Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے, جتنا پڑھیں گے اتنا تحریروں میں نکھار پیدا ہوگا‘‘

Updated: March 16, 2025, 12:29 PM IST | Mumbai

مالیگاؤں میں وائس آف اردو کے زیراہتمام منعقد ہ ادبی میلے ’’رشک بہاراں ‘‘ میں مشہور ادبی شخصیت جاوید صدیقی نے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئےکہا۔

Javed Siddiqui (film, dialogue and cinematographer) can be seen in the session `Amidst Urdu Fiction Stories`. Photo: INN.
’اردو فکشن کہانیوں کے درمیان‘ کے سیشن میں جاوید صدیقی( فلم، مکالمہ و منظر نگار ) دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

جب میں پچھلے سال پاکستان گیا تھا اور وہاں کے لکھنے والوں سے ملاقات کی تھی جن میں نئے لکھنے والے بھی تھے تو ان سب کی جانب سے ایک بات یہ سامنے آئی تھی کہ ہندوستان میں اردو میں نیا افسانہ نہیں لکھا جا رہا ہے اور اگر کچھ لکھا بھی جا رہا ہے تو کچھ پرانے لوگ ہی ہیں جو لکھ رہے ہیں ، لیکن آج جن ہانچ افسانہ نگاروں کو میں نے سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پورے ہندوستان کی کیا بات کریں یہاں مالیگاؤں میں بھی اتنے اچھے تجربے کئے جا رہے ہیں۔ آج کی نشست میں مَیں نے چار افسانچے سنے، افسانچے کو محض اس لئے کہ وہ افسانچہ ہے خارج نہیں کیا جا سکتا، جیسے غزل کے شعر کے دو مصرعے ہوتے ہیں یا جیسے چار مصرعوں کا قطعہ ہوتا ہے، افسانچے کی بھی اپنی اہمیت ہے کیونکہ کم لفظوں میں اپنی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔ دوران نشست ایک افسانہ بھی سنا جس میں مسلم معاشرہ کی خامیوں کو موضوع بناتے ہوئے یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ معاشرہ کے جن لوگوں کو فعال یونا چاہئے تھا وہ کس طرح غیر فعال ہو کر رہ گئے ہیں۔ مجھے یہ افسانے سنتے ہوئے واقعی بہت اچھا لگا اور میں کوشش کروں گا کہ اتنے اچھے افسانے سننے کیلئے آئندہ سال بھی مالیگاؤں آؤں۔ 
مجھے یہاں بتایا گیا ہے کہ اس ہال میں (عمائدین شہر اور مہمانوں کے علاوہ) بڑی تعداد میں طلباء اور طالبات بھی ہیں جو یہ جاننا ہیں کہ کیسے لکھا جائے۔ کل بھی ایک صاحب مجھ سے ملے تھے جو جاننا چاہتے تھے کہ میں کیسے لکھتا ہوں۔ جو لوگ کہانیاں لکھ رہے ہیں یا دوسرے ادبی کام کررہے ہیں ان کے بارے میں تو میں کچھ کہوں گا نہیں، البتہ جو لوگ لکھنا چاہتے ہیں، جو اس معاملے میں پرجوش ہیں ان سے چند باتیں ضرور عرض کرنا چاہوں گا۔ لکھنا مشکل تو نہیں ہے مگر اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے اور جتنا آپ پڑھیں گے اتنا ہی آپ کی تحریروں میں نکھار پیدا ہوگا مگر آج کے دور میں مطالعہ گویا متروک ہوچکا ہے۔ لوگ پڑھنا چھوڑ چکے ہیں۔ لکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ پڑھنا نہ چاہیں اور لکھتے رہیں تو یہ عمل ایسا ہوگا جیسے آپ بینک کے اپنے کھاتے میں رقم تو جمع نہ کریں مگر رقم نکالنے پر اصرار کریں۔ اس لئے لکھنے والوں کو پڑھنا چاہئے۔ عصری ادب پڑھیں، کلاسیکی ادب پڑھیں، غیر زبانوں کا ادب پڑھیں اور مطالعہ کو معمول بنا لیں۔ 
پاکستان کے کراچی میں میں آرٹ کاؤنسل دیکھنے گیا تھا جہاں معلوم ہوا کہ بہت سے ادیبوں نے اپنا پورا پورا کتب خانہ، کتابوں کا پورا سرمایہ کاؤنسل کو وقف کردیا ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کا کلیکشن بھی ہے۔ جب میں اسے دیکھنے کے ارادہ سے آگے بڑھا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یوسفی صاحب کون سی کتابیں پڑھتے تھے تو میں نے پایا کہ ان میں کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جس میں یوسفی صاحب نے نشانات نہ لگائے ہوں اور کتاب کے حاشئے پر نوٹس نہ لکھے ہوں۔ سوچئے وہ شخص جس کی تحریروں کی مثال دی جاتی ہے وہ دوسروں کو پڑھتا تھا تو کتنی توجہ اور انہماک کے ساتھ پڑھتا تھا۔ 
سوال یہ ہے کہ یوسفی ایسا کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ دوسروں کی تحریروں سے کچھ سیکھنا، کچھ حاصل کرنا اور کچھ Absorb کرنا چاہتے تھے۔ اس سے آپ کو یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ لکھنے کیلئے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ 
مطالعہ تین مراحل میں ہونا چاہئے، پہلی مرتبہ کتاب کو تیزی سے پڑھ جائیں تاکہ آپ اس کے مشمولات سے لطف اندوز ہوں۔ دوسری مرتبہ اسے ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھیں اور تیسری مرتبہ جب پڑھیں تو اس کا تجزیہ کرنا آپ کا مقصد ہونا چاہئے۔ اس دوران آپ کو محسوس کرنا ہوگا کہ کون سی بات آپ کو اپیل کررہی ہے، جون سی چیز آپ کے دل کو چھو رہی ہے اور کتاب آپ سے کیا کہہ رہی ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہر کتاب اپنے قاری سے کچھ نہ کچھ کہتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ Communicate کرتی ہے۔ میں مورالیٹی کی بات نہیں کررہا ہوں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہر کتاب کچھ نہ کچھ کہتی ہے، اسے سنئے، اس کی بات پر توجہ دیجئے۔ 
جہاں تک لکھنے کا سوال ہے تو لکھنا مشکل نہیں ہے بلکہ مارک ٹوین نے تو کہا تھا کہ لکھنے کیلئے کاغذ ضروری ہے اور قلم ضروری ہے، بس، یہ چیزیں آپ کے پاس ہیں تو آپ لکھ سکتے ہیں مگر اس کے علاوہ جو چیزیں درکار ہوتی ہیں میرے خیال میں وہ تین (چیزیں ) ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے اور جو میں نے اب تک کی زندگی میں پڑھا ہے اس سے اخذ کیا گیا نتیجہ بھی ہے۔ سب سے پہلے ایک رائٹر جو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے تصور، تخیل یعنی Imagination جسے قوت متخیلہ کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کا تخیل مضبوط ہے اور جو کچھ بھی آپ سوچتے ہیں اسے ذہن کے اسکرین پر دیکھ بھی پاتے ہیں تو اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ 
دوسری چیز جو ایک نو آموز قلمکار کیلئے بہت ضروری ہے وہ ہیں الفاظ۔ الفاظ ہی ہیں جو آپ کے تخیل کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ جو الفاظ ہیں وہ آپ کو کہاں سے ملیں گے، ظاہر ہے کہ کتابوں سے ملیں گے اسی لئے میں نے ابتداء میں عرض کیا کہ لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے اور جب آپ پڑھیں گے تو بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ الفاظ بھی ملیں گے یا ان سے آپ کی دوستی گہری ہوگی۔ 
نو آموز قلمکاروں کیلئے جو پہلی بات مَیں نے بتائی وہ ہے تخیل،قوت متخیلہ۔ دوسری بات ہے الفااظ۔ لکھنے کیلئے یہ دو ضروری باتیں ہیں۔ الفاظ کے سلسلے میں ایک بات اور بتانا چاہتا ہوں اس کے بعد تیسرے تقاضے کی طرف آؤں گا۔ اب سے چالیس برس پہلے جب ہم لکھنؤ میں ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کی شوٹنگ کررہے تھے تب ہمیں پتہ چلا کہ کیفی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ ہم نے شوٹنگ سے وقت نکال کر کیفی صاحب سے ملاقات کی۔ اس دوران ِ انہوں نے کہا کہ جاوید تم بھی شعر کہتے ہو، کچھ سناؤ۔ میں نے ایک مختصر سی نظم سنائی جسے پسند کیا گیا اور اس کی تعریف ہوئی۔ وہاںفراق صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور کہا: ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے عرض کیا ضرور۔ تو فرمایا کہ لفظوں کو احتیاط سے برتاکیجئے، ان میں جان ہوتی ہے۔ یہ بات کسی اور نے نہیں، فراق صاحب نے کہی تھی۔ مَیںنے اس واقعے کو اپنی کتابوں میں بھی نقل کیا ہے۔ بعد کے برسوں میں جب مَیں نے اس پرغور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی لفظوں میں جان ہوتی ہے۔ ان میں جو جان ہے، حرکت ہے، قوت ہے، روح ہے اس کو آپ محسوس کرسکتے ہیں اس لئے الفاظ کا جو ذخیرہ آپ کے پاس ہے، اُسے اپنی بات کہنے اور اپنا خیال پیش کرنے کیلئے بصد احتیاط استعمال کرنا چاہئے۔
تخیل اور الفاظ کے بعد جو تیسری بات نئے قلمکاروں کے ذہن میں رہنی چاہئے وہ آپ کا وہ جذبہ ہے جسے جذبۂ اظہار خیال کہتے ہیں۔ اگر یہ جذبہ آپ میں ہے اور آپ طے کرچکے ہیں کہ جو محسوس ہو رہاہے وہ کہنا ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ بہت اچھا لکھنے کے قابل ہوں گے او بہت اچھے رائٹر کہلائیں گے۔
(جاوید صدیقی نے یہ باتیں’’وائس آف اُردو‘‘ کے سہ روزہ ادبی میلے کے خصوصی اجلاس بعنوان ’’کہانیوں کے درمیان‘‘ میں کہی تھیں۔ اس کے دوسرے دن ’’الاؤ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ بات چیت، جس کے میزبان جواں سال صحافی امتیاز خلیل،سابق رکن ’’ای ٹی وی اُردو‘‘ تھے، کے دوران انہوں نے مختلف سوالوں کے جواب میں جو اظہار خیال کیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے):
مالیگاؤں کی سرزمین کو سلام جو میرے خیال میں ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اُردو بستی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ آج مَیں آپ سب کے ساتھ ہوں، یہ میرا اعزاز ہے اور مَیں آپ سب کا بہت ممنون ہوں، مَیں اپنی علالت اور گوشہ نشینی کے باوجود اس لئے یہاں آیا کیونکہ آپ کی محبت نے مجھے مجبور کردیا اور میں رُک نہیں سکا۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے میرے تعلق کے بارے میں جو سوال کیا گیا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ان دو حضرات کے ایک چچا زاد بھائی تھے جن کا نام آپ نے سنا ہوگا، حافظ احمد علی خاں شوق۔ بہت بڑے مصنف اور محقق اور رضا لائبریری رامپور کےاولین لائبریرین تھے۔ وہ میرے پردادا تھے اور شاید اُن کے ہونے کی وجہ سے ہی آج مَیں جو کچھ بھی ہوں وہ ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو مَیں ایک بہت بڑی حویلی میں ایک اکیلا بچہ تھا۔ وہاں پاس پڑوس کے بچوں کے ساتھ تو کھیلنے کی اجازت تھی مگر نہ تو ہر وقت بچے ساتھ ہوتے ہیں نہ ہی ہر وقت کھیل ہوتا ہے ۔ ایسے میں میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ اسی حویلی میں جسکے بہت سے کمرے تو بند پڑے رہتے تھے مگر ایک کمرہ ایسا تھا جو پورا کا پورا کتابو ں سے بھراہوا تھا، وہ حافظ احمد علی خاں شوق کی ذاتی لائبریری تھی۔ جب مَیںنے تقریباً دس گیارہ برس کی عمر میں اس لائبریری کو دیکھا تو اس میں سوائے دھول اور دیمک کے کچھ نہیں تھا۔ لیکن تب تک مجھے پڑھنے کا شوق ہوچکا تھا اور حالت میری یہ تھی کہ کوئی بھی کتاب ہاتھ لگ جائے مَیں اُسے پڑھ ڈالتا تھا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اُس کمرے کی جتنی کتابیں ٹھیک ٹھاک حالت میں تھیں اور پڑھی جاسکتی تھیں وہ مَیں نے پڑھ ڈالیں، ان میں سے کچھ سمجھ میں آئیں کچھ سمجھ میں نہیں آئیں اور کچھ تو ایسی تھیں جو آج تک سمجھ میں نہیں آئیں۔ 
خیر، مَیں عرض یہ کرنا چاہتا تھا کہ جب پڑھنے کا شوق ہوتا ہے تو لکھنے کا شوق بھی ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔ اُردو ایسی زبان ہے کہ جس میں غیر معمولی موزونیت اور موسیقیت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی شاعری بہت آسانی سے کرنے لگتا ہے چنانچہ مَیں نے بھی شاعری شروع کردی اور اُس وقت جو رسالے شائع ہوتے تھے اُن میں اپنا کلام بھیجنے لگا اور وہ شائع ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں ایک بہت مشہور رسالہ تھا ’’زمانہ‘‘۔ کانپور سے نکلنے والا یہ رسالہ کافی موقر اور معتبر مانا جاتا تھا۔ مَیں نے اُس میں بھی اپنی غزل بھیج دی۔ اُس دور میں میری عمر کچھ گیارہ بارہ سال کی رہی ہوگی۔یاد نہیں کہ اس کے ایڈیٹر کون تھے مگر اُنہوں نے دو سطروں پر مشتمل ایک خط میرے نام ارسال کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ پہلے آپ اپنا قافیہ درست کرلیجئے اس کے بعد غزل بھجوائیے۔ 
اب میری مشکل یہ تھی کہ قافیہ درست کرنا کیا ہوتا ہے اس کا مجھے علم نہیں تھا تو مَیں اپنے پڑوس کے ایک صاحب جو بہت بڑے شاعر تھے عبدالمجید حیرت، اُ ن کے پاس گیا۔ انہوں نے پوری روداد سنی اور جو غزل مَیں نے ’’زمانہ‘‘ کو بھیجی تھی وہ بھی دیکھی اور پہلے تو خوب ہنسے پھر کہا کہ میاں تم نے ردیف تو ہر مصرعے میں برابر نظم کی ہے مگر قافیہ کہیں نہیں ہے۔ 
اس طرح، آپ جان لیں کہ مَیں نے پہلی غزل جو کہی، وہ بغیر قافیے کی تھی۔ بہرکیف حیرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ غزل وزل چھوڑو کیونکہ کوئی مضمون ایسانہیں ہے جو شاعری میں برتا نہ گیا ہو اور ایک طریقے سے نہیں ہزار طریقوں سے نظم نہ کیاگیا ہو، بہتر ہے کہ تم نثر کی طرف توجہ دو۔ تب مَیں نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنی شروع کیں جو ممبئی سے شائع ہونے والے ہمارے خاندانی اخبار ’’خلافت‘‘میں چھپ جاتی تھیں۔ 
اسی دور میں حالات کا تقاضا کچھ ایسا ہوا کہ ہماری جائیداد (اینٹمی پراپرٹی) کہہ کر حکومت نے ضبط کرلی۔ اُس زمانے میں اگر کسی خاندان کے لوگ پاکستان چلے گئے تھے تو اس کی املاک ضبط کرلی جاتی تھیں۔ چونکہ ہمارے ہاں کے بہت سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اس لئے ہماری املاک بھی اینمی پراپرٹی قرار دی گئی، مجھے آج تک حیرت ہے کہ اسے اینمی کس بنیاد پر کہا گیا تھا؟ زندگی کسی ایک کہانی کا نام نہیں ہوتا بلکہ درمیان سے کئی کہانیاں جڑتی چلی جاتی ہیں الف لیلہ کی طرح۔ انہی کہانیوں میں سے ایک یہ ہے جو اس اجلاس کے میزبان امتیاز خلیل کے یاد دلانے پر آپ کے گوش گزار کررہا ہوں۔ ایسا ہے کہ میرے ایک رشتہ دار تھے، بہنوئی۔ ان سے میری زیادہ بنتی نہیں تھی، وہ بھی مجھے کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے لیکن جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مجھے بمبئی جانا ہے اور میرے پاس جانے کے پیسے نہیں ہیں تو انہوں نے مجھے بلایا۔ یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ اس وقت رام پور سے ممبئی آنے کا کرایہ صرف پینتیس روپے ہوا کرتا تھا مگر پینتیس روپے جمع کرنا بھی خاصا مشکل تھا۔ جب میرے بہنوئی جن کا نام شجاعت علی تھا، کو علم ہوا تو انہوں نے مجھ سے دریافت کیا۔ میں نے کہا کہ ہاں بمبئی جانے کا ارادہ تو ہے مگر کب جاؤں گا یہ طے نہیں ہے کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا پیسوں کا انتظام ہو جائیگا اس سے پہلے تم چلو بازار، اور کچھ ضروری چیزیں لے لو۔ وہ مجھے لے گئے اور کچھ کپڑے، جوتے چپل وغیرہ دلوائے۔ میں حیران تھا کہ ایسا شخص جو مجھے بات بات پر ٹوکتا تھا، اچانک اتنا مہربان کیسے ہوگیا۔ مجھے حیرانی اس لئے بھی تھی کہ وہ کوئی بہت بڑے آدمی نہیں تھے بلکہ ایک شوگر فیکٹری میں معمولی فورمین تھے۔ جب میں ان سب باتوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے بہن کے گھر گیا تو دیکھا کہ احاطے میں جو گائے بندھی رہتی تھی وہ نہیں ہے۔ میں نے بہن سے پوچھا گائے کہاں ہے جس سے گھر کے چھوٹے بچوں کے دودھ کا انتظام ہوتا تھا۔ اس پر بہنوئی نے کہا کہ گائے تو پھر آجائیگی مگر جو وقت تمہارے پاس ہے وہ نہیں آئیگا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ زندگی میں ایسے حالات ہوتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ جب میں بمبئی سینٹرل پر اُترا تب میرے پاس تقریباً پندرہ روپے تھے۔ مجھے وہاں سے لو َ لین (خلافت اخبار کا دفتر) جانا تھا۔ مَیں نے ایک ٹیکسی روکی۔ ٹیکسی والے نے دیکھا کہ یہ ایک اناڑی سا لڑکا ہے، بڑے بڑے بال ہیں، چشمہ لگائے ہوئے ہے، مَیلا سا ٹین کا بکسہ لے کر اُترا ہے، یہ کوئی ایسا ہی نوجوان ہے، کہیں سے آیا ہے، بہرکیف اُس نے مجھے لوَلین پہنچا دیا اور آٹھ روپے طلب کئے جبکہ اس زمانے میں بمبئی سینٹرل سے لوَ لین، بائیکلہ تک کے ڈیڑھ دو روپے ہوتے تھے۔ جب اُس نے آٹھ روپے لے لئے تو میرے پاس کل سات روپے باقی رہ گئے تھے۔ اب مَیں نہیں جانتا کہ لوگوں کی محبتیں تھیں، دُعائیں تھیں، یا ایسا کیا تھا میرے پاس کہ اُن سات روپوں نے آج تک میرا ساتھ دیا۔ مجھے خوشی ہے کہ شہر بمبئی نے، ریاست مہاراشٹر نے مجھے اتنا نوازا کہ جس کا میں کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ 
اب جو امتیاز خلیل صاحب نے میری صحافتی زندگی کے بارے میں پوچھا اور خلافت یا انقلاب سے میری وابستگی اور ’’اُردو رپورٹر‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو مَیں نے جاری کیا تھا تو یہ ایک طویل روداد ہے مگر اس سلسلےمیں عرض کروں گاکہ ہم فلم والے اس طرح کے معاملات میں بہت ہوشیار ہوتے ہیں، جب کسی کو کہانی سنانے کیلئے جاتے ہیں، بالخصوص کسی بہت مصروف ہیرو کو، تو میرا طریقہ یہ ہے کہ مَیں اُس ایکٹر سے یا ہیرو سے یہ پوچھ لیتا ہوں کہ آپ کے پاس وقت کتنا ہے، مَیں آپ کو پانچ منٹ میں کہانی سناؤں، پندرہ منٹ میں سناؤں یا ایک گھنٹے میں ؟ وہ جتنا وقت دیتا ہے اُتنے وقت میں مَیں پڑیا باندھ دیتا ہوں۔ اب امتیاز خلیل تُلے ہوئے ہیں کہ پڑیاباندھ دوں تو حاضر ہوں۔ بمبئی آنے کے بعد مَیں ’’خلافت‘‘ سے وابستہ ہوگیا۔ شاید اُن صحافیوں میں، جو بقید حیات ہیں، مَیں واحد ہوں جس نے پتھر پر چھپائی سے لے کر ڈجیٹل پرنٹنگ تک کا دور دیکھا ہے۔ میں جب آیا تھا، تب خواہ وہ انقلاب ہو یا ہندوستان ہو یا اقبال ہو، سب پتھر پر چھپتے تھے۔ مَیں ترقی کرتا رہا، انقلاب میں کام کیا، ہندوستان میں کام کیا، پھر جیسا کہ آپ نے بتایا ذاتی اخبار اُردو رپورٹر جاری کیا، فوٹو آفسیٹ پریس خریدا وغیرہ وغیرہ، زندگی کی کہانی بڑی دلچسپی سے چلتی رہی، اُسی دور میں مجھے انڈین پیپلز تھیٹر اسوسی ایشن (اِپٹا) سے دلچسپی ہوئی، اُس دور کے ترقی پسند ادیبوں شاعروں مثلاً کیفی اعظمی، سردار جعفری، عصمت چغتائی اوردیگر، ان سب سے دوستیاں ہوئیں، اسی دور میں کیفی صاحب نے کہا تم ڈرامے کیوں نہیں لکھتے، تو مَیں نے ابتداء میں چند ڈرامے ترجمہ کئے پھر طبع زاد ڈرامے لکھنے لگا۔ اس طرح مَیں نے پچیس تیس ڈرامے لکھ لئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ مسز گاندھی نے ایمرجنسی لگائی اور صحافی حضرات جیلوں میں بند کئے جانے لگے، اُن خوش نصیبوں میں سے ایک مَیں بھی تھا۔ مجھے اور ایک مراٹھی صحافی تھے، ہمیں لے جا کر سی آئی ڈی آفس میں بٹھا دیا گیا اور دو دِن بٹھائے رکھا گیا۔ 
جب سی آئی ڈی آفس میں ہمیں لے جاکر بٹھا دیا گیا تو کچھ دیر بعد کہا گیا کہ آپ ہمیں معافی نامہ لکھ کر دیجئے۔ مَیں نے استفسار کیا کہ کس بات کا معافی نامہ، آپ مجھے بتا دیجئے کہ میں نے کیا جرم کیا ہے تو میں معافی بھی مانگوں مگر جب میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا ہے تو کس بات کی معافی؟ اس کے باوجود معافی نامہ پر اصرار جاری رہا۔ اُس وقت ہمیں کسی کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ سی آئی ڈی آفس میں افسران نے ہمیں کافی پریشان کیا کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ اُن کا مقصد ہی پریشان کرنا ہے۔ اس دوران ایک صاحب جان پہچان کے مل گئے، وہ دیکھتے ہی کہنے لگے کہ آپ یہاں کہاں، آپ تو فلاں ہیں اور فلاں ہیں، اس کے بعد افسران کچھ نرم پڑے، اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں مگر یاد رکھئے، آپ نے اس معاملے میں کچھ لکھا، یا، اس کی رپورٹنگ کی، یا، پریس کانفرنس بلائی تو آپ کو دوبارہ گرفتار کرلیا جائیگا۔ اس طرح ہماری جان تو بچ گئی مگر دل کھٹا ہوگیا کہ ایسی دُنیا کس کام کی جس میں سچ بولنے پر پابندی ہو۔ تب سے (مسکراتے ہوئے) مَیں نے سچ بولنا بند کردیا اور کہانیاں نیز فلمیں لکھنے لگا۔ 
(یہاں ٹھہر کر جاوید صدیقی صاحب نے اہل مالیگاؤں کی ستائش کی کہ اُن کی دعوت پر وہ، اُن کی اہلیہ فریدہ صدیقی، صاحبزادہ سمیر صدیقی اور ’’نیا ورق‘‘ کے مدیر شاداب رشید کشاں کشاں چلے آئے۔ بقول جاوید صدیقی، مالیگاؤں والوں میں اتنی کشش کہاں سے آگئی، مَیں حیران ہوں۔ اس پر ’’رشک بہاراں ‘‘ کے روح رواں امتیاز خلیل نے مالیگاؤں کے بارے میں بتایا کہ جب ملک تقسیم ہوا تھا تب بھی مالیگاؤں کی آبادی میں مسلمانوں کا فیصد ۶۰۔ ۷۰؍ تھا اور اب بھی اُتنا ہی ہے۔ جب بہت سے لوگ ہجرت کررہے تھے، تب اہل مالیگاؤں نے ہجرت کرنا اور پاکستان جانا گوارا نہیں کیا بلکہ اپنی مٹی اور اپنے ملک سے محبت اور عقیدت کی تاریخ رقم کی اور یہیں رہے۔ مٹھی بھر لوگوں نے جو مسلم لیگ کے ماننے والے تھے، اُنہوں نے ارادہ کیا بھی تو علماء نے اُنہیں سمجھایا اور اپنی مٹی ہی سے وابستہ رہنے پر آمادہ کرلیا۔ ) 
جب مَیں نے صحافت چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور گھر بیٹھ گیا تب، ظاہر تھا کہ روزی روٹی کی فکر لاحق ہونی تھی۔ اُس وقت میری بیوی فریدہ نے، جن کا ذکر مَیں نے ابھی ابھی کیا اور دانستہ کیا، کہا کہ آپ گھر پر رہئے اور لکھنے پڑھنے کی اپنی مصروفیت کو جاری رکھئے جس سے آپ کو روحانی غذا بھی فراہم ہوتی ہے، مَیں باہر نکلوں گی اور روزی روٹی کا انتظام کروں گی۔ یہی ہوا، انہو ں نے ملازمت کرلی اور ایک سال تک مجھے یہ فکر نہیں کرنی پڑی کہ گھر میں چولہا کیسے جلے گا۔ اس دوران ہماری ایک دوست شمع زیدی، جو ہماری ہم وطن اور مشہور ڈائریکٹر ہیں، کے توسط سے ہماری ملاقات ستیہ جیت رے سے ہوئی جو ۱۸۵۷ء اور نواب واجد علی شاہ کے دور کے واقعات کے پس منظر میں پریم چند کی کہانی ’’شطرنج کی بازی‘‘ پر شطرنج کے کھلاڑی نام سے فلم بنانا چاہتے تھے۔ انہیں ایک ایسے رائٹر کی ضرورت تھی جو ۱۸۵۰ء کی زبان لکھ سکے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اُنہیں میری کون سی ادا پسند آگئی تھی کہ اُنہوں نے مجھے اس فلم کے مکالمے لکھنے کی ذمہ داری دی اور مَیں نے مکالمے لکھے۔ ابھی اس کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مجھے ایک انٹرنیشنل فلم ’’علی بابا چالیس چور‘‘ مل گئی۔ اس کے بعد تو جیسے تانتا بندھ گیا اور اُسی زمانے میں ایک وقت ایسا آیا جب ایک سال میں میری چھ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ 
(یہاں امتیاز خلیل نے جاوید صدیقی سے دریافت کیا کہ آپ نے سچ بولنے پر پابندی سے بددل ہوکر پیشہ ٔ صحافت ترک کردیا تھا اس لئے یہ جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تب کے اور آج کے حالات میں کتنا فرق ہے اور بحیثیت فنکار آپ موجودہ حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟)۔ اس پر جاوید صدیقی نے سلسلۂ کلام اس طرح جاری رکھا: 
تقریباً وہی صورت حال ہے جیسی ایمرجنسی کے دور میں تھی، فرق صرف اتنا ہے کہ ایمرجنسی میں ڈنڈے کا خوف تھا اور آج ڈنڈے کو خرید لیا گیا ہے۔ آج آپ کے پاس سچی خبریں سنانے والا کوئی ایک چینل ہو تو اُس کا نام بتائیے!بڑی حد تک ہم ایمرجنسی ہی کے دور میں جی رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ موجودہ ایمرجنسی غیر اعلانیہ ہے۔ 
بہرکیف، ہم دوبارہ فلموں کی طرف آئیں تو عرض کروں کہ میری فلم نویسی کا سلسلہ جاری رہا، کئی اچھی فلمیں لکھیں، کئی خراب فلمیں لکھیں، کئی ایسی فلمیں بھی لکھیں جو میرے حساب سے اچھی تھیں مگر مقبول نہیں ہوئیں اور کئی ایسی تھیں جو میرے خیال میں اچھی نہیں تھیں مگر دیکھنے والوں کو بہت پسند آئیں۔ اگر مَیں اپنی پسند کی بات کروں تو کہوں گا کہ میری اچھی فلموں میں امراؤ جان، بازی گر، دل والے دلہنیا لے جائینگے، اسی طرح تال، پردیس، ممو، زبیدہ یہ میرے خیال سے اچھی فلمیں ہیں۔ 
 مجھے فلموں میں سب کچھ ملا، شہرت، دولت، عزت، لیکن فنکارانہ تسلی و تشفی نہیں ملی، اسلئے مَیں نے کچھ الگ لکھنا شروع کیا۔ ایک بار ایک مضمون دوستوں کو سنایا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو خاکہ ہے، تب سے مَیں نے خاکہ لکھنے پر توجہ مرکوز کی اور ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جنہوں نے میری زندگی میں کوئی نقش قائم کیا۔ اس طرح مَیں نے ۳۰۔ ۳۵؍ شخصیات کے خاکے لکھے، اس کے بعد کہانیاں لکھنے لگا، میری کہانیوں کی ایک کتاب چھپ چکی ہے مگر اب بھی مجھے لگتا ہے کہ وہاں نہیں پہنچا ہوں جہاں پہنچ کر اطمینان ہو کہ مَیں نے کچھ بہت اچھا کام کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK