Inquilab Logo

اَدب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو

Updated: March 25, 2024, 11:23 AM IST | Premchand | Mumbai

جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس اور شکوہ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا ہوا ہو تو سمجھ لیجئے کہ قوم جمود اور انحطاط کا شکار ہو چکی اور اس میں سعی اور اجتہاد کی قوت باقی نہیں رہی۔

Literature is not just a matter of entertainment, it ponders the problems of life, investigates them and also solves them. Photo: INN
ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے، وہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے، ان کا محاکمہ کرتا ہے اور ان کو حل بھی کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

ہماری سمیلنوں اور انجمنوں میں اب تک عام طور پر زبان اور اس کی اشاعت سے بحث کی جاتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ اردو اور ہندی کا جو لٹریچر موجود ہے، اس کا منشا خیالات اور جذبات پر اثر ڈالنا نہیں بلکہ محض زبان کی تعمیر تھا۔ وہ بھی نہایت اہم کام تھا۔ جب تک زبان ایک مستقل صورت نہ اختیار کر لے، اس میں خیالات و جذبات ادا کرنے کی طاقت ہی کہاں سے آئے۔ ہماری زبان کے پائنیروں نے ہندوستانی زبان کی تعمیر کر کے قوم پر جو احسان کیا ہے اس کے لئے ہم ان کے مشکور نہ ہوں تو یہ ہماری احسان فراموشی ہوگی لیکن زبان ذریعہ ہے منزل نہیں۔ اب ہماری زبان نے وہ حیثیت اختیار کرلی ہے کہ ہم زبان سے گزر کر اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ ہوں اور اس پر غور کریں کہ جس منشاء سے یہ تعمیر شروع کی گئی تھی وہ کیونکر پورا ہو۔ وہی زبان جس میں ابتداء باغ و بہار اور بیتال پچیسی کی تصنیف ہی معراج کمال تھی، اب اس قابل ہوگئی ہے کہ علم و حکمت کے مسائل بھی ادا کرے۔ 
 زبان بول چال کی بھی ہوتی ہے اور تحریر کی بھی۔ بول چال کی زبان میرامن اور للولال کے زمانہ میں بھی موجود تھی۔ انہوں نے جس زبان کی داغ بیل ڈالی وہ تحریر کی زبان تھی اور وہی اب ادب ہے۔ ہم بول چال سے اپنے قریب کے لوگوں سے اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں، اپنی خوشی یا رنج کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ ادیب وہی کام تحریر سے کرتا ہے۔ ہاں اس کے سننے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے بیان میں حقیقت اور سچائی ہے تو صدیوں اور قرنوں تک اس کی تحریریں دلوں پر اثر کرتی رہتی ہیں۔ 
میرا یہ منشا نہیں کہ جو کچھ سپرد قلم ہو جائے وہ سب کا سب ادب ہے۔ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو جس کی زبان پختہ اور شستہ و لطیف ہو اور جس میں دل اور دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہو۔ اور ادب میں یہ صفت کامل طور پر اسی حالت میں پیدا ہوتی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربے بیان کئے گئے ہوں۔ طلسماتی حکایتوں یا بھوت پریت کے قصوں یا شہزادوں کے حسن و عشق کی داستانوں سے ہم کسی زمانہ میں متاثر ہوئے ہوں لیکن اب ان میں ہمارے لئے بہت کم دلچسپی ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرت انسانی کا ماہر ادیب شہزادوں کے حسن و عشق اور طلسماتی حکایتوں میں بھی زندگی کی حقیقتیں بیان کر سکتا ہے اور اس میں حسن کی تحقیق کر سکتا ہے لیکن اس سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ لٹریچر میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں کا آئینہ دار ہو۔ پھر آپ اسے جس پس منظر میں چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ چڑے کی حکایت یا گل و بلبل کی داستان بھی اس کے لئے موزوں ثابت ہو سکتی ہے۔ 
ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس کی بہترین تعریف تنقید حیات ہے۔ چاہے وہ مقالوں کی شکل میں ہو یا افسانوں کی یا شعر کی۔ اسے ہماری حیات کا تبصرہ کرنا چاہئے۔ ہم جس دور سے گزرے ہیں اسے حیات سے کوئی بحث نہ تھی۔ ہمارے ادیب تخیلات کی ایک دنیا بنا کر اس میں من مانے طلسم باندھا کرتے تھے۔ کہیں فسانہ عجائب کی داستان تھی کہیں بوستان خیال کی اور کہیں چندرکانتا سنتی کی۔ ان داستانوں کا منشا محض دل بہلاؤ تھا اور ہمارے جذبہ حیرت کی تسکین۔ لٹریچر کا زندگی سے کوئی تعلق ہے، اس میں کلام ہی نہ تھا، بلکہ وہ مسلم تھا۔ قصہ قصہ ہے، زندگی زندگی۔ دونوں متضاد چیزیں سمجھی جاتی تھیں۔ 
شعراء میں انفرادیت کا رنگ غالب تھا۔ عشق کا معیار نفس پروری تھا اورحسن کا دیدہ زیبی۔ انہیں جنسی جذبات کے اظہار میں شعرا اپنی جدت اور جولانی کے معجزے دکھاتے تھے۔ شعر میں کسی نئی بندش، یا نئی تشبیہ یا نئی پرواز کا ہونا داد پانے کے لئے کافی تھا۔ چاہے وہ حقیقت سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو۔ یاس اور درد کی کیفیتیں آئینہ دار اور قفس، برق اور خرمن کے تخیل میں اس خوبی سے دکھائی جاتی تھیں کہ سننے والے دل تھام لیتے تھے اورآج بھی وہ شاعر کس قدر مقبول ہے، اسے ہم اور آپ خوب جانتے ہیں۔ 
جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس اور شکوہ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا ہوا ہو تو سمجھ لیجئے کہ قوم جمود اور انحطاط کا شکار ہو چکی اور اس میں سعی اور اجتہاد کی قوت باقی نہیں رہی اوراس نے درجات عالیہ کی طرف سے انہیں آنکھیں بند کرلی ہیں اور مشاہدے کی قوت غائب ہوگئی ہے۔ 
مگر ہمارا ادبی مذاق بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے۔ دل بہلاؤکے سوا اس کا کچھ اور بھی مقصد ہے۔ وہ اب محض عشق و عاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے۔ ان کا محاکمہ کرتا ہے، اور ان کو حل کرتا ہے۔ وہ اب تحرک یا ایہام کے لئے حیرت انگیز واقعات تلاش نہیں کرتا یا قافیہ کے الفاظ کی طرف نہیں جاتا بلکہ اس کو ان مسائل سے دلچسپی ہے جن سے سوسائٹی یا سوسائٹی کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ 
اخلاقیات اور ادبیات کی منزل مقصود ایک ہے، صرف ان کے طرز خطاب میں فرق ہے۔ اخلاقیات دلیلوں اور نصیحتوں سے عقل اور ذہن کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ادب نے اپنے لئے کیفیات اور جذبات کا دائرہ چن لیا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ دیکھتے ہیں یا ہم پر جو کچھ گزرتی ہے وہ چیزیں تخیل میں جاکر تخلیق ادب کی تحریک کرتی ہیں۔ شاعر یا ادیب میں جذبات کی جتنی ہی شدت احساس ہوتی ہے اتنا ہی اس کا کلام دلکش اور بلند ہوتا ہے۔ جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت و حرکت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لئے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لئے بے کار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ 
زمانہ قدیم میں مذہب کے ہاتھوں میں سوسائٹی کی لگام تھی۔ انسان کی روحانی اور اخلاقی تہذیب مذہبی احکام پر مبنی تھی۔ اور وہ تخویف یا تحریص سے کام لیتا تھا۔ عذاب و ثواب کے مسائل اس کے آلہ کار تھے۔ اب ادب نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس کا آلہ کار ذوق حسن ہے۔ وہ انسان میں اس ذوق حسن کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان نہیں جس میں حسن کا احساس نہ ہو، ادیب میں یہ احساس جتنا ہی بیدار اور پرعمل ہوتا ہے اتنی اس کے کلام میں تاثیر ہوتی ہے۔ فطرت کے مشاہدے اور اپنی ذکاوت احساس کے ذریعہ اس میں جذبہ حسن کی اتنی تیزی ہو جاتی ہے کہ کچھ قبیح ہے، غیر مستحسن ہے، انسانیت سے خالی ہے، وہ اس کے لئے ناقابل برداشت بن جاتا ہے۔ نیز وہ بیان اور جذبات کی ساری قوت سے وار کرتا ہے۔ 
یوں کہئے وہ انسانیت کا، علویت کا، شرافت کا علم بردار ہے۔ جو پامال ہیں، مظلوم ہیں، محروم ہیں، چاہے وہ فرد ہوں یا جماعتی، ان کی حمایت اور وکالت اس کا فرض ہے۔ اس کی عدالت سوسائٹی ہے۔ اسی عدالت کے سامنے وہ اپنا استغاثہ پیش کرتا ہے اور عدالت اس کے احساس حق اور انصاف اور جذبہ حسن کی تالیف کر کے اپنی کوشش کو کامیاب سمجھتا ہے۔ 
وہ افسانہ لکھتا ہے مگر واقعیت کے ساتھ وہ مجسمہ بناتا ہے مگر اس طرح کہ اس میں حرکت بھی ہو اور قوت اظہار بھی ہو، وہ فطرت انسانی کا باریک نظروں سے مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ نفسیات کا مطالعہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے کیریکٹر ہر حالت میں ہر موقع پر اس طرح برتاؤ کریں کہ جیسے گوشت پوست کے انسان کرتے ہیں۔ وہ اپنی طبعی ہمدردی اور اپنی حسن پسندی سے زندگی کے ان نکات پر جا پہنچتا ہے جہاں انسان اپنی انسانیت سے معذور ہو جاتا ہے اور واقعہ نگاری کا رجحان یہاں تک روبہ ترقی ہے کہ آج کا افسانہ ممکن حد تک مشاہدہ سے باہر نہیں جاتا۔ 
(مضامین پریم چند (۱۹۶۰ء) سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK