Inquilab Logo

شعر شورانگیز سے گریزاں مگر لحن ِ شور انگیز کو برقرار رکھنے والا تنقید نگار

Updated: May 05, 2024, 1:19 PM IST | Professor Atiqullah | Mumbai

ہفتۂ رفتہ مشہور شاعر، نقاد اور صحافی فضیل جعفری کی چھٹی برسی کا ہفتہ تھا۔ اسی مناسبت سے زیرنظر مضمون میں ان کی اورنگ آباد آمد ، وہاں کا منظر نامہ ، ان کی کتابوں کی اشاعت اور دیگر احوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

Fuzail Jafri was born a poet and was a unique ghazal poet of his own style, but he also floated in the sea of ​​English literature. Photo: INN
فضیل جعفری شاعر پیدا ہوئے تھے اور اپنے انداز کے منفرد غزل گو تھے لیکن انگریزی بحرِ ادبیات کے شناور بھی تھے۔ تصویر : آئی این این

فضیل ِجعفری کا ورود بامسعود اورنگ آباد ہوا تو یہاں بزرگوں میں مولوی یعقوب عثمانی مرحوم تھے۔ ان کے علاوہ سکندر علی وجد، جوگندر پال، قاضی سلیم، بشر نواز، قمر اقبال، شیخ عصمت جاوید، صفی الدین صدیقی، شمیم احمد، صادق، جاوید ناصر، رفعت نواز، عارف خورشید، خان شمیم، نور الحسنین، یوسف عثمانی وغیرہ سے ادب کی انجمن آراستہ تھی۔ اس پر فضیل کی آمد آمد سونے پر سہاگا۔ جدیدیت کا بگل بج چکا تھا، سوغات، تلاش اور تخلیق کے علاوہ جس رسالے نے سارے منظرنامے کی کایا ہی پلٹ دی تھی، وہ تھا شب خون (الہ آباد) یعنی فضیل کی زاد بوم اور ترقی پسندوں کا مرکز۔ فاروقی نے شب خوں مار کے ترقی پسندوں پر ایسی ضرب لگائی کہ ادب کا میدان ایک اکھاڑے میں بدل گیا۔ وہ تو شکر کیجئے کہ اصلی ترقی پسند جنگ باز تو بڑھاپے کی کگار پر تھے اور قویٰ مضمحل ہوچکے تھے جبکہ جدیدیوں کی پلٹن نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ وہ زیادہ پرجوش، سرکش اور نئے ادبی رجحانات کا علم رکھتے تھے۔ انہیں میں فضیل بھی تھے، جو شاعر پیدا ہوئے تھے اور اپنے انداز کے منفرد غزل گو تھے لیکن انگریزی بحرِ ادبیات کے شناور بھی تھے۔ ایک تو اورنگ آباد کی فضا نے مہمیز کی دوسرے علم کا زور، تیسرے جنگ بازی کو کھیل سمجھنے کا شوق۔ بس فضیل بھی محاذ آراء ہوگئے۔ جدیدیت کی خوب وکالت کی، ترقی پسند ادیبوں کی خوب خبر لی، دلائل کی دھونس دی، آہنگ کو بلند رکھا، شعر شور انگیز نہ کہاہو لیکن لحن ِ شور انگیز ضرور رکھا۔ 
فضیل جعفری ان معدودے چند نقادوں میں سے ہیں، جن کی تحریروں کا مجھے شدت سے انتظار رہا کرتا تھا۔ انتظار اس لئے کہ ’بے باکی اور صاف گوئی‘ ان کی تنقیدی گفتار کی ایک نمایاں شان ہے۔ میرے نزدیک وہ محمد حسن عسکری، سلیم احمد، شمیم احمد(پاکستان) اور وارث علوی کی قبیل کے نقاد ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ فضیل محض چھیڑخانی پر اکتفا نہیں کرتے۔ نہ تو استدلال پر تاثر کی بے محابا رَو کو حاوی ہونے دیتے ہیں نہ اپنے دعوے کو دیگر غیرمتعلق جزئیات میں گم ہونے دیتے ہیں۔ فضیل جعفری کی تنقیدی کتاب ’آبشار اور آتش فشاں ‘ ان کے اِسی شعار کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ کتاب گیارہ طویل مقالات پر مشتمل ہے۔ 
فضیل جعفری کی پہلی تنقیدی تصنیف ’چٹان اور پانی‘ (۱۹۷۴ء) شروع سے آخرتک کئی متنازع ادبی مسائل کومحیط تھی۔ ان دنوں فضیل جوان العمر تھے اور جدیدیت کا زمانہ عروج تھا۔ محمودہاشمی، خلیل الرحمن اعظمی، وزیر آغا، شمس الرحمان فاروقی اورگوپی چند نارنگ کی تحریریں جدیدیت کا روزمرہ بن گئی تھیں۔ احتشام حسین اور عمیق حنفی کے مناظرے نے ان مباحث میں کافی شدت و حدت پیدا کردی تھی۔ اسی دوران فضیل بھی جدیدیت کے ایک اہم علم بردار کے طور پر ابھرے اور اس فتیلے کو آگ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ’چٹان اور پانی‘ میں انہوں نے ترقی پسندی کے برخلاف جدیدیت کو قائم کرنے نیز جدیدیت سے متعلق شکوک وشبہات کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جو قریب ترین پیش رَووں کی طرف سے پیدا کیے گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: کہاں سے کہاں تک

فضیل اردو ادب کے استاد نہیں تھے اس لئے نصابی انداز کا کوئی مضمون ’چٹان اور پانی‘ میں عنوان نہیں بنا۔ بیش تر مقالات متنازع، ہنگامہ خیز، بحث طلب اور معاصر ادبی مسائل کو مختص تھے۔ زبان بہت ڈھیلی ڈھالی، اکھڑی اکھڑی بلکہ اکثر صحافتی نوعیت کا شائبہ فراہم کرتی تھی۔ اس دور میں فضیل کی نظر بس مسئلے پر ہوتی تھی کہ کہیں کوئی بحث کی راہ نکل آئے تو پھر ان کو روکنا مشکل تھا۔ آؤ دیکھتے نہ تاؤ پل پڑتے۔ وہ اکھاڑ پچھاڑ مچاتے کہ ادبی ماحول عین سرما کے ٹھٹھرتے ہوئے دنوں میں بھی گرماگرم ہوجاتا اور پھر یار لوگوں کی وہ داد و دہش ملتی کہ فضیل اکھاڑہ چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ بشرنواز بھی کم من چلے نہیں تھے۔ رسالوں کے کیڑے تھے۔ مجال ہے کوئی تحریر ان کی نظر سے بچ جائے۔ فضیل کو وہ اور بشر کو فضیل شہ دیا کرتے تھے۔ ایک اعتبار سے فضیل انہیں پٹری پرلے آئے۔ بشر بھائی نے ان دنوں کئی نہایت عمدہ مضامین لکھے۔ نثر بھی خوب لکھتے تھے اور فضیل سے اچھے نثر نگار تھے لیکن بشر بھائی کو بھی بس کوئی مسئلہ درکار تھا، جہاں کوئی ادبی مسئلہ کھڑا ہوا، بشر بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوتے اور بے حد مدلل اور جامع گفتگو کرتے۔ فضیل کا انگریزی ادبیات کا پس منظر تھا اس لئے ان کی دلیلوں کی نہج کچھ اور ہوتی۔ فضیل جب تک اورنگ آباد میں انگریزی کے استاد رہے، شاعری کم کی مجادلے اور مناظرے زیادہ کئے۔ الہ آباد والے تھے اس لئے شب خون مارنا جیسے ان کی فطرت میں شامل تھا۔ معاف کیجئے گا یہ جملہ محض معترضہ تھا ورنہ فضیل کبھی شب خوں نہیں مارتے دوبدو، دو ٹوک، صاف اور شفاف گفتگو کرتے۔ ا ن کے اورنگ آباد سے جانے کے بعد بشر بھائی نے بھی تنقید کاکاروبار چھوڑ دیا، قاضی سلیم اپنی عادت کے مطابق میٹر گیج گاڑی کی طرح سست رفتاری پر قائم رہے۔ سلیم بھائی (قاضی سلیم) کا دربار سلامت تھا، ادبی مسائل کے حل کیلئے وہی ایک محفوظ جگہ تھی اور جوگندرپال کا دم غنیمت تھا، جو پھونک پھونک کر اورنگ آباد کی ادبی فضا کو تازہ دم رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ 
’آبشار اور آتش فشاں ‘ کے بالترتیب دو مضامین موسوم بہ ’ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی‘ اور تھیوری، امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعدجدیدیت ‘ میں مابعد جدیدیت پر فضیل اسی طرح حملہ آور ہوئے ہیں جس طرح ’چٹان اورپانی‘ میں ترقی پسندوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ان مضامین کو پڑھنے کے فوری بعد یہ ضرور محسوس ہواتھا کہ فضیل کی نگاہیں کہیں پرتھیں اورنشانے پر کوئی اورتھا۔ ورنہ دونوں مضامین میں محض ان حوالوں کو بنیاد بنا کرباتیں زیادہ بنائی گئی ہیں جو تصویر کے محض ایک رخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ 
اس مختصر تحریر میں فضیل جعفری کے خیالات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی نہ توگنجائش ہے اور نہ ہی مجھے مناظرہ آرائی سے کوئی خاص ذہنی نسبت ہے، بس اتنا ہی کہناچاہوں گاکہ جو حوالے انہوں نے مابعدجدیدیت کو مسترد کرنے کی غرض سے یکجا کئے ہیں وہ یقیناًکم اہم نہیں ہیں لیکن مابعد جدیدیت کے حق میں جن کتابوں کا ایک انبارسا لگا ہے، انہیں چھونے کی بھی انہوں نے زحمت نہیں کی۔ 
فضیل جعفری نے مابعد جدیدیت کے تعین زماں کے مسئلے پر بھی بحث کی ہے۔ جدیدیت کے آغاز اور خاتمے کے بارے میں بھی ہم کسی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہوسکتے۔ آخری تجزیے کے طور پر بس یہی کہہ کرتسلی کرلی جاتی ہے کہ جدیدیت ایک سلسلہ جاریہ ہے اور ہردور کی جدیدیت کے اپنے تقاضے اوراپنی پہچان کے معیار ہوتے ہیں۔ ایندریو بینیٹ بھی مابعدجدیدیت کے تعلق سے اس خیال کاحامی ہے کہ مابعد جدیدیت میں ’مابعد‘ کاسابقہ خود ایک استبعاد کا حکم رکھتا ہے۔ کیوں کہ (مابعد Post) یا عصری (جدید Modern) کے بعد کیا۔ عصری کے بعد کیسے کوئی چیز واقع ہوسکتی ہے جبکہ عصری محض عرصۂ رواں سے عبارت ہے۔ اس صورت میں وہ مابعد جدیدیت کے کسی بھی زمانی تعین کے خلاف ہے۔ جیسے جدیدیت کیلئے وقت کا تعین خودایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اگرمعروضیت کے ساتھ غور کیا جائے تو جدیدیت کی قائم کردہ لفظیات اور مابعد جدیدیت کی لفظیات کے تقابل ہی سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ (خصوصاً) ادبی مطالعے میں دونوں میں جتنا اتفاق ہے اختلاف اس سے کم نہیں ہے۔ 
جدیدیت کی طرح مابعد جدیدیت سے بھی اختلاف کی کافی گنجائش ہے، لیکن مابعد جدیدیت نے ادب کی تفہیم کے دائرے کو وسیع بھی کیاہے اورانکار کی اس روش کو برقرار بھی رکھا ہے، جس کیلئے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ انکاریت ایک ایسی وبا ہے جو مغربی معقولیت پسندوں کی طویل روایت، استقامت اور اخلاقی نفاست کے تئیں ایک چیلنج کا حکم رکھتی ہے۔ مابعدجدید تصورکے تناظرمیں ردتشکیل Deconsrtuction کی خاص اہمیت ہے، جس کے بارے میں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ کیا واقعی اس کا مقصد ہر اس روایت کوتہس نہس کرنا ہے (جیسے جدیدیت کے تشکیلی تناظر میں مستقبلیت اور دا دائیت وغیرہ کے علاوہ ایبسرڈِٹی کے تصور کا خاص حصہ تھا جن کی بنائے ترجیح انکار یعنی NO پر تھی) جو صدیوں سے نکھرتی، سنورتی اورمنتقل ہوتی چلی آرہی ہے یااس تنظیم ہی کی مخالفت اس کے مقصد میں شامل ہے جوانسانوں کو یکجہتی کے ساتھ زندگی بسرکرنے کے بلند کوش مقصد پر استوار ہے۔ کیا ردتشکیل کے پاس ان شبہات کا کوئی تدارک ہے کہ اس نے بھی Cynic علم و اشاعت کیلئے زمین تیار کی ہے جودانش ورانہ منظرنامے میں ایک ایسے مہلک کیڑے کی طرح ہے جو نباتات کواندر اور باہرکی طرف کھوکھلا اور چھلنی کردیتاہے۔ 
فضیل جعفری کی اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نظریات کے مباحث کو محض دو مضامین تک محدود رکھا ہے۔ دوسرے تمام مضامین کاتعلق اطلاقی سے زیادہ عملی تنقید سے ہے۔ عملی تنقید میں فضیل پہلے سے قائم کردہ دعوؤں کی تکرار سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ اپنے اس عمل میں وہ دوسروں نقادوں کی طرح مغربی حوالوں کی بارات نہیں سجاتے اور نہ ہی اقرار پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ ’انکار‘ ان کی تنقید کا بھی سب سے نمایاں کردار ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK