Inquilab Logo Happiest Places to Work

اَدب براہِ راست افکار پر اپنی بنیاد نہیں رکھتا

Updated: June 29, 2025, 11:44 AM IST | Ale Ahmad Suroor

وہ ہمیں ان حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت عطا کرتا ہے جن سے ہم کسی خوف، پابندی یا کسی تنگ نظری کی وجہ سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔

The writer`s imagination finds new light in familiar scenes and familiar impressions in new faces. Photo: INN.
ادیب کا تخیل مانوس جلوؤں میں نئی کرن اور نئے چہروں میں جانے پہچانے نقوش تلاش کر لیتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اقبالؔ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو سماج کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سماج کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ ‘‘ میں یہ قول ایک کلیے کی طرح نہیں دہرا رہا ہوں، بلکہ صرف اس بات پر زور دیناہے کہ شاعر یا ادیب جن قدروں کی علم برداری کرتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ رائج قدریں ہوں، ان قدروں کا اعتراف اس کے بعد کے زمانے میں بھی ہو سکتاہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر یا ادیب کسی ایسی قدر پر زور دے جسے آج ترقی کے دور میں دقیانوسی کہنے میں فخر محسوس کیا جارہا ہے۔ اقبالؔ ہی کی ایک نظم سے اس کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ وہ اپنی نظم ’عصر حاضر کا انسان‘ میں کہتے ہیں :
عشق ناپید و خرد میِ گز دش صورتِ مار
عقل کو تابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
آج سے ۵۳؍ سال پہلے جب یہ نظم شائع ہوئی تھی تو تہذیب کے فرزند، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرید، مادی خوشحالی کے علمبردار اور عقلیت کے پرستار اس نظم کو رجعت پرستی کا صحیفہ کہتے تھے مگر اب گنگا میں بہت پانی بہہ گیا۔ ترقی کے جنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کی منطق، مشین کی حکمرانی، شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی، قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال، جدید آلات ہلاکت، حکومتوں کے بڑھتے ہوئے اختیارات نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ہارورڈ کے کچھ پروفیسر تو اس صدی کے آخر تک انسان کے خاتمے کی پیشین گوئی کرنے لگے ہیں اور گو کچھ ماہرین اس رائے کو ضرورت سے زیادہ قنوطی قرار دیتے ہیں مگر رابرٹ ہائیل برونیر نے جنوری ۱۹۴۷ء کے نیو یارک ریویو آف بکس میں انسان کے مستقبل پر اظہار خیال کرتے ہوئے جو کہا، اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے، ’’انسان کے لئے آنے والا زمانہ تکلیف دہ، مشکل بلکہ غالباً مایوس کن ہے اور اس کے مستقبل کے لیے جو امید ظاہر کی جاسکتی ہے وہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ ‘‘
اب اقبال کے ان دو اشعار پر غور کیجئے:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لئے!
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
دیکھئے نویں صدی کا ایک چینی شاعر پو، چو، ای کہتا ہے، ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ میرا گھر چھوٹا ہے۔ آدمی ایک سے زیادہ کمرے میں تو نہیں سوسکتا۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ میرے پاس بہت سے گھوڑے نہیں ہیں۔ کوئی ایک ساتھ دو گھوڑوں پر تو سواری نہیں کرسکتا…‘‘
ادب میں قدروں کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں ادب کے حقیقی اور مخصوص تصور کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ادب زبان کے تخیلی اور تخلیقی استعمال کا نام ہے۔ ادب میں زبان کا کام معلومات عطا کرنا نہیں، تاثرات دینا ہے۔ اس زبان کی بنیاد تو عام زبان پر ہوتی ہے مگر اس میں لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتاہے۔ اس مخصوص زبان کے استعمال کی وجہ سے لفظ کائنات بن جاتاہے اور کائنات لفظ میں سمٹ آتی ہے۔ ادب اس وقت وجود میں آتا ہے، جب موضوع اور ہیئت، مواد اور فارم شیرو شکر ہوکر ایک وحدت بن جائیں، کوئی موضوع خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، ادب کی عظمت میں اضافہ نہیں کرتا۔ ادیب کا تخیل مانوس جلوؤں میں نئی کرن اور نئے چہروں میں جانے پہچانے نقوش تلاش کر لیتا ہے۔ ادب براہِ راست افکار پر اپنی بنیاد نہیں رکھتا۔ وہ ان افکار پر اپنا رنگ محل بناتاہے جو واردات بن جائیں۔ خیال کے بجائے محسوس خیال کی اہمیت ہے۔ کانٹ نے اپنی کتاب میں آرٹ کی لامقصد مقصدیت پر زور دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آرٹ کا مقصد تو ہے مگر یہ مقصد کسی عمل کی طرف نہیں لے جاتا۔ آرٹ اور پروپیگنڈہ میں یہی فرق ہے۔ آرٹ اور ادب، کسی فلسفے، کسی سیاسی نظریے، کسی اخلاقی صحیفے، کسی مذہبی تصور سے فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر وہ ان کی پٹری پر چلنا پسند نہیں کرتا۔ ان سے توانائی اور تب و تاب لیتا ہے مگر اپنے تخیل کی طلسمی چاندنی میں انھیں ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کردیتا ہے۔ اسی بات سے یہ بات نکلتی ہے کہ ادب علوم سے کمتر ہے نہ افضل، ان سے مختلف ہے۔ علوم اپنے منطقی استدلال، مشاہدے، تجربے اور معروضیت کے وسیلے سے ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ 
ادب اپنے تخیل، احساس، ذاتی تجربے، ذاتی نظر اور اپنے جام جہاں نما کے ذریعے ہمیں اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسرے انسانوں، انسان اور فطرت کے گوناگوں رشتوں، اس کے درد و داغ اور سوز وساز، اس کے خوابوں اور ان کی شکست سے ہمیں آشنا کرتاہے۔ وہ ماضی کے دھندلکے کو منور کرتا ہے اور حال کی بھول بھلیاں میں ماضی کے پیچ و خم دیکھتا ہے۔ وہ جادو کے َدور کے آدمی سے لے کر مشین کے عہد کے انسان تک کارزمیہ اور المیہ لکھتا ہے۔ وہ تقدیر امم کے راز بھی فاش کرتا ہے اور خدائی کے راز بھی۔ وہ انسان میں آدمی اور آدمی میں انسان دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ وہ فکر کو فن اور فن کو حسن بناتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور تجربات کے ذریعہ سے حقائق کی توسیع کرتا ہے۔ وہ ہمیں ان حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت عطا کرتا ہے جن سے ہم کسی خوف یا کسی پابندی یا کسی تنگ نظری کی وجہ سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ 
ادب کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طرح ترقی نہیں ہوتی جس طرح مثلاً سائنس میں ہوتی ہے۔ سائنس کا اگلا قدم پچھلے قدم کو باطل کر دیتا ہے۔ آئنسٹاین نے نیوٹن کو اور جدید طبعیات نے قدیم طبعیات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اقتصادیات میں بھی ترقی ہوتی ہے مگر جس طرح افلاطون اور ارسطو، کانٹ اور ہیگل کے باوجود اسی طرح سربلند ہیں، اسی طرح ہومر اور کالی داس، دانتے اور گوئٹے اور اقبال اور ٹیگور ہر ایک کی الگ عظمت ہے جو کسی دوسری عظمت کے سامنے سرنگوں نہیں ہے۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ادب میں بھی تعداد اور اصناف کے لحاظ سے اضافہ ہوتا ہے مگر اس اضافے کے باوجود ترقی یا بڑھوتری کا سوال نہیں ہے۔ 
میں نے کہا تھا کہ ادب اس وقت وجود میں آتا ہے جب موضوع اور ہیئت، مواد اور فارم شیر و شکر ہوکر ایک وحدت بن جائیں۔ اس وحدت کے بغیر ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ ادب میں موضوع کو یا مواد کو یا معنی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیئت کو یا فارم کو یا الفاظ کو۔ میرے نزدیک یہ انتہا پسندی ہے۔ براہِ راست مواد کی اہمیت نہیں، مواد کے فارم بن جانے کی اہمیت ہے۔ فارم نام ہی مواد کے حسن کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔ 
(’’ادب میں قدروں کا مسئلہ‘‘ سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK