Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملبہ

Updated: June 30, 2025, 1:21 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi

ملبہ ایک نشانِ عبرت ہے۔ یہ نشان انسانوں کی کشادہ اور آباد بستیوں میں چھوٹوں اور بڑوں کی توجہ اپنی طرف بُری طرح کھینچتاہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ملبہ ایک نشانِ عبرت ہے۔ یہ نشان انسانوں کی کشادہ اور آباد بستیوں میں چھوٹوں اور بڑوں کی توجہ اپنی طرف بُری طرح کھینچتاہے۔ شہر میں رہنے والے ہر آدمی کو اپنی زندگی میں ایک آدھ بار ہی سہی ملبہ کو کبھی قریب اور کبھی دور سے دیکھنے کا اتفاق ہوتاہے۔یہ درد مند دلوں کا راستہ روکتا اور بیدردوں کو معنی خیز مسکراہٹ پر اُکساتا ہے۔تعمیر و تخریب کے کام جہاں ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہاں ’ملبہ‘ہونے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں۔
 انسانوں کی طرح ملبوں کی بھی عمریں ہوتی ہیں۔کچھ ملبوں کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔مختصر عمر والے یعنی چھوٹی عمر کے ملبے زیادہ خراج پاتے ہیں ۔ان ملبوں کے دن بہت جلد پلٹ جاتے ہیں۔ یہ خوش نصیب ملبے کم عرصہ میں اپنی ہستی کو مٹا کر گُلِ گلزار بن جاتے ہیں۔ البتہ کچھ ملبے بہت طویل عمر پاتے ہیں۔یہ برسوں اپنی جگہ ہمالیہ پہاڑ کی طرح قائم و دائم رہتے ہیں۔
 کہتے ہیں ’گھور ے کے دن بھی پلٹتے ہیں ‘۔ گھوروں کے الٹنے پلٹنے کا یہ عمل بھی بڑا عجیب ہے۔جہاں دیدہ افرادکے مطابق عام حالات میں گھورے کے دن بارہ سال کی مدت میں بدل جانے چاہئیں لیکن ان بستیوں میں جہاں شہری انتظامیہ زیادہ فعال نہیں ہوتا وہاں ’گھورے‘ کے دن کی مدت دراز ہونے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں۔جہاں آبادی بڑھنے کی رفتارتیز ہوتی ہے وہاں گھورے کے دن بدلنے کی رفتاربہت سست ہوتی ہے۔اگر شہر میں ’گھورا ‘ نہ ہو تو سوچئے کیا ہو؟گھورے سے ناگواری کا اظہار کرنے والے بھی ہنگامی صورت میں اسی کو گوارا کرکے اپنا پنڈ چھڑاتے ہیں۔ یہ آرام طلب شہر میں گھورے کا پتہ ٹھکانہ خوب جانتے ہیں۔ چنانچہ وقت پڑنے پر وہ مطلوبہ گھورے کو گھور کے دیکھ کر باقیات و فضولیات اس کی طرف اچھا ل کر ایسے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ ایسے مناظر اکثر شام ڈھلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
  کوڑاکرکٹ کے ڈھیر کو ملبہ نہیں کہنا چا ہئے۔ ایسا کہنا ملبے کی صریحاً توہین ہے۔ کوڑا کرکٹ اورملبہ کا کوئی موازنہ نہیں ۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ ملبے کے جمود میں بھی ایک تیقن ہوتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کے خمیر میں تعفن کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کوڑ اکرکٹ کے ڈھیر کو دیکھ کر آہ نکلتی ہے۔ملبہ کو دیکھ کر باخبر معمار کے دل سے واہ نکلتی ہے۔معمار کے دل میں ملبے کا وہی مقام ہے جو مٹی میں دبے ہوئے سونے کا ہے۔ وہ ملبہ کے ڈھیر میں دن میں بھی خواب دیکھنے سے باز نہیں آتا۔
 ملبوں پر غور کریں تو ان کی کچھ اور غیر معمولی خوبیاں سامنے آتی ہیں۔مثلاً ملبہ مقبوضہ بھی ہوسکتا ہے اور متنازع بھی۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ مقبوضہ ملبوں کا قبضہ مختلف ہاتھوں میں بدلتے بدلتے ملبے کومٹی کے ڈھیر میں بدل دیتاہے۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔متنازع ملبوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔تنازع کی طول کھینچنے کی صورت میں وہ اپنی کشش کھو بھی سکتاہے۔
  ملبہ میں کیا ہوتا ہے؟ملبہ دراصل منہدم عمارت کی اینٹیں ، پتھر، مٹّی اور تعمیری مسالے کا مجموعہ ہے۔تعمیر کے لوازمات میں سب سے ’لاجواب ‘چیز اینٹ مانی گئی ہے۔ اس لئے اس کا جواب ’پتھر‘ کے علاوہ ٹھیک ٹھیک نہیں دیا جاسکتا۔مٹّی کے اینٹ بننے کا عمل آسان نہیں ہوتا۔گندھی ہوئی مٹّی کی سِل کوپہلے خشک کرتے ہیں۔پھر اسے پزادے ( بھٹّی)میں پکا تے ہیں۔ جب یہ خوب پک جاتی ہے تو اسے لائقِ استعمال کرنے کے لئے ہوا کھلائی جاتی ہے۔ انجامِ کار اسے (بہت مناسب دام پر) عمارت میں چنوانے کے لئے پیش کردیا جاتا ہے۔اینٹ کا رنگ بالعموم سرخ ہوتا ہے۔مکان گرتا ہے تو اینٹ کی آواز ہی اصل آواز ہوتی ہے جو دور تک سنی جاتی ہے۔اینٹ میں بجنے کی صلاحیت بھی بدرجہ ٔ اتم ہے۔دُنیا میں اینٹ سے اینٹ بجانے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے پھر بھی آج تک کوئی اینٹ کا توڑ نہیں پیدا کرسکا ہے۔ملبہ میں دوسرا مقام ’پتھر‘کو حاصل ہے۔جن عمارتوں میں خالص پتھر لگا ہوتا ہے آدمی ان پتھروں کی درازیٔ عمرپر ناز کرتا ہے۔پھول مرجھا جاتا ہے مگرپتھر پر جونک نہیں لگتی۔
 پرانے راجوں مہاراجوں کی بنائی ہوئی عمارتیں جریدہ ٔ عالم پر آج بھی پتھر کی لکیر ہیں۔آ پ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پتھر کی عمارتوں کی طرح پتھریلی زمین کی بھی اہمیت ہے۔ پتھریلی زمین کو دوسرے لفظوں میں سنگلاخ بھی کہا جاتا ہے۔شاعری میں بھی ایک زمین ایسی ہے جسے’ پتھریلی‘ کہتے ہیں۔ہم جیسے کمزور شاعروں کااس زمین میں شعر کہنا آسان نہیں ہوتا۔ پتھریلی زمین پر کہا گیا یہ شعر بڑا توجہ طلب ہے ؎
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں 
مجھے بدن سے نکالو میں تنگ آگیا ہوں 
 ملبے کی دیگر چیزوں میں ’سیمنٹ‘ کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔سیمنٹ ایک قسم کا ملائم سفوف ہے جو بہت زود اثر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا زود رنج بھی ہوتا ہے۔ اگراس سفوف (یعنی سیمنٹ)کو بروقت بروئے کار نہ لایا جائے تو وہ بے کار بھی ہوجاتا ہے۔ملبے کی ایک شئے ریت بھی ہوتی ہے۔یہ ایک قسم کی دُردُری مٹّی ہے۔سیمنٹ اور ریت کا ساتھ بہت گہرا اور دیرپا مانا جاتا ہے۔اکیلے ریت کی دیوار نہیں بنائی جاسکتی لیکن سیمنٹ کے ساتھ مل کر جو دیوار بنتی ہے اس دیوار کے کان نہیں ہوتے یعنی وہ نشانِ عبرت نہیں ہوتی۔
 ملبہ آخر کس کام آتا ہے؟ملبہ پیوندکاری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور خانہ پری کے لئے بھی۔ کبھی کبھی ملبہ کا استعمال ’غلبہ ‘حاصل کرنے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ظالم حکومتیں کمزور ملکوں پر حملہ کر کے ایسا کرتی ہیں۔
 تاریخِ انسانی میں جوملبے نامور ہوئے ہیں ان کی فہرست بہت طولانی نہیں ہے۔پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے علاوہ بھی بساطِ عالم پرکچھ ملبے اپنا نقش چھوڑ گئے ہیں۔ ہمارے عہد کے ملبے کا نام ’غزہ‘ ہے۔’ملبہ ‘بہ زبانِ خاموشی درس بھی دیتا ہے۔انسانوں کی بستی میں یہ ’ملبہ‘ آدمی کے جبر واستبداد اور بے انصافی و اندھیر کی بدولت وجود میں آتا ہے۔ ہوش مند اس سے ڈرتے ہیں ....کیونکہ ایسا ملبہ جلد یا دیر اپنے مجرموں سے سخت انتقام بھی لیتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK