Inquilab Logo

غزہ ہر جا اور ہر سو‘ ہے، غزہ آج ہمارے دلوں میں ہے

Updated: March 10, 2024, 2:04 PM IST | Ranjit Hoskote | Mumbai

معروف انگریزی شاعر، نقاد، ثقافتی نظریہ ساز اور آرٹ کیوریٹر رنجیت ہوسکوٹے کا وہ کلیدی خطبہ جو انہوں نے گوا آرٹ اینڈ لٹریچر فیسٹول ۱۵؍ تا ۱۷؍ فروری ۲۰۲۴ء میں دیا تھا۔ اسکرول نے یہ خطبہ انگریزی میں شائع کیا اور اردو ترجمہ رحمٰن عباس نے کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

میں  چاہوں گا کہ غزہ کے بچوں کیلئے دعا میں آپ میرے ساتھ شامل ہوجائیں۔ دُعا ان بچوں کیلئے جو اندھادھند فضائی بمباری اور گولہ باری میں ہلاک کئے گئے ہیں۔ اب وہ اپنے گھروں، اسکولوں، کتب خانوں اور اسپتالوں کے ملبے تلے دفن ہیں۔ اِس لمحے جب ہم یہاں اکٹھا ہوئے ہیں رفح شہر کے بچے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہیں  معلوم ہے ان کے سروں پر نسل کش قوتیں موجود ہیں۔ کہیں  سے کسی مدد کا امکان نہیں  ہے۔ جب رفح کے بچے کھچے بچے بھی قتل ہوجائینگے تو اس کے ساتھ فلسطین کا مستقبل بھی مر جائے گا۔ ایک لمحے کیلئے بھی یہ تصور نہ کریں کہ غزہ ہم سے بہت دور ہے۔ غزہ ہر جا اور ہر سو ٗہے۔ غزہ اس ہوا میں ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ غزہ آج ہمارے دلوں میں ہے۔ 
  غور کیجئے! اسرائیل میں مکمل نگرانی کیلئےجو ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے اس کا استعمال بھارت میں اختلاف، استدلال اور مزاحمت کی آوازوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ بھارت میں تیار کردہ ڈرون، اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) غزہ کی شہری آبادی بشمول بچوں، خواتین اور مردوں کے خلاف حملوں میں استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کا مالی اور فوجی تعاون جاری رکھا ہے جبکہ ان ددنوں ممالک کے باضمیر اور بہادر شہریوں کی بڑی تعدادنے اس کی مخالفت کی ہے۔ یہ لوگ اس بربریت اور تباہی کی مہم پر ششدر ہیں۔ جرمنی اسرائیل کو مسلح کر رہا ہےاور اس کے موقف کا دفاع کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جرمن پارلیمنٹ کے بہت سے ارکان کا خیال ہے کہ ایک وحشت ناک نسل کشی ( ہولوکاسٹ) کا کفارہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ دوسرے نقبہ کی مدد کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 
  اس دنیا میں ہم جہاں کہیں بھی ہوں جغرافیائی لحاظ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہوں لیکن ہمارا مقدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ 
  لوگوں  کو کنٹرول کر نے کیلئے مستعمل ضوابط، رکاوٹیں پیدا کرنے کے اسالیب، جبر کےہتھکنڈے اور دربدر کرنے کی تکنیکیں آج غزہ، کشمیر، منی پور، معدنیات سے مالا مال بھارت کے آدیباسی اضلاع اور دہلی کی سرحدوں پر ایک دوسرےمیں  متبدل ہو سکتی ہیں۔ جہاں بھارت کے کسان انصاف کا مطالبہ کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ 
  مختصراً، عرض کروں  کہ جہاں بھی پولرائزیشن ایک کلیدی سیاسی مظہر، انتقام ایک ثقافتی اصول اور انتقام پسندی سماجی تعلقات پر غالب ہوئی ہے، وہیں جہاں کہیں بھی Führerprinzip، Führer کا اصول اثر و رسوخ رکھتا ہے (یہ جرمن زبان کے الفاظ ہیں  جن کا مطب، ہمارا لیڈر اور لیڈرشپ کی پارٹی میں مطلق العناعیت کے معنوں میں  استعمال ہوتے ہیں )۔ دوسری طرف ان الفاظ کا مطلب افراد کا سیاسی لیڈرشپ کے سامنے سربسجود ہونا ہے۔ ان مقامات/ ممالک میں احکامات اوپر سے صادر ہوتے ہیں جبکہ مطلق فرمانبرداری نیچے سے اوپر کی طرف سفر کرتی ہے۔ 
 اس نازک اور تکلیف دہ تاریخی لمحے پر گہری اداسی کے جذبے سے مغلوب مَیں جرمن زبان میں لکھی گئی عظیم و متاثرکن نظموں میں سے ایک نظم آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ نظم نومبر ۱۹۱۴ء میں لکھی گئی تھی۔ عنوان ہے ’گروڈیک۔ ‘ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کی سب سے خونریز لڑائیوں میں سے ایک کے بعد، جو ستمبر ۱۹۱۴ء کے اوائل میں مشرقی محاذ پر آسٹریا و ہنگری سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان لڑی گئی، وہ جگہ جو کبھی ’گالیسیا‘ Galicia کہلاتی تھی آج یوکرین کا حصہ ہے۔ یوکرین جو اب، جنگ اور تباہی کا ایک باب ہے۔ ایسا علاقہ جہاں انسانی زندگی اور صلاحیتوں کو بے ہودگی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہے۔ 
 آسٹریا میں پیدا ہونے والے شاعر جارج ٹراکل (۱۹۱۴ء۔ ۱۸۸۷ء) نے یہ نظم لکھی ہے۔ جارج ٹراکل نےآسٹریا اور ہنگری کی فوج میں بطور میڈیکل آفیسر شرکت کی تھی اورجنگ کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ بطورِ اآفیسر، ٹراکل نے فوجیوں کی مخدوش لاشوں کو دیکھا۔ ان لوگوں کا علاج کیا جو شدید طو پر زخمی اور معذور ہوئے تھے۔ اسے لڑائی میں ہلاک ہونے والوں کا حساب رکھنا تھا۔ وہ تمام نوجوان جن کے پیش نظر ان کی زندگی کی تمام آرائشیں تھیں وہ سب ان کیلئے ایک ایسے افق کی مانند تھا جو مفقود ہوگیا۔ ’گروڈیک‘ ٹراکل کی آخری نظم تھی۔ یہ جنگ کے دو ماہ بعد، اس کی وصیت کے پیچھےدرج ملی۔ سنجیدہ معنوں میں ’گروڈیک‘ اس کی آخری وصیت اور شہادت ہے۔ اس کا اثاثہ، روح کو چھونے والی آواز میں مجسم ہے۔ اس نے ویانا میں  رہنے والے اپنے دوست اور سرپرست، لڈوِگ وان فیکر کو یہ نظم ارسال کرنے کے فوراً بعد خود کشی کر لی تھی۔ یہ قیمت اس نے ادا کی تھی اس ناقابلِ برداشت ہولناکی کی گواہی دینے کیلئے جس نے اس کی حساسیت کو چیلنج کیا، اس کا مذاق اڑایا۔ زبان کےمروجہ وسائل نے انکار کیا جن وسائل کو وہ اس ہولناکی کا مقابلہ کرنے کیلئے طلب کر سکتا تھا، استعمال کر سکتا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجئے:
At evening, the autumn forests ring out
with deadly weapons, the golden plains
and blue lakes, over which the sun
 rolls darkly; the night rounds up
dying soldiers, the feral wails
from their smashed mouths.
But quietly they muster in the willow grove:
red clouds that host an angry god,
the spilled blood itself, moonlike coolness;
all roads meet in black rot.
Under the night’s golden branches and the stars
Sister Shadow sways through the silent wood
to greet the ghosts of heroes, the bloodied heads;
and the faint sound, in gun barrels, of autumn’s dark flutes.
O prouder grief! You bronze altars
the spirit’s hot flame feeds on a vast agony today,
the grandchildren never to be born. 
(جرمن سے انگریزی ترجمہ، رنجیت ہوسکوٹے)
 بحیثیت مصنفین! ہم جانتے ہیں کہ ہمارا ارتکاز، لکھنا، تخلیق کرنا ایک قسم کی داخلی مراجعت سے مشروط ہے۔ ہم ایک گہری داخلیت میں  جیتے ہوئے ردعمل کرتے ہیں، دنیا سے مکالمہ کرتے ہیں، لیکن مکالمے کے باوجود ہم خارجیت کا شکار نہیں  ہوتے۔ ہم اپنی یکسوئی اور تنہائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے ایک ضروری شرط تصورکرتے ہیں جس میں ہماری تخلیقی صلاحیتیں بغیر کسی رکاوٹ کے پنپ سکتی ہیں۔ اور بلاشبہ اس میں  صداقت ہے اور یہ ہمارا تجربہ ہے۔ تاہم، اس موقف میں جو مسئلہ درپیش ہے، اگر واقعی اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اس کا ایک مطلب ’ تلاشِ عافیت‘ ہے یا ’پرائیویٹزم‘ جو ہنگامی صورت حال میں ہمیں  تحفظ عطا کرتا ہے۔ یہ موقف ایک ایسی خاموشی ہے جو ہر قسم کی تنقید اور ردعمل سے منہ موڑ لیتی ہے جبکہ حالات کے گواہ پر تنقید کرنا ہمارے کام کا حصہ ہے۔ 
 ہم تنقید کے اس اختیار سے، تنقید کے اس اخلاقی فرض سے منہ نہیں موڑ سکتے، بالخصوص اس وقت جب صورت ِحال ہمیں  مجبور کرے کہ ہم اپنی روش بدلیں۔ ہاں ! ہم اس خام خیالی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ ہماری آوازیں معمولی ہیں، کوئی انھیں سننے والا نہیں  ہے۔ ہمارے پاس لوگوں کو دینے کے لئے نہ تسلی ہے اور نہ اعتماد۔ ہمارے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جو ہم قارئین کو بتا سکیں۔ لیکن یہ ایک غلطی ہوگی۔ ہم خود کو یہ کہہ کر بہلا نہیں  سکتے کہ سب کچھ اطمینان بخش ہےاور دوسری طرف عین اسی وقت اپنے اہداف حاصل کرنے کی جستجو میں بھی گرفتار ہوں۔ ہم تصوراتی سفر کے مسافر ادیب ہیں اور اس سفر پر توجہ دینے کے پابند ہیں۔ لیکن ہم ایک آئینی طور پر تصور شدہ قومی ریاست کے شہری بھی ہیں اور وسیع تر معنوں میں ایک ایسی دنیا کے شہری ہیں جو تمام تضادات، نفع نقصان، ناخوشگوار اور حیران کن حالات کے باوجود ایک دوسرے سے باہم مربوط اور وابستہ ہے۔ 
 وہ تخلیقی آزادی جس کی ہم والہانہ خواہش رکھتے ہیں، اسے ہم اُن وسیع تر آزادیوں سے الگ نہیں کر سکتے جو ہم وطنوں کے ساتھ مشترکہ رکھتے ہیں۔ اسی میں ضمانت ہے ہماری بقا، خود مختاری، اور اس دائرۂ کارکی جس میں ہم اپنی امیدوں اور خوابوں کو تلاش اور حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ آزادیاں ہیں جن کا ہمیں  تحفظ کرنا چاہیے۔ 
 بحیثیت مصنف و شہری، ہمارا فرض ہے کہ ہم طاقت کی مشینری (اقتدار)کے ذریعے آزادی، انتخاب اور انفرادی خودمختاری کی تحریف اور تخریب کے خلاف گواہ بنیں۔ جیسا کہ اردو کے عظیم شاعر میر تقی میر (۱۸۱۰ء۔ ۱۷۲۳ء) نے لکھا: 
شاعر ہو مت چپکے رہو اب چپ میں جانیں جاتی ہیں 
بات کرو ابیات پڑھو کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو 
(میر تقی میر، دیوان پنجم)
 اہم بات یہ ہے کہ اردولفظـ ’بیت‘ ( اصلاًعربی لفظ ہے) اورشعر کے معنی میں مستعمل ہے۔ ’بیت ‘کا لفظی ترجمہ ’گھر‘ ہے۔ میر نے دو مرتبہ جمع کے صیغے میں  اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ اس کا تخاطب اشرافیہ اور عوام الناس دونوں ہیں۔ ’ ـابیات‘ اور’ بیتیں ‘میں پورا معاشرہ شامل ہے، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، اشرافیہ ہوں یا مزدور و کاریگر، جو مظلوم ہیں، جن پر خاموشی طاری ہے۔ میر گویا خود سے کہہ رہا ہے کہ آزادانہ اور بے خوف تقریر کے فرض سے کبھی دستبردارنہیں ہونا چاہیے۔ جانیں تو تب بھی جا رہی ہیں جب لوگوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ دوسری طرف اہل اقتدار لوگوں کو بے گھر کر رہے ہیں اور احساس تحفظ سے محروم کر رہے ہیں۔ لوگوں  کو پناہ گزینوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے لوگ ایسے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھانے پر مصر ہیں  کہ عہدِ حاضر کے فوری و ہنگامی مسائل کو حل کرنے کا یہ صحیح وقت نہیں  ہے۔ حق گوئی کا، یا وہ بات کہنے کا جس کو کہا جانا چاہئے یا اقتدار کے سامنے سچ بولنے کا یہ صحیح وقت نہیں  ہے۔ وہ کہتے ہیں :
 نسلی یا فرقہ وارانہ حساسیت داؤ پر لگی ہوئی ہے، یہ صحیح وقت نہیں ہے
 سیاسی ردعمل شدید ہو گا، یہ صحیح وقت نہیں ہے
 عوام کا موڈ خراب ہے، یہ صحیح وقت نہیں ہے
 سفارتی مسائل داؤ پر لگے ہوئے ہیں، یہ صحیح وقت نہیں ہے
 ہمارے پاس اپنے اختلاف کے اندراج کے لئے مناسب تعاون نہیں  ہے، یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ 
  بالآخریہ صحیح وقت کب آئے گا؟ میں اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوں اور اس وقت چھ بج کر پچپن منٹ ہو رہے ہیں اورمیرے خیال میں یہی صحیح وقت ہے، اب اور ابھی، صرف یہی صحیح وقت ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا یہی صحیح وقت ہے۔ اپنی آواز بلند کرنے کیلئےباہم موسیقی کی طرح ہم بھی مل کر کثیر الصوت ہیں، ہم ایک کمیونٹی ایک معاشرہ ہیں، ہم ایک اجتماع ایک اسمبلی ہیں۔ ہم یک جہتی ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے۔ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے۔ سنسر شپ اور جمہوریت میں اختلاف کی آزادی کو سلب کرنے والوں اور احتجاج کو خاموش کرنے کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے… ہر نئی منصوبہ بندی، ہتھکنڈے اور حکمت علمی جس کا استعمال اقتدار آزادی کو روکنے اور کم کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ہمارا تجسس، تخلیقی کاوشات، محبت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی ہماری کشادگی، اعتماد، اخلاقی یقین، جسارت، ہمارا استحقاق ہے۔ اجتماعی ماضی کوآشکار کرنا ہمارا استحقاق ہے اور اجتماعی مستقل کو تصور کرنا ہمارا حق ہے۔ ایک مخصوص نظریاتی تصور ِماضی اور مرکزی طور پر منصوبہ بند مستقبل کے کسی بھی طے شدہ تصور میں شامل نہ ہونا ہمارا استحقا ق ہے۔ 
 اور یہ بات کہنے کا یہی صحیح وقت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK