ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، نقاد، دانشور اور گیان پیٹھ انعام یافتہ علی سردار جعفری یکم اگست ۲۰۰۰ء کو ہم سے جدا ہوئے تھے۔ ملاحظہ کیجئے ۲۵؍ویں برسی کی مناسبت سے یہ مضمون جس میں ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: August 03, 2025, 12:24 PM IST | Fuzail Jafri | Mumbai
ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، نقاد، دانشور اور گیان پیٹھ انعام یافتہ علی سردار جعفری یکم اگست ۲۰۰۰ء کو ہم سے جدا ہوئے تھے۔ ملاحظہ کیجئے ۲۵؍ویں برسی کی مناسبت سے یہ مضمون جس میں ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
علی سردار جعفری اردو کی سب سے بڑی تحریک یعنی ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے اہم ترین نظریہ ساز بھی تھے۔ میں نے ان کی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ کا شمار زبیر رضوی کے رسالے ذہن جدید کے ’’ادب پیما‘‘ میں بیسویں صدی کی دس اہم ترین تنقیدی کتابوں میں کیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد جب حالات بدلے اور نئی نسل کے شاعروں اور ادیبوں نے ادب کو اسٹالینی جبر اور پارٹی لائن کے دائرے سے نکال کر حقیقی تخلیقیت اور عصری حقائق کا آئینہ دار بنانے کی کاوش کی تو ترقی پسندوں کی اکثریت بوکھلا گئی۔ جدیدیت پر حملہ کرنے والوں میں سجاد ظہیر، پروفیسر احتشام حسین اور علی سردار جعفری پیش پیش تھے۔ جعفری صاحب نے چونکہ عمر بھی طویل پائی اور وہ زبردست خطیبانہ صلاحیتوں کے بھی حامل تھے اس لئے وہ آخر تک محاذ پر ڈٹے رہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب جدیدیوں نے انہیں اور انہوں نے جدیدیوں کو تسلیم کرلیا۔ جہاں تک خطیبانہ انداز کا سوال ہے، یہ چیز تو انیسؔ، اقبالؔ اور جوش کے یہاں بھی بدرجہ اتم ملتی ہے۔ جعفری صاحب انہی سے متاثر تھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ تمام تر خطابت کے باوجود انہوں نے ’’اودھ کی شام حسیں ‘‘، ’’نیند‘‘، ’’پتھر کی دیوار‘‘، ’’میراسفر‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھی ہیں جو اردوشاعری میں بے مثال ہیں اور یقینی طور سے اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر تاحال فیض احمد فیض کے علاوہ کسی ترقی پسند شاعر کو وہ مقبولیت نصیب نہیں ہوئی جو ان کے حصے میں آئی۔ یہ صحیح ہے کہ سطحی قسم کے نیز جوڑ توڑ کرنے میں ماہر بعض افراد کی ریشہ دوانیوں کے سبب انہیں آخر تک ساہتیہ اکادمی ایوارڈ نہیں مل سکا لیکن ۱۹۸۸ء کے گیان پیٹھ ایوارڈ نے ساری کسر پوری کردی۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ان کی جو پزیرائی کی وہ اب تک کسی بھی زبان کے گیان پیٹھ انعام یافتہ شاعر اور ادیب کو نصیب نہیں ہوسکی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۹۹ء کو ہارورڈ فاؤنڈیشن (امریکہ) نے برصغیر میں قیام امن کی کوششوں کے لئے انہیں ایک خصوصی تقریب میں وہ اعزاز دیا جو ان سے پہلے ای ایم فارسٹر، نیلسن منڈیلا، یاسر عرفات اور فیض احمد فیض کو دیا گیا تھا۔
علی سردار جعفری کی زندگی میں ان پر ادبی نوعیت کے الزام بھی لگائے گئے اور سیاسی بھی۔ سیاسی الزامات میں ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایمرجنسی کی حمایت کی اور ’حرف حق‘ کے عنوان سے نظم بھی لکھی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت سی پی آئی کی یہی پالیسی تھی جو ہمارے نزدیک صحیح تھی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کی حقیقی وجہ اندراگاندھی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سنہا کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ تھی کہ فاشسٹ طاقتیں اس فیصلے کو بہانہ بنا کر ملک سے جمہوریت کو ختم کرنے کے درپے تھیں۔ جہاں تک فنکار کا سوال ہے، خشونت سنگھ، ایم ایف حسین، راجندر سنگھ بیدی اور سکندر علی وجد وغیرہ بھی ایمرجنسی کے حامیوں میں شامل تھے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ گالیاں زیادہ تر جعفری صاحب کو ہی دی گئیں۔
ادبی سطح پر علی سردار جعفری میں یقیناً کمزوری تھی کہ وہ انہی لوگوں کو آگے بڑھاتے تھے جنہیں وہ نظریاتی اعتبار سے اپنا ہمنوا سمجھتے تھے، لیکن کیا آج وہ بات نہیں ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ادبی دھنا سیٹھ جعفری صاحب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تنگ نظر ہونے کے علاوہ ایذاپسند اور فتنہ پرور بھی واقع ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مقابلے میں علی سردار جعفری ایک وسیع القلب اور اعلیٰ ظرف انسان تھے۔ میں نے خود دیکھا ہے اور بارہا دیکھا ہے کہ جو لوگ انہیں دن رات برا بھلا کہتے تھے وہی اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے تو جعفری صاحب ان کی مدد کرنے والوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس کشادہ ذہنی کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ کمیونسٹ ہونے کے باوجود ثقافتی اعتبار سے مذہبی آدمی تھے۔
میں ۱۹۷۵ء میں اورنگ آباد سےبمبئی منتقل ہوا۔ میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں کئی بار جعفری صاحب کو دیکھا اور سنا تھا لیکن ان سے پہلی ملاقات ۱۹۷۱ء میں ہوئی۔ بمبئی میں ٹی وی سینٹر نیا نیا قائم ہوا تھا اور علی سردار جعفری ہر ہفتے دوردرشن پر ’’محفل یاراں ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام پیش کرتے تھے جو جعفری صاحب کی شخصیت اور ان کے اندازِ گفتگو کے سبب غیراردو داں طبقے میں بھی کافی مقبول تھا۔ اس پروگرام میں ایک بار انہوں نے (غالباً اخترالایمان کی سفارش پر) مجھے بھی مدعو کیا۔ ترقی پسندی اور جدیدیت پر کھل کر بحث ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ایسی بات چیت میں قائل ہونے یا قائل کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس پروگرام کا بھی یہی حشر ہوا۔ ہاں بات چیت کے دوران کوئی تلخی بھی پیدا نہیں ہوئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ممبئی میں بڑے بڑے شاعر اور ادیب جمع تھے۔ تصدیق سہاروی مرحوم اور محمود چھابرا مرحوم کی کوششوں سے ہر ماہ کسی نہ کسی کے گھر پر ایک نشست ہوا کرتی تھی۔ ان نشستوں میں راجندر سنگھ بیدی، اخترالایمان، جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، باقر مہدی، ظ انصاری اور ندا فاضلی وغیرہ پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کرشن چندر اور عصمت چغتائی بھی آجاتے تھے لیکن میری یادداشت کے مطابق جعفری صاحب کبھی شریک نہیں ہوئے۔ وہ تحریر و تقریر کے بادشاہ تھے لیکن مباحثوں سے کتراتے تھے۔
گزشتہ چار پانچ برسوں میں میری ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ آخری ملاقات ۱۸؍ مارچ کو ہوئی۔ میرے ایک پرانے دوست جناب سمیع خطیب نے اپنے نئے بنگلے کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی۔ میں لان میں کھڑا ہوا اپنے کچھ پرانے ساتھی اساتذہ کے ساتھ گپ شپ کررہا تھا۔ اتنے میں کسی نے اطلاع دی کہ سردار جعفری بھی آئے ہوئے ہیں اور اسی کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا جا کر سلام کرلوں اور خیریت پوچھ لوں۔ اس وقت تک مجھے تو کیا کسی کو بھی ان کی بیماری کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ انہوں نے صرف ہاتھ اٹھا دیا۔ میں نے کہا کہ آپ کی سالگرہ کے دن گھر پر فون کیا تو معلوم ہوا کہ آپ حیدرآباد گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’حیدرآباد جانے کا خیال تھا لیکن گیا نہیں۔ میں بمبئی میں ہی تھا۔ ‘‘ دراصل اس وقت تک ان کی یادداشت جواب دے چکی تھی کیونکہ کچھ دنوں بعد بیگم سلطانہ جعفری نے بتایا کہ سردار جعفری اس دن واقعی حیدرآباد میں ہی تھے۔
علی سردار جعفری مرحوم نے اپنی زندگی کا آخری مشاعرہ ۲۲؍ اپریل کو نہرو سینٹر میں پڑھا۔ وہ اس قابل نہیں تھے کہ اسٹیج پر بیٹھ سکتے۔ انہیں اسٹیج کے نیچے ایک آرام دہ کرسی پر بٹھایا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم بھی تھیں۔ میں نہ تو مشاعروں میں جاتا ہوں اور نہ ہی مجھے مدعو کیا جاتا ہے لیکن میرے جو رفیق کار وہاں موجود تھے انہوں نے بتایا کہ اشرف کے بار بار درخواست کرنے کے باوجود جعفری صاحب چپ چاپ کرسی پر بیٹھے رہے۔ ان کے چہرے پر قطعاً کوئی تاثر نہیں تھا۔ پھر ان کی کرسی کا رخ سامعین کی جانب کردیا۔ وہ اس وقت بھی خاموش رہے۔ دس پندرہ منٹ یوں ہی گزر گئے۔ سامعین بھی دم بخود تھے۔ اشرف اور سلطانہ بھابھی کے بار بار اصرار کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’’کوشش کرتا ہوں کہ کچھ یاد آجائے۔ ‘‘ پھر انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’میرا سفر‘‘ سنانی شروع کی اور آخر تک سنائی۔ سامعین نے ان کے اعزاز میں تالیاں بجانی شروع کیں تو یہ سلسلہ کوئی دس منٹ تک جاری رہا۔
اس کے بعد ہی وہ اسپتال داخل ہوئے۔ یکم اگست کی صبح انہوں نے اپنا سفر مکمل کیا اور مالک حقیقی سے جا ملے اور جوہو کے اسی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا جہاں ان کے کئی قریبی دوست خواجہ احمد عباس، مجروح سلطانپوری، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر اور راہی معصوم رضا پہلے سے ہی زیر خاک آرام کررہے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’میراسفر‘ کے یہ مصرعے:
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زبان سے گاؤں گا
میں رنگ حنا، آہنگ غزل
اندازِ سخن بن جاؤں گا
اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ انہیں زندگی اوراس کے بے پناہ نیز رنگا رنگ پہلوؤں سے ہی عشق نہیں بلکہ اپنے پسندیدہ شاعر مرزاغالبؔ کی طرح اپنی شہرت دوام کا بھی یقین تھا۔
(ایوان ادب، دہلی۲۰۰۱ء)