• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خدشہ

Updated: September 09, 2024, 4:54 PM IST | Dr. Anjum Shakeel Ahmed | Mumbai

نورخاں اور صالحہ کے ازدواجی زندگی کے پانچ چھ سال بہت ہی خوشگوار گزرے۔ دونوں کی جوڑی دوست احباب اور خاندان میں مثالی سمجھی جاتی تھی۔ شادی کے فوراً بعد ہی صالحہ کے پاس ایک کے بعد دو اور دو کے بعد تین خوشخبریاں آگئیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

نورخاں اور صالحہ کے ازدواجی زندگی کے پانچ چھ سال بہت ہی خوشگوار گزرے۔ دونوں کی جوڑی دوست احباب اور خاندان میں مثالی سمجھی جاتی تھی۔ شادی کے فوراً بعد ہی صالحہ کے پاس ایک کے بعد دو اور دو کے بعد تین خوشخبریاں آگئیں۔ وہ بے حد خوش اپنی چھوٹی سی گرہستی میں مطمئن رہتی تھی۔ نور خان بھی اپنی خوشگوار زندگی سے مطمئن تھا۔ گاڑی اچھی ڈگر پر چل رہی تھی کہ اچانک صالحہ کو سنگین مرض نے آ گھیرا۔ وہ روز بروز کمزور ہونے لگی، وزن میں روز روز کمی آنے لگی اور ہلکا ہلکا بخار تنگ کرنے لگا۔ 
  فیملی ڈاکٹر، اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے مشوروں اور مختلف معائنوں کے بعد پتہ چلا کہ اسے خون کا کینسر ہوگیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چند مہینوں میں اپنے میاں اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں نادیہ، نازنین اور احمد کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دارِفانی سے کوچ کرگئی۔ نورخان کی تو جیسے دنیا ہی اُجڑ گی، دن رات بے چین و غمگین رہنے لگا، نہ کسی سے بات چیت کرتا نہ ہی بھائی بہنوں میں بیٹھ کر ہنس بول لیتا۔ کبھی کبھار بچوں کے ساتھ بیٹھ کربادل نخواستہ چھوٹے موٹے کھیل کھیلتا لیکن اس دوران اس کی آنکھیں اور بھی نم ہو جاتیں۔ بھائی بہنوں اور دوستوں کے اصرار پر کہ نئی شادی کا سوچو، بھائی بہنوں کی بہت ساری دلیلوں اور سمجھانے کے بعد کہ اتنی بڑی عمر اکیلے کانٹنا محال ہے، اور ایک عورت کے گھر آنے سے بچوں کی دیکھ بھال بھی اچھی ہوجائیگی اور پھر خود اپنی ضروریات کا خیال کرتے ہوے نئی شادی کے لئے تیار ہوگیا۔ بہت دیکھ بھال کرکے اس نے زلیخا سے نکاح کرلیا۔ 
 زلیخا گھر آگئی۔ گھر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ شروع شروع میں بچوں کا خیال اچھی طرح سے رکھنے لگی۔ ایک سال بعد جب اسکی گود ہری ہوئی تو بچوں کے تعلق سے اسکا رویہ بدلنے لگا۔ دوسرے بچوں پر اسکے اپنے بیٹے خالد کی ترجیحات اور خواہشات مقدم ہونے لگیں۔ اسکا رویہ سوتیلے بچوں کے ساتھ سخت اور غیرمحسوس طریقہ سے نفرت آمیز ہونے لگا۔ معصوم بچے اپنی چھوٹی موٹی ضروریات اور بعض دفعہ بچکانی ضد لیکر زلیخا کے پاس جاتے تو وہ انھیں جھڑک دیتی یا پھر غصہ ہوجاتی۔ بچے منہ بسور کر ایک دوسرے کو دیکھتے رہ جاتے۔ نور خان کے سامنے اسکا رویہ بچوں کے ساتھ بالکل مختلف ہوتا۔ نور خان سمجھتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ اسی نفرت اور دکھاوے کی محبت کے ماحول میں بچے بڑے ہوتے گئے۔ 
 نادیہ نویں، نازنین آٹھویں اور احمد پانچویں جماعت میں آگئے۔ انکے ساتھ ساتھ چھوٹا خالد بھی تیسری جماعت میں آگیا۔ خالد کو گورنمنٹ اسکول میں داخل کرایا گیا تھا۔ اسکے چونچلے الگ تھے۔ اسکے لئے روز ہی نئی نئی چیزیں خریدی جاتیں تھیں، اسکا ٹفن، اسکا بیگ وغیرہ سبھی الگ ا ور مہنگے ہوتے۔ دوسرے بچے سرکاری مدرسوں میں پڑھ رہے تھے۔ نادیہ اور نازنین حالات سے ایڈجسٹ ہو رہیں تھیں، مگر کبھی کبھی احمد ضد پر آجاتا۔ وہ اپنے آپ کا خالد سے تقابل کرنے لگتا اور اسکے جیسی ہی چیزوں کی فرمائش شروع کر دیتا جو کہ پوری نہ ہوتیں اور نازنین اسے اسکولوں کے معیار کا فرق بتا کر سمجھا منا لیتی۔ 
 اسکول کے لئے آج خالد کو نیا بیگ دلایا گیا تو احمد مچل گیا۔ دونوں بہنوں کے سامنے اپنے آنسو نہ روک پایا۔ وہ تینوں مل کر زلیخاکے پاس گئے، نازنین بہت ہی سلجھے ہوئے لہجے میں کہنے لگی، ’’ امی دیکھیں، ہم حالات سے ایڈجسٹ کر رہے ہیں، میں اور نازنین کبھی آپ سے بیجا فرمائش نہیں کرتے مگر یہ احمد ابھی چھوٹا ہے۔ اِس میں اور خالد میں فرق تو نہ کریں۔ ہمارے لئے خالد اور احمد دونوں ایک ہی ہیں۔ ہم خالد کو کبھی کم پیار تو نہیں کرتے بلکہ گھر کا چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہم اسے زیادہ ہی پیار کرتے ہیں۔ ‘‘ زلیخا نے انکی باتوں کو بہت غور سے سنا، پھر بولی’’ بچو میں تمہاری باتوں کو سمجھتی ہوں اور تم لوگوں کا اپنی حسبِ بساط خیال بھی رکھتی ہوں مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ یہ مجھ پر لازم ہے کہ میں جو خالد کے لئے کروں وہی احمد کے لئے بھی کروں اور جب میں اسے لازم نہیں سمجھتی تو بات ختم۔ سب کچھ جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ ‘‘
  تینوں بچے زلیخا کے فیصلے سے مایوس اپنے کمرے میں آگئے۔ تینوں خاموش اپنے اپنے انداز میں اسکا حل سوچتے رہے۔ اچانک نازنین کہنے لگی آپی ایسا کرتے ہیں ، ہم ایک درخواست لکھ کر ابو کو دیتے ہیں۔ اپنے ساتھ جو یہ حق تلفی ہو رہی ہے اسکا ذکر کرتے ہیں۔ تینوں اس تجویز پر متفق ہو گئے۔ نازنین نے اپنی نویں جماعت کی صلاحیت کے لحاظ سے ایک مختصر درخواست والد کے نام لکھی اور جیسے ہی وہ دفتر سے آئے زلیخا کی نظروں سے بچا کرانکے ہاتھ میں یہ درخواست تھمادی۔ انہوں نے چپکے سے بیٹی کو دیکھا اورکاغذ کو اپنی جیب میں رکھ کر حسب معمول اپنے کمرے میں چلے گئے۔ 
 بچے منتظر تھے کہ کچھ تو حل نکلے گا۔ روز باپ کی صورت دیکھتے مگر کچھ اشارہ نہ پاکر خاموش ہوجاتے۔ دو تین دن گزر جانے کے بعد بھی نورخان نے اس موضوع پر بات نہیں کی تو نازنین جسکی تجویز پر یہ درخواست لکھی گی تھی بولی’’ آپی لگتا ہے ابو پہلے ہی کی طرح’ہوں ‘ کہہ کر چپ ہو جائیں گے۔ ‘‘ چھوٹا احمد مایوس لہجے میں بولا’’ میں نے کہا تھا نا کہ درخواست ورخواست مت دو۔ ابو کے فیصلوں سے واقف نہیں ہو کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ وہ یہی کہیں گے کہ بچو مصلحت سے کام لو، ایڈجسٹ ہونا سیکھو، ایڈجسٹ کرنے ہی میں زندگی اچھی گزرتی ہے۔ ‘‘ پھر وہ بڑی بہن نادیہ کو دیکھتے ہوئے بولا ’’آپی میں کب تک ایڈجسٹ کروں۔ ‘‘اس کے سوال میں چھپے درد کو محسوس کرکے نادیہ کے پلکوں پہ رُکے آنسوؤں کا بند ٹوٹ گیا اور وہ احمد کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK