• Tue, 23 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’شاعری اور خطاطی کی وجہ سے اُردو سیکھی ‘‘

Updated: September 23, 2025, 5:51 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو کے دلدادہ باپو پٹوردھن سے یہ زبان سیکھنے والی شخصیات سے گفتگو کہ انہیں اردو دلچسپ اور پرکشش کیوں محسوس ہوئی؟

Picture: INN
تصویر: آئی این این

زبان کسی بھی تہذیب کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں ایک خاص دلکشی اور تاثیر موجود ہے لیکن اردو کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ زبان نہ صرف ہندوستان کی گلیوں اور کوچوں میں پروان چڑھی بلکہ اپنے مخصوص لب و لہجے، مٹھاس اور نرمی کے باعث لاکھوں دلوں کو مسخر کر چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے حسن و جمال سے متاثر ہوکر غیر اردو داں افراد بھی اس زبان کو سیکھنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اردو کا سب سے نمایاں پہلو اس کا لب و لہجہ ہے۔ نرمی، شائستگی اور لطافت اس زبان کا زیور ہیں۔ جب کوئی شخص اردو کے اشعار سنتا ہے یا کسی غزل کی دلنشین محفل میں شریک ہوتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ زبان دلوں کو جوڑنے کے لئے ہی بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اردو داں طبقہ بھی اس کی مٹھاس کو محسوس کرتا ہے اور اس کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو ادب، خصوصاً شاعری نے دنیا بھر میں اپنے دیوانے بنائے ہیں۔ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ اور جوشؔ جیسے شعرءا نے ایسے شاہکار تخلیق کئے جن کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا لیکن پھر بھی اردو کی اصل روانی اور اثر انگیزی کسی ترجمے میں نہیں ملتی۔ یہی کشش غیر اردو داں افراد کو اس زبان کی طرف کھینچتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ براہ راست اصل زبان میں اس کے سمعی و بصری حسن سے لطف اندوز ہوں۔ اردو کے فروغ میں فلموں، ڈراموں اور موسیقی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بالی ووڈ کی رومانی شاعری اور مکالمے، ڈراموں کی زبان و بیان اور صوفیانہ کلام کی نغمگی نے اردو کو غیر اردو داں حلقوں میں بے حد مقبول بنا دیا ہے۔ اکثر لوگ فلمی گیتوں یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سے متاثر ہوکر اردو رسم الخط سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اردو زبان میں صوفی شعراء نے جس رنگ کو پروان چڑھایا، وہ بھی غیر معمولی ہے۔ آج دنیا کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جارہی ہے۔ ایسے طلبہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے وہ نہایت خوشدلی سے اس زبان کو سیکھ رہے ہیں۔ 
 گزشتہ دنوں اسی اخبار کے معروف کالم ’گوشہ ٔ بزرگاں ‘ میں اردو کی دلدادہ شخصیت باپو پٹوردھن سے گفتگو پیش کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اب تک وہ کم از ۵؍ سو افراد کو اردو زبان سکھاچکے ہیں۔ ان کے طلبہ میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ہیں۔ ہم نے باپو پٹوردھن سے اردو سیکھنے والی انہی شخصیات سے گفتگو کی اور یہ جاننا چاہا کہ وہ اردو کے قریب کیسے اور کیوں آئے ؟ اور یہ زبان انہیں اتنی دلچسپ کیوں لگی ؟ 
 فری لانس صحافی اور بینکر نندنی آتم سدھا نے بتایا کہ ’’میں نے ۹۰ء کی دہائی میں اردو سیکھنی شروع کی تھی۔ اس زبان کے الفاظ اور خاص طور پر شاعری جب بھی سنتی تھی تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ یہ زبان سیکھنی ہی چاہئے۔ ‘‘ انہوں نے پہلے ہندوستانی پرچار سبھا میں اردو کلاسیز میں داخلہ لیا جہاں محمد حسین پرکار اور باپو پٹوردھن صاحب نے انہیں اردو سکھانا شروع کیا۔ نندنی آتم سدھا کہتی ہیں کہ اسی دوران ان کا واسطہ غالبؔ کی شاعری سے ہوا اور انہیں یہ احساس ہوا کہ اب تک جو شاعری بھی انہوں نے پڑھی ہے وہ غالب کے سامنےکمتر ہے۔ غالب کا اردو کلام پڑھتے پڑھتے انہیں ان کا فارسی کلام پڑھنے کا شوق ہوا اور پھر اس کے لئے خاص طور پر انہوں نے فارسی بھی سیکھی۔ اب وہ دونوں ہی زبانیں بہت اچھی طرح پڑھ اور لکھ لیتی ہیں اور اس کا کریڈٹ وہ باپو پٹوردھن اور محمد حسین پرکار کو دیتی ہیں۔ 
 اسمتابیگ جو آرٹسٹ ہیں ، اردو کی خطاطی اور رسم الخط کی وجہ سے اس زبان کے قریب آئیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اردو کا سب سے بڑا ’مقناطیس ‘ اس کی شاعری ہے جو اس کے سننے والے کو اپنی جانب کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میں خود شاعری اور اس زبان کے خوبصورت اور نہایت نفیس رسم الخط کی وجہ سے اس کے قریب آئی ہوں۔ ‘‘ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ہندوستانی پرچار سبھا میں اردو سیکھ چکی ہیں جہاں پٹوردھن صاحب اورمحمد حسین پرکارسر نے ہمیں یہ زبان سکھانے میں انتھک محنت کی۔ 
 اودھوت منموہن کلکرنی صاحب نے بی ایم سی سے بطور ایڈمنسٹریٹیو آفیسر وظیفۂ حسن خدمت پر سبکدوشی کے بعد یہ زبان سیکھنی شروع کی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ اردو سے لگائو تو پہلے سے تھا لیکن اسے باقاعدہ سیکھنے کا وقت نہیں تھا لیکن جب ریٹائر ہوا تو پھر وقت ہی وقت ملا اور میں نے یہ خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی زبان سیکھنا شروع کیا۔ باپو پٹوردھن نے بہت محنت سے ہمیں یہ زبان اور اس کے رموز سکھانے شروع کئے۔ ‘‘ کلکرنی صاحب کے مطابق اردو کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے فارسی کی شدبد بھی ضرور ی ہے اس لئے انہوں نے ایران کلچرل ہائوس سے فارسی بھی سیکھی اور اب وہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل زبان کی طرح نہ سہی لیکن بہت اچھی اردو میں وہ بات کرسکتے ہیں اور اس زبان کے اخبارات اور کتابیں آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ 
 پوجا دیشپانڈے کے لئے اردو سے دلچسپی کی وجہ ان کے والد اور دادا بنے۔ ان کے دادا خود اردو میڈیم سے تعلیم یافتہ تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے بھی یہ ز بان ضرور سیکھیں۔ پوجا کے والد نےبھی دلچسپی دکھائی لیکن پوجا نے یہ زبان باقاعدہ سیکھی۔ پوجا دیشپانڈے درس و تدریس سے وابستہ ہیں، ایک انٹر نیشنل اسکول میں بین الاقوامی زبان کی ٹیچر ہیں۔ وہ اسکول میں چینی زبان پڑھاتی ہیں اور اکثر چین کا دورہ بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام مصروفیات کے باوجود وہ اردو سیکھنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ اردو سے قربت کا سبب وہ بھی شاعری کو ہی قرار دیتی ہیں لیکن کہتی ہیں کہ اردو کا رسم الخط بھی اپنے آپ میں بہت زیادہ کشش رکھتا ہے۔ اردو میں لکھے گئے فلمی گیت اور غزلیں انہیں بہت پسند ہیں اور کہتی ہیں کہ شاعری ایسا ذریعہ ہے جو مستقبل میں بھی ہزاروں لوگوں کو اس زبان کے قریب لانے کا سبب بنے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK