Inquilab Logo Happiest Places to Work

’میر کلچر‘ کے بارے میں یہ کہنامبالغہ نہیں کہ یہ زندہ بھی ہے اور زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی

Updated: January 28, 2024, 1:10 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

میر تقی میر پر خواجہ احمد فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مضامین اور نثار احمد فاروقی اور شمس الرحمن فاروقی کی تصانیف کے بشمول کئی دوسری کتابوں اور مضامین میں کئی عالمانہ نکات بیان کئے گئے ہیں۔

Mir Taqi Mir. Photo: INN
میر تقی میرؔ۔ تصویر : آئی این این

میر تقی میر پر خواجہ احمد فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مضامین اور نثار احمد فاروقی اور شمس الرحمن فاروقی کی تصانیف کے بشمول کئی دوسری کتابوں اور مضامین میں کئی عالمانہ نکات بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اس سوال کا خاطر خواہ جواب نہیں ملتا کہ میر تقی میر کو ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت، شاعری میں مسلم الثبوت استاد اور ایک قابل اعتبار تذکرہ نگار کہنے پر اکتفا کرنا کافی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ایک مکمل آرٹ اور تہذیب میں کیا فرق ہے؟ جواباً عرض ہے کہ شاعر کا دائرۂ ہنر، فن، شاعری، مصوری تک محدود ہے جبکہ اصلاح، صناعی، ، شائستگی اور culture کے معنی میں لفظ تہذیب پوری زندگی کو محیط ہے۔ 
  میر کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری کا بھی ایک ڈھب ہے اور زندگی گزارنے کا بھی۔ جنون، عقل اور سلیقہ میں تضاد کی نسبت عرض ہے کہ میر کے جنون کی تکمیل شعور سے اور شعور کی تکمیل جنون سے ہوتی ہے۔ انہوں نے خود اعلان کیا ہے: ’’کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ‘‘۔ غالب کی شاعری میں ایسے مصرعوں اور شعروں کی تعداد بہت ہے جن میں اثبات سے نفی اور نفی سے اثبات کا کام لیا گیا ہے لیکن میر تقی میر نے جس انداز سے لاشعور کو شعور کے تابع کرنے یا شعور و لاشعور کی ہم آہنگی سے اپنی زندگی اور فن کو ایک نئے ڈھب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے وہ ایک خاص تہذیب کا بنیاد گزار ہے۔ اسی خاص تہذیب کی کار فرمائی کا نتیجہ ہے کہ وہ کبھی تو چاند میں ایک نسوانی وجود یا حسن دیکھتے ہیں یا عین بہار میں وحشت زدہ ہوکر آواز لگاتے ہیں کہ 
کچھ موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
 لیکن جب جنون کی کیفیت سے نجات ملتی ہے یا لاشعور پر شعور کو غلبہ حاصل ہوتا ہے تو اس اعتماد کا اظہار نہایت آسان لفظوں میں اس طرح کرتے ہیں کہ :
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
 میر کی شاعری میں عشق ایک ایسی آگ ضرور ہے جو ہجر نصیبی کے ایندھن سے خوب دہکتی ہے مگر اس میں عشق حقیقی کا جذب و کیف جل کر راکھ ہوتا ہے نہ نفس پرستی کی ہوا تیز ہوتی ہے بلکہ ہوس سے پاک عشق کی پروردہ ایسی تہذیب وجود میں آتی ہے جو ناکامیوں سے کام لے کر کامیاب زندگی گزارنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ 
 غور فرمائیے، یہ نتیجہ ہے تصوف سے ان کے تخلیقی رشتے کا۔ غالب کے عشق کا بنیادی جذبہ بھی مجازی تھا اور تصوف کی روایت سے ہی ان کو نصیب ہوا تھا۔ 
 اسی لئے غالب نے تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ
گھر میں تھا کیا جو ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے
مگر اُس شاعر عالی مرتبت نے، جو ’’خدائے سخن‘‘ کہلایا، اپنی بات نہایت آسان لفظوں میں اس طرح کہی: 
تمام عمر مَیں ناکامیوں سے کام لیا 
یہ کہہ کر اُنہوں نے جذبہ کو زندگی کا تجربہ اور کامیاب زندگی گزارنے کا وظیفہ بنا دیا ہے۔ وہ خود قنوطی ہیں جو میر کے کلام میں نالۂ شیون، اضطراب، حیرانی اور شدت غم کے اظہار کے سبب ان کو قنوطی کہہ دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ میر کے فن اور زندگی دونوں کی معجز نمائی یہ تھی کہ شدت غم یا سیلاب غم بھی انہوں نے اپنے شعروں میں یوں جذب کر دیا ہے کہ گردش لیل و نہار کے باوجود ان کی روانی پر فرق نہیں پڑا ہے۔ 
  یہ تو میر ہی کہہ سکتے تھے کہ
 ہمارے دل میں آنے سے تکلف غم کو بے جا ہے
یہ دولت خانہ ہے اُس کا وہ جب چاہے چلا آوے
 میر کے آرٹ یا تہذیب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے جوانی کی لغزشیں یا قدرت کے کھیل کے سبب نازل ہونے والے غم کو صبر میں ڈھالنے اور فراموش یا فنکاری کو حوصلہ مندی کا درجہ دے دیا ہے۔ کیا عمدہ بات کتنے اچھے انداز میں انہوں نے کہی ہے کہ
اس دشت میں اے میرؔ سنبھل ہی کے قدم رکھ
ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے
 میر کلچر صرف جذبے کی فراوانی سے نہیں تو غور و فکر سے بھی عبارت ہے۔ غور و فکر کے بعد ہی میر نے وسائل میں توازن پیدا کرنے کی اصل ضرورت کا احساس دلایا ہے جو آج کا یا جدید معاشیات کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں 
کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سرو پا کو ہو
اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی 
 ’اسباب کم اسبابی‘ پر قدغن لگانا اور ’دولت غم‘ کی بنیادپر نئی عمارت کھڑی کرنا میرکلچر کی روح ہے۔ اس کلچر کے بارے میں یہ کہنامبالغہ نہیں کہ یہ زندہ بھی ہے اور زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی۔ ان کا ڈکشن نہایت سادہ مگر اثرآفریں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK