پکڑ رکھا ہے اس مردہ نے دانتوں سے کفن اپنا
خارزاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش!
ادا جعفری
ایسا اندھیر تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو!
لوَ چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی
آندھیوں سے کبھی سورج نہ بجھا تھا لوگو!
آئینہ اتنا مکدر ہو کہ اپنا چہرہ
دیکھنا چاہیں تو اغیار کا دھوکا کھائیں
ریت کے ڈھیر پہ ہو محمل ِ ارماں کا گماں
منزلیں کاسۂ دریوزہ گری بن جائیں
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں
لو‘ٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لوٹا؟
دجلۂ خوں تو نئی بات نہیں ہے، یہ کہو
وہ جو ڈوبا ہے، سفینہ ہے کہ ساحل ڈوبا
جادۂ شوق کہ ہے مسجد اقصیٰ پہلے
دل بھی قبلہ ہے، یہ قبلہ نہ ڈھہا تھا پہلے
نامناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے
تم مگر شعلہ بہ دل، شعلہ بہ جاں بھی ہوتے
تم تو خورشید بکف تھے سرِ بازارِ وفا
کیوں حریف ِ نگہِ چشم تماشا نہ ہوئے
کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر
تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی
اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی
رَن سے آتے تھے تو باطبل ِ ظفر آتے تھے
ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر جاتے تھے
مٹ نہ پائے تھے بگولوں سے نقوشِ کف ِ پا
ان رہوں میں ہیں رسولوں کے نقوش کف ِ پا
محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرور ِ کونینؐ کے سجدے کا نشاں
اس ہوا میں مرے آقاؐ کے نفس کی خوشبو
اس حرم میں مرے مولا کی سواری ٹھہری
اِس کی عظمت کی قسم ارض و سما نے کھائی
تم نے کچھ قبلۂ اوّل کے نگہبان! سنا؟
حرمت ِ سجدہ گہہِ شاہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگ ِ عزیزاں کو تو سہہ جاتی ہے
مرگ ِ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکستر ِ دل بھی نہ ملے
اور تپ جائے تو کندن ہے وجودِ انساں
پھر یہ پگھلے ہوئے لمحات کراں تا بہ کراں
آپ مینارۂ انوار میں ڈھل جاتے ہیں
عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں
خارزاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش
آج پھر رحمت ِ یزداں کا سزاوار آئے
وادی ٔ گل سے ببولوں کا خریدار آئے
دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاندار آئے
پاپیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے
ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن تو آئے
ہوش والو! کوئی تلقین ِ جنوں فرمائے
حنیف ترین نے مسئلہ فلسطین پر خصوصیت کے ساتھ قلم اٹھایا۔ ان کے مختلف شعری مجموعوں میں ایسی درجنوں نظمیں اور غزلیں ہیں ۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی پر مشتمل ان کی نظم `باغی سچے ہوتے ہیں ` کافی مشہور ہوئی۔ انتظار نعیم نے’ارضِ فلسطین‘ کے عنوان سے فلسطین، یروشلم اور بیت المقدس پر لکھی گئی منظومات کا ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ ادارہ ادب اسلامی، نئی دہلی سے ۲۰۰۶ء میں طبع ہونے والی اس کتاب میں دنیا بھر کے تقریباً دو سو شعراء کا کلام شامل ہے۔برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ مغربی ایشیا، برطانیہ اور امریکہ وکناڈا میں مقیم جن شعراء وشاعرات کا کلام مرتب کو دستیاب ہوسکا، اس مجموعے میں شامل ہے۔’ارضِ فلسطین‘ میں مسجد اقصیٰ کے سابق امام شیخ محمد محمود الصیام کا مسئلہ فلسطین پرایک اہم مضمون بھی شامل ہے۔
پاکستان کے معروف شاعر و ادیب فراست رضوی نے کتاب ”سلام فلسطین“ لکھی۔ فلسطین کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی انتفاضہ کی تحریک اور فلسطینیوں کا دفاع کرتے ہوئے صہیونی بلڈوزروں تلے دب کر شہید ہونے والی امریکی نوجوان لڑکی راشیل کوری، لیلیٰ خالد، جارج حبش، شیخ احمد یاسین اور فلسطین کے شہداء کی قربانیوں پر کل ۳۷؍ نظمیں اس مجموعہ ’’سلام فلسطین‘‘ میں شامل ہے۔انتظارنعیم اور فراست رضوی کی یہ کتابیں آئندہ نسلوں کے لئے مسئلہ فلسطین کے افہام میں بھی معاون ثابت ہو گی۔
حال ہی میں حماس نے اسرائیل پر ’طوفان الاقصیٰ‘ برپا کرکے جس طرح قومی غصے کا اظہار کیا ہے اس سے اسرائیل، صہیونیت اور ان کے پشت پناہ تلملا گئے ہیں اور انہوں نے مظالم کے سارے گھوڑے کھول دیئے ہیں ۔ ارض مقدس کی آزادی کے لئے ہونے والی اس جنگ میں دنیا بھر کے منصفانہ ذہن، امن پسند لوگ اور ستم مخالفین فلسطین کے حق میں کھڑے ہیں ۔لیکن اسرائیل اور ان کے ہم نواؤں نے تمام تر عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا اور جنگ بندی کی قراردادوں کوپس پشت ڈال دیا ہے۔وہ قیام امن کی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہٹ ڈھرمی پر آمادہ ہیں ۔ یہ طاقتیں بشر اور بشریت کو تاراج کرنے کے درپے ہیں ۔ موجودہ حالات میں فلسطین کی ترجمانی کرنے والا شعرو ادب ایک بار پھرگردش میں ہے۔ درویش، طوقان، اقبال، فیض، جالب وغیرہ کو دہرایا جارہا ہے۔ تازہ شاعری بھی ہو رہی ہے لیکن یہ شاعری محض اظہارِ بے بسی، لعنت وملامت اور التماسِ دعا ، فرشتوں کی آمدکی آرزو اور ابابیلوں کے انتظار تک محدودہے ۔ تاہم شدید بمباری، بارود ی طوفان اور ٹینکوں کی نالوں کے سامنے سینہ سپر معصوم اور بے قصور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی اور اتحاد ظاہر کرنے کیلئے یہ جذباتی شاعری بھی ایک بڑا سہارا ہے۔
محمود درویش، فدویٰ طوقان اورعبد الکریم الکرمی معروف بہ ابو سلمیٰ کی نظمیں ملاحظہ کریں :
آدمی کے لئے
انھوں نے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا
اس کے ہاتھ پتھر سے باندھ دیئے
اور کہا ،’قاتل‘
وہ اس کا کھانا، اس کے کپڑے اور جھنڈا
چھین کرلے گئے
اسے مجرم کی کوٹھری میں ڈال دیا
اور کہا ،’چور‘
انہوں نے ہر بندرگاہ سے اسے کھدیڑ دیا
اس کی جوان محبوبہ چھین لی
پھر کہا ،’رفیوجی‘
حوالات ہمیشہ قائم نہیں رہیں گے
اور نہ ہی زنجیروں کی کڑیاں
محمود درویش
فلسطین
وہ تباہ نہیں کر سکتے تمہیں کبھی بھی
کیونکہ تمہاری ٹوٹی ہوئی امیدوں کے درمیان
تمہارے مصلوب مستقبل کے درمیان
تمہاری چرالی گئی ہنسی کے درمیان
تمہارے بچے مسکراتے ہیں
تباہ شدہ گھروں ، کھنڈروں اور اذیتوں کے درمیان
خون آلود دیواروں کے درمیان
زندگی اور موت کے درمیان
فدویٰ طوقان
پیارے فلسطین
میں کیسے سو سکتا ہوں
میری آنکھوں میں اذیتوں کے سائے ہیں
تیرے نام سے میں اپنی دنیا سنوارتا ہوں
اور اگر تیرے عشق نے مجھے دیوانہ نہیں کردیا ہوتا
تو میں اپنے جذبات کو چھپاکر ہی رکھتا
دن کے قافلے گزرتے ہیں اور بات کرتے ہیں
دشمنوں اور دوستوں کی سازشوں کی
عبد الکریم الکرمی