• Sun, 05 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ترجمہ کی اہمیت تخلیق سے کم نہیں، اس میں تخلیق کو ازسر ِنو پانا ہوتا ہے

Updated: October 05, 2025, 11:19 AM IST | Ale Ahmad Suroor | Mumbai

مترجم کو صرف زبان ہی نہیں، موضوع سے بھی واقفیت ہونا ضروری ہے، اس کے ساتھ ہی اپنی زبان پر بھی عبور ہونا چاہئےبصورت دیگر ایسا ترجمہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا جیسے ناہموار راستے سے گزرنا۔

The hallmark of a civilized language is that it has the capacity for both literary and academic expression. Photo: INN
مہذب زبان کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ ادبی اور علمی دونوں کے اظہار کے لئے سرمایہ رکھتی ہو۔ تصویر: آئی این این

زبان کی سہولت کے لئے تین قسمیں کی جاسکتی ہیں۔ ایک کاروباری زبان جس میں اپنا مطلب کسی طرح نکالنا ہوتا ہے جس میں معنی کی ایک ہی سطح پر توجہ ہوتی ہے۔ اس میں منطقی ترتیب، بہتر لفظ یا موزوں ترین لفظ کی قید نہیں ہوتی۔ یہ زبان اسم، صفت یا فعل کے سیدھے سادے استعمال سے کام چلاتی ہے۔ دوسری قسم ادبی زبان کی ہے جس میں لفظ کا تخلیقی استعمال شاعری میں اور تعمیری استعمال نثر میں ہوتا ہے۔ ادبی زبان میں ماورائے سخن بھی بات ہوتی ہے۔ زبان تشبیہ، استعارے، علامت اور رمز و ایما کی وجہ سے گنجینۂ معنی کا طلسم ہوتی ہے۔ یہاں ’’کیا کہا گیا ہے ‘‘ سے زیادہ کیسے کہا گیا ہے‘‘ پر توجہ ہوتی ہے۔ تیسری قسم علمی زبان کی ہے۔ علمی زبان میں اظہار منطقی ہوتا ہے، حقیقی مفہوم ادا کرنے پر توجہ ہوتی ہے۔ کاروباری زبان میں سیدھے سادے خیال اور فوری مطلب کو ادا کرنے کی کوشش ہوتی ہے، علمی زبان میں پیچیدہ سے پیچیدہ خیال کو اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ وہ ذہن میں روشنی کردے۔ مہذب زبان کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ ادبی اور علمی دونوں کے اظہار کے لئے سرمایہ رکھتی ہو۔ کاروباری اظہار تو زبان کی ابتدائی حالت میں بھی کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے۔ 
مشرقی زبانوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ جذباتی اظہار پر تو پوری طرح قادر ہیں مگر ذہنی اظہار کے لئے انہیں ابھی بہت ترقی کرنا ہے۔ گویا ادبی اظہار کے علاوہ علمی معیار سے بہت ترقی کی گنجائش ہے۔ ایک زمانے میں شاعری علوم کی زبان بھی تھی مگر رفتہ رفتہ اس نے اپنے مخصوص کردار کو پہچان لیا۔ اب مغرب میں کوئی تاریخ نظم نہیں کرتا نہ منظوم جغرافیہ لکھتا ہے، نہ نفسیات اور معاشیات کے مسائل نظم کرتا ہے۔ شاعری فرد کے جذبے کی ترجمان بن گئی اور نثر اس کے ذہن کی۔ علمی نثر کی ترقی اسی میلان کا نتیجہ ہے۔ اس ترقی نے شاعری کو بھی فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ ادبی اظہار اور علمی اظہار الگ الگ راستوں پر گامزن ہونے کے باوجود چور دروازوں اور پگڈنڈیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
 ترجمے کے کام کو اب تک تصنیف کے مقابلے میں عام طور پر حقیر سمجھا گیا ہے۔ یہ بہت غلط میلان ہے۔ ترجمے کی اہمیت کسی طرح تخلیق سے کم نہیں۔ ترجمے میں تخلیق کو ازسرنو پانا ہوتا ہے اس لئے امریکہ میں ترجمہ کے لئے دوبارہ تخلیق (Recreation)کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ترجمے کے ذریعے سے ہم دوسری زبانوں کے افکار و اقدار سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایک فاضل کے الفاظ میں مترجم کا کام صرف لسانیاتی نہیں ، بشریاتی بھی ہے یعنی اسے صرف اصل زبان سے ہی واقفیت نہیں ہونی چاہئے، اسے اس زبان کی تہذیب اور معاشرے سے بھی آشنا ہونا چاہئے۔ اس کی دو مثالیں دینا ضروری ہیں تاکہ بات واضح ہوجائے۔ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کے لئے روم کی تاریخ کے ترجمے میں Papal Bulls کا ترجمہ پاپائی سانڈ کیا گیا تھا۔ اردو کے ایک ممتاز ادیب نے اپنی کتاب میں شیکسپئر کے ایک ڈرامے (As You Like It) سے ژاک کی ایک تقریر کا حولہ دیا۔ اس میں لفظ Humour کا ترجمہ مزاح کیا گیا تھا حالانکہ یہاں طبی اصطلاحِ خلط مراد ہے۔ 
مغرب کی رومانی تحریک میں مشرقی ادب کے تراجم کا بڑا اثر ہے۔ جدیدیت کی تحریک میں چین اور جاپان کی شاعری کے تراجم کا بھی دخل ہے۔ ہندوستان کی نشاۃ الثانیہ پر مغربی ادب کے تراجم براہ راست اثرانداز ہوئے ہیں۔ ہماری علمی نثر اور جدید نظم دونوں مغربی تراجم کے سہارے آگے بڑھے ہیں اس لئے ترجمے کی اہمیت کسی طرح تخلیق یا تصنیف سے کم نہیں۔ یہ تخلیق کے لئے بھی نئے زمین و آسمان دیتا ہے اور علمی موضوعات پر تصانیف کے لئے بھی ذہنی غذا مہیا کرتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ علمی کتابوں کے ترجمے میں آزاد ترجمے یا اصل خیال کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہاں وہی بات ہے کہ خوب پیو ورنہ مقدس چشمے کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ یہاں صرف لفظی ترجمے اور مطابق اصل ترجمے یعنی Literal and Faithful پر گفتگو ہوسکتی ہے۔ لفظی ترجمے میں لسانیات کی رو سے ایک متنی اظہار کو دوسرے متبادل متنی اظہار میں منتقل کرنا ہوتا ہے لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیاہے، ترجمہ صرف لسانیاتی عمل نہیں بشریاتی عمل بھی ہے، اس لئے ظاہر ہے کہ مطابق اصل کو ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ ہر زبان کی صرفی و نحوی خصوصیات علاحدہ ہوتی ہیں خصوصاً انگریزی ترجمے میں تو لفظی ترجمہ مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ اسی لئے مطابق اصل کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اصل زبان کے متن کو ترجمے کی زبان کے ایسے الفاظ میں ڈھالا جائے جو ترجمے کی زبان کی جینئس کے مطابق ہوں مگر اصل زبان کے مفہوم کو زیادہ ظاہر کرنے پر قادر ہوں ۔ یوں تو ایلیٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’کسی زبان کی شاعری کا ترجمہ دوسری زبان میں ناممکن ہے‘‘مگر ترجمے ہوئے ہیں اور ان کے اثرات بھی پڑے ہیں۔ ترجمے کو جووٹ نے ایک مفاہمہ کہا ہے۔ یہ مفاہمہ بہرحال کبھی زیادہ کامیاب ہوتا ہے کبھی کم مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ ترجمہ نہیں ہوسکتا یا ترجمہ نہیں کرنا چاہئے۔ 
جہاں تک ادب العالیہ یا علمی سرمائے کے ترجمے کا سوال ہے، اس سلسلے کی افادیت میں شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں مطابق اصل ترجمے پر زور دیا جاسکتا ہے۔ اس ترجمے کے لئے چند شرائط ہیں۔ مترجم اس موضوع سے واقفیت رکھتا ہو اور اپنی زبان کے سرمائے پر بھرپور نظر کے علاوہ اصل زبان سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔ اگر وہ موضوع سے واقف ہے اور اصل زبان سے بھی بڑی حد تک آشنا ہے مگر اپنی زبان کے سرمائے پر اس کی نظر نہیں ہے تو وہ جابجا ٹھوکریں کھائے گا، اس کی زبان اکھڑی اکھڑی ہوگی اور اس کا ترجمہ پڑھنا ایسا ہوگا جیسے ناہموار راستے سے گزرنا۔ اگر وہ اپنی زبان پر عبور رکھتا ہے مگر اصل زبان سے اس کی واقفیت محدود ہے تو ظاہر ہے اور بھی خطرناک صورت پیدا ہوجائے گی۔ پھر علوم کے تراجم میں زبان یا زبانیں جاننے سے بھی مقدم اس علم سے واقفیت ہے اس لئے بھول کر بھی صرف زبان پر یا زبانوں پر عبور کی وجہ سے ترجمے کا کام کسی کو نہ دینا چاہئے۔ موضوع سے واقفیت بنیادی شرائط ہیں۔ اس کے بعد اصل زبان سے اور پھر اپنی زبان سے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیٹرائٹ (امریکہ کے Mass Translation Project میں یہ طریقہ بتایا گیا ہے : مترجم معیار کا نگراں، ٹیکنیکل ایڈیٹر اور زبان کا ایڈیٹر۔ اس لئے میری رائے میں ترقی اردو بورڈ کو خالص علمی کتابوں کے ترجمے میں پہلے تو موضوع کے ماہر کا انتخاب کرنا چاہئے، اس کے بعد ترجمے کے معیار کو پرکھنے کے لئے ایک دوسرے ماہر کو کتاب دکھانا چاہئے جسے تراجم کا بھی تجربہ ہو اور اس کے بعد ٹیکنیکل ایڈیٹر سے مدد لینا چاہئے جویہ دیکھے کہ مواد کی ترتیب، اعداد و شمار، چارٹ وغیرہ درست ہیں۔ آخر میں زبان کے ماہر کی نظر بھی ضروری ہے تاکہ ترجمہ زبان جینئس کے مطابق ہو اور الفاظ کی نشست اور جملوں کی ساخت اجنبی نہ معلوم ہو۔ 
ترجمے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ اصل میں کمی بیشی نہ کی جائے۔ یورپ میں ایک بین قومی جماعت ہے جس کا نام FIT ہے یعنی انٹرنیشنل فیڈریشن آف ٹرانسلیٹرس۔ اس نے مترجموں کا ایک چارٹ مرتب کیا ہے۔ اس کی ایک دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ’’مشکل فقروں کو مختصر کرنا یا انہیں خارج کردینا غیراخلاقی بات ہے۔ ‘‘ اس کے چند اور اصول قابل ذکر ہیں۔ ایک تو اصل زبان کے بجائے کسی درمیانی زبان کے ذریعے سے ترجمہ ایک ایسا مفاہمہ ہے جو غیرتسلی بخش ہے۔ دوسرے نظم کا نثر میں ترجمہ فن پارہ کہلانے کا مستحق نہیں۔ تیسرے اسٹائل اور فارم کے معاملے میں عملی طریقۂ کار کو اپنانا چاہئے، مثلاً اصل زبان میں اگر کوئی ذومعنی لفظ ہے تو اس کا لفظی ترجمہ مناسب نہیں۔ یہاں اسی سے ملتا جلتا ترجمے کی زبان کا لفظ ہونا چاہئے جس میں یہی رعایت ہو۔ 
(طویل مضمون ’تراجم اور اصلاح سازی کے مسائل‘‘ سے )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK