Inquilab Logo Happiest Places to Work

لمحہ لمحہ زندگی

Updated: July 14, 2025, 1:25 PM IST | Abuzar | Mumbai

فلائٹ MH370 کی گمشدگی کے گیارہ سال مکمل ہونے پر۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 چینی نژاد شارِن سُو نے ملائیشیا ایئرلائنز کی فلائٹ MH370 کی کھڑکی سے ایئرپورٹ پر کھڑے فرہاد خان کو‌ دیکھا تو آنسوؤں کی ایک قطار سی اسکی آنکھوں سے گرنے لگی۔ وہ ہاتھ ہلانے لگی۔ تم مجھے نہیں دیکھ رہے ہو مگر پھر بھی نہ جانے کس جذبے کے تحت تمہارے ہاتھ بھی میرے ساتھ ساتھ ہل رہے ہیں۔ پھر دل میں مینڈیرن زبان کی بے حد قدیم بولی میں اس نے وہ دعا مانگی جس کے لئے اُسکے داداجی نے منع کر رکھا تھا۔ بچپن میں اس نے غلطی سے دادا جی کی وہ بے حد قدیم خفیہ کتاب کھول لی تھی اور اسمیں لکھی تحریر پڑھنے کی کوشش کی تھی تو دادا نے سختی سے کتاب چھین کے بند کر دی تھی۔ مگر اس میں لکھے وہ عجیب و غریب الفاظ یاد رہ گئے تھے اور اب وہ لگاتار اُن لفظوں کا ورد کر رہی تھی اور سوچتی رہی کہ مجھے دنیا کی پروا نہیں۔ مجھے غصّہ ہے۔ دنیا بدل دوں گی۔ برباد کر دوں گی۔ تباہ کر دوں گی۔ اُلٹ پلٹ کر رکھ دوں گی۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ طیارہ اب آسمان میں تھا مگر وہ پڑھتی ہی رہی، آنسُو گراتی ہی رہی۔ پھر سب کچھ بدل گیا۔ 
 ملائیشیائی پائلٹ نے اچانک معاون پائلٹ سے کہا، ’’طوفان کی کوئی پیش گوئی ہے اپنی رپورٹ میں ؟ نہیں نا! پھر یہ سامنے کیا ہے؟ یہ اچانک کہاں سے آ گیا؟ رفتار تو دیکھو! کیسے اپنی طرف بڑھا آ رہا ہے۔ ‘‘ طوفان نے بڑھتے بڑھتے اُنکے جہاز کو اچانک ہی مکمّل طور پر گھیر لیا۔ کھڑکی کے باہر بادل بالکل ہی گھنا ہو گیا تھا۔ بجلیاں چاروں طرف تڑپ رہی تھیں۔ ایسی بجلی کہ پائلٹ نے زندگی میں ہی نہیں، تربیت کے دوران سیمیولیشن اسٹیشن پر بھی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے فوراً کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر طوفانی بجلی نے سارے آلات جام کرکے رکھ دیئے تھے۔ 
 پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ فیصلہ کر پاتا، طیارے کا بالکل سیدھے رخ اُوپر کی طرف ہو گیا۔ بالکل ہی ایسا جیسے کہ اچانک مکمل کنٹرول اُسکے ہاتھ سے نکل کر آٹو پائلٹ ہو گیا ہو۔ طیارہ اُوپر نہایت ہی تیز رفتار سے جانے لگا تو پھر ایک لمحے، بس ایک ہی لمحے کے لیے سر کا سارا خون پیر کی طرف ہو گیا اور اس پر بیہوشی سی طاری ہو گئی۔ یہی ایک لمحہ طیارے کے سارے لوگوں پر گزرا۔ بیہوشی کی وہ کیفیت سارے لوگوں پر گزری۔ شارِن پر مدہوشی طاری ہوئی تو تھی، مگر اُسکی آنکھیں کھلی ہی تھیں۔ لگا کہ بے انتہا خوبصورت روشنی کا ایک ہالا اُس کے گرد پھیل گیا ہے اور وہ بےوزنی کی حالت میں تیر رہی ہے۔ سارے ہی وجود پر انتہائی خوشی کا احساس ہونے لگا جسے اُس نے پہلے کبھی بھی نہیں محسوس کیا تھا۔ کیا میں مرگئی ہوں ؟ کیا یہ روشنی میرے خالق کی ہے؟ بیہوشی کا وہ ایک لمحہ طیارے کو روشنی کی رفتار سے آگے لیتا چلا گیا۔ اسی ایک لمحے میں کائنات کے کئی برسوں کا گزرنا ہوا۔ 
  ایک لمحے کے گزرنے کے بعد شارِن کو ہوش آیا تو طیارہ اپنی معمول کی رفتار اور معمول کے موسم کے درمیان اڑ رہا تھا۔ ایسا لگا کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگر اس طیارے کے سارے مسافروں کو پتہ نہیں چل پایا کہ جسے وہ ایک لمحہ سمجھ رہے تھے ساری کائنات کے لئے گیارہ سال ہو گزرے ہیں۔ طیارہ بیجنگ کے بجائے واپس کوآلا لمپور لایا گیا۔ کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، کیا کیا پریشانیاں ہوئیں، عام لوگوں کو پتہ نہیں چل پایا۔ مسافروں نے بس دیکھا کہ طیارے کو فائٹر طیاروں کے نرغے میں اُتارا گیا تھا۔ سارے مسافروں کے ساتھ شارِن کو پتہ نہیں چل پایا کہ کیا ہوا۔ خود کا فون بند ملا۔ سیکوریٹی کی موجودگی میں اُن سب کو ایک ہال میں لے جایا گیا۔ وہاں کیلنڈر پر نظر پڑی تو سال ۲۰۲۵ ءنظر آیا۔ گیارہ سال کب گزرے؟ اُنہوں نے تو بس ایک لمحہ مدہوشی اور بیہوشی کا گزارا تھا!تین دِنوں تک اُنہیں اسپتال میں رکھا گیا۔ ہر طرح کے ٹیسٹ کئے گئے۔ بہت سارےملکی و غیر ملکی ڈاکٹروں نے، نفسیات کے پروفیسروں نے اور حکومتی اداروں کے نمائندوں نے سیکڑوں سوالات کئے۔ شارن کو بس اتنا بتایا گیا کہ گیارہ سال قبل یہ طیارہ فضا میں گم ہونے کے بعد اب اچانک واپس آ گیا ہے۔ پھر ہر مسافر کو ایک ایک نہایت تجربہ کار ڈاکٹر کے سپرد کر دیا گیا۔ 
 ’’مس شارِن سو، میرا نام ڈاکٹر لوسی لان ہے۔ میں کچھ دِنوں تک آپ کے ساتھ رہ کر آپ کو اپنے مشاہدے میں رکھونگی اور ہر طرح کی مدد کرتی رہونگی۔ آپ کو کہیں جانا ہے تو آپ کو مکمل سہولتیں فراہم کی جائینگی۔ آپ کے والدین کو اطلاع دے دی گئی ہے۔ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ ‘‘ ’’مجھے اولڈ کوارٹرز جانا ہے۔ ایک شخص ہیں، فرہاد خان، ہندوستانی نژاد ملائیشیائی۔ یہاں ایک سافٹ ویئر کمپنی کے مالک ہیں۔ مجھے سب سے پہلے اُن سے ملنا ہے۔ ‘‘’’کیوں ؟‘‘’’ہم نے شادی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ میرے والدین مجھے زبردستی بیجنگ بھیج رہے تھے مگر طیارہ واپس آ گیا۔ میں نے لایا۔ ‘‘’’گیارہ سال گزر چکے ہیں۔ آپ اُن سے مل کے ناامیدہو سکتی ہیں۔ ‘‘’ہاں پھر بھی!‘‘’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
 اور پھر وہ دونوں کار سے شارِن کے بتائے پتے پر فرہاد کے گھر کی طرف چل پڑے۔ ڈاکٹر لوسی نے کہاکہ’’پہلے میں جا کے فرہاد سے بات کرتی ہوں۔ آپ یہیں گاڑی میں بیٹھی رہیں۔ پتہ نہیں کیا حالات یا جذبات ہوں۔ ‘‘شارِن نے دیکھا ڈاکٹر نے گھنٹی بجائی۔ دروازہ ایک بوڑھی عورت نے کھولا۔ کچھ باتیں ہوئی اور ڈاکٹر اندر چلی گئیں۔ دروازہ بند ہوگیا۔ آدھے گھنٹے بعد دروازہ کھلا۔ ڈاکٹر لوسی آ کے کار میں بیٹھ گئیں اور مسکرا کے بولیں ’’کیسے پاگل لوگ ہو تم دونوں ! وہ اب بھی تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ گیارہ برسوں سے اُس نے گھر نہیں بدلا کہ تم واپس آؤ گی۔ وہ دنیا کے ہر اُس كونے میں گیا ہے جہاں جہاں ایک ہلکا سا بھی اشارہ ملا کہ تمہارا طیارہ گرا ہوگا۔ ہر اُس ساحل پر پہنچا ہے جہاں کسی بھی جہاز کا ملبہ دیکھا گیا ہو۔ ملبہ کو اپنے تیشے سے کھرچ کھرچ کے تصدیق کی ہے کہ وہ تمہارا جہاز نہیں ہے۔ میں نے اسے کچھ وقت دیا ہے کہ اپنے آپ پر قابو کر لے، خود کو سنبھال لے۔ جاؤ، وہ تمہارا اِنتظار کر رہا ہے۔ ‘‘
 شارِن رونے لگی۔ جی بھر کے رو چکی تو بولی، ’’کچھ دیر ٹھہرو۔ جاتی ہوں۔ میرے لیے تو جدائی کے یہ تین دن ہی گزرے ہیں۔ فرہاد نے گیارہ سال گزارے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہم ایک دوسرے سے کیسے ملیں ؟کہیں ہمارے دل کی دھڑکنیں رک نا جائیں۔ ‘‘ڈاکٹر لوسی نے مسکرا کے کہا، ’’خوشی سے دل کی دھڑکن رکتے میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ جاؤ، مل لو اس سے!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK