مراٹھی ادب کو مکند راج گیانیشور ، تکارام ، ایکناتھ جیسے سنت شاعروں کی زبان وراثت میں ملی تھی، تو پنت یعنی عظیم شاعروں کا فن بھی روایت سے آیا تھا۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے مراٹھی ادب کے موضوعات ، زبان، اسلوب میں دھیرے دھیرے تبدیلی آنے لگی۔
مراٹھی ادب پڑھنے اور اس سے محبت کرنے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ تصویر: آئی این این
مراٹھی میں بیسویں صدی کی پانچویں دہائی سے نئے ادب کا بول بالا شروع ہوا۔ یہ نیا ادب مہاراشٹر کے اعلیٰ طبقے کی تہذیب کا حصہ تھا۔ ظاہر ہے اس طبقے میں عوام کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں تھی۔ نئے ادب کا رخ ہیئت پسندی کی جانب زیادہ تھا۔ مراٹھی ادب کو مکند راج گیانیشور، تکارام، ایکناتھ جیسے سنت شاعروں کی زبان وراثت میں ملی تھی، تو پنت یعنی عظیم شاعروں کا فن بھی روایت سے آیا تھا۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے مراٹھی ادب کے موضوعات، زبان، اسلوب میں دھیرے دھیرے تبدیلی آنے لگی۔ پہلے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ، عظیم وراثت کا احساس، مراٹھی ادب پر دوسری زبانوں کے ادب کی طرح حاوی تھا مگر آزادی کے بعد ملک میں سبھی سطح پر مایوسی ہی حاصل ہونے لگی تو اس کا عکس ادب اور دوسرے فنون لطیفہ پر پڑنا ضروری تھا۔ بیسویں صدی کے آخری چالیس سال میں ہندوستان کو کئی مورچوں پر لڑائی لڑنی پڑی۔ دانشوروں، ادیبوں، فنکاروں نے ان سبھی کا گہرا مطالعہ کیا۔ اپنی اپنی ذہنی اور جذباتی تربیت کے مطابق ان باتوں کو جذب کیا۔ ان کی وجہ سے آگے چل کر ہونے والے اثرات کی تہہ کا جائزہ لیا اور اس کا جو ردّعمل ان کے دل و دماغ پر ہوا اسے اپنی تخلیق میں رقم کیا۔ الگ الگ سوچ، نظریے اور احساس سے پنپتا مراٹھی ادب دوسرے علاقوں کے ادب کے ہمراہ ہوتا رہا جو آج بھی منزل کی طرف تیز کچھ سست قدم چل رہا ہے۔
ہندوستان آزاد ہونے کے بعد مراٹھی شاعری میں نئی صبح کی آمد کی خوشیاں چھلکنے لگیں۔ صدیوں بعد آج دیکھی پہلی خوشگوار صبح کا ماحول پیدا تو ہوا مگر دھیرے دھیرے ’تھا انتظار جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ‘ اس بات سے سبھی واقف ہونے لگے۔ اسی مایوسی میں ابھرے شاعری میں کئی سوال، اور انیل نے کہا سبھی دیپ کیسے مدھم ہوچلے؟ تو سریش بھٹ نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا :
ہوتا ہوتا کال راترزھالی
ارے پنھا آیشیا چا پیٹوا مشالی
(صبح ہوتے ہوتے کالی رات ہوگئی
چلو پھر سے زندگی کی مشعلیں جلائیں )
آزادی کے بعد کے چالیس سال مراٹھی شاعری میں بڑا شور و غل رہا۔ مراٹھی شاعری کی سبھی اصناف میں شاعری ہوتی رہی۔ پابند شاعری سے لے کر آزاد نظم، نثری نظم تک کی عمدہ تخلیق ہوتی رہی۔ مادھوراؤ پٹوردھن کے چھندو رچنا، نامی علم عروض کی کتاب کی وجہ سے اردو کا آہنگ اور عروض مراٹھی میں داخل ہوا۔ انگریزی اور یورپ کی شاعری مراٹھی میں بڑے پیمانے پر منتقل ہوئی۔
جمالیات سے حقیقت پسندی کی اور مراٹھی شاعری کا رجحان دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا۔ ایک لہر قومی یک جہتی کی تحریک سے جڑی تھی تو دوسری طرف سمجھ میں تبدیلی لانے کا منشا رکھنے والی شاعری پنپ رہی تھی۔ اس دور میں گ۔ دی۔ ماڈگلکر کا گیت رامائن نامی مسلسل نغموں کا مجموعہ سب سے زیادہ مقبول رہا۔
اس دور میں جمالیاتی شاعری ’بورکر‘ کررہے تھے۔ ان کی شاعری میں زندگی سے بے پناہ محبت، نیچر کی خوبصورتی کا احساس، الفاظ کی تازگی اور موسیقیت (غنائیت) تھی۔ برعکس کسماگرج کی شاعری میں سوشل اویئرنیس، عوام کے جذبات کی گونج، اصول پسندی اور پرامیدی ابھر آتی ہے۔ شرت چندر، مکتی بودھ کی نظموں پر سوشلزم کا اثر صاف نمایاں ہوتا ہے۔
بی ایس مرڈھیکر مراٹھی شاعری کے میر کارواں کہلاتے ہیں۔ کیشوسوت نے آزادی سے پہلے رومانٹک احساس کی شاعری کی تو مرڈھیکر نے جنگ عظیم کے بعد کی مشینی زندگی کی حقیقت سے واقف کرایا۔ شاعری کے بارے میں جو روایتی خیالات تھے، اسٹرکچر کے جو دائرے تھے، اور موضوع کی نسل در نسل چلی آرہی ذہنیت تھی، اسے توڑ پھوڑ دیا، شاعری کے بے معنی الفاظ، مبالغہ، علامتی اسلوب کو توڑ مروڑ دیا، انسان کی بے بسی اور تنہائی کو صحیح سُر دیا۔ اظہار خیال کے لئے مراٹھی کی آسان بحریں استعمال کیں، ایک نیا احساس مراٹھی ادب کو بخشا۔ ان کی شاعری پلے نہیں پڑتی، ایسا نقادوں کا کہنا تھا۔ اصول پسند آدرش وادی اعلیٰ طبقے نے اس نئی شاعری کو ناپسند کیا، مگر اب تک ان کی شاعری کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
گرندیکر، باپٹ، پاڈگاؤنکر اس تری وینی نے شاعری ترنم میں سنا کر عوام تک پہنچائی اور کاویہ واچن کی روایت قائم کی تھی۔ گیان پیٹھ انعام یافتہ کسماگرج اور ونداکرندیکر یہ دو شاعر مراٹھی میں ہوئے۔ کرندیکر اجتماعیت کے زیراثر شاعری کرتے رہے مگر ۱۹۵۹ء سے اس نظریے کے اثر سے باہر نکلے۔ پراثر الفاظ، ہیئت پسندی اور جذبات کی گہرائی ان کی شاعری کی شناخت ہے۔ خواتین شاعروں میں اندراسنت کا نام سب سے اہم ہے۔ ’’ہاتھیوں کے دانت پر کی گئی نقاشی ہے ان کی شاعری‘‘ یہ رائے ہے بزرگ نقاد گنگادھر گاڈگل کی۔ مراٹھی شاعری کی روایت سنت گیانیشور سے شروع ہوتی ہے۔ دور حاضر کے احساسات کا اظہار کرنے کی قابلیت اس زبان میں ہے مگر زبان میں تجربہ ہونا ضروری ہے۔ مرڈھیکر کے بعد انگریزی الفاظ مراٹھی شاعری میں آنے لگے۔ ادبی احساس کی روایت آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں اپنے آپ آفاقیت پارہی ہے۔ جدید یورپین اور امریکن ادب کا اثر لئے بنا ہماری قابلیت ِ اظہار میں اضافہ ہونا ناممکن ہے، یہ رائے تھی جدید مراٹھی شاعروں کی جن میں دلیپ چترے، سدانند ریگے، انیردھ کلکرنی کے نام سرفہرست تھے۔ رومانیت کی مخالفت کرنے والی اور اینٹی رومانٹک پروسیس سے پیدا ہونے کا دعویٰ کرنے والی بیشتر جدید مراٹھی شاعری پھر سے جمالیاتی لہر سے جاملتی ہے۔ پوشی ریگے، آرتی پربھو، مہانوراور شنکر رامانی ان شاعروں کی نظمیں اسی قسم کی مثالیں ہیں۔
مراٹھی کے والمیکی ماڈگلکر نے نئے دور کے شاعروں سے مخاطب ہوکر کہا تھا ’’تم لوگوں کی نظمیں اور عالموں کی اس پر کی ہوئی تنقید یہ دونوں باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اگر دانشوروں کو ان نظموں میں کچھ دکھائی دیتا ہو تو انہیں (ان نظموں کے معنی) بار با پڑھنے والوں کو سمجھانا چاہئے۔ ‘‘آج کی رمز آمیز شاعری عوام کی سمجھ کے باہر ہے۔
ردو افسانے کا ترقی پسند دور اور مراٹھی کا نوکتھا یگ ایک ساتھ ابھرے ہیں۔ کرشن چندر، بیدی، منٹو، عصمت چغتائی، عباس، جس دور میں اپنے افسانوں کا جادو جگارہے تھے اسی وقت مراٹھی میں گاڈگل، گوکھلے، بھاوے، ماڈگلکر، شانتارام اور موکاشی کی کہانیاں دھوم مچا رہی تھیں۔
نئے کتھانو کی بنیاد کچھ اصولوں پر تھی۔ پلاٹ، بیانیہ اور کرداروں کو زیادہ اہمیت نہ دینا، نفسیاتی تجزیہ کرنا، عورت اور مرد کے رشتوں کو روایتی نظر سے نہ دیکھتے ہوئے مغربی نظریے کی طرح دیکھنا اور ماحول کو کردار اور موزوں پلاٹ کی مانند اہمیت دینا اہم اصول تھے۔
گنگادھر گاڈگل نے کہانی میں کئی تجربے کئے۔ ’بے چہرہ شام‘ اور ’نیچے اترا ہوا آسمان‘ جیسی بے شمار کہانیوں سے Stream of Consciousnessکا احساس ہوتا ہے۔ ریگے اور ناڈکرنی وغیرہ بعد کے افسانہ بھی اسی راہ پر چل پڑے۔ بعد کی نسل میں شنکر پاٹل، میراسدار، شری ج جوشی، پنڈلک، کھانولکر، بانولکر، آنند یادو، چور گھڑے، دلوی، کرنک، پربھو دیسائی، مراٹھے، کم دیسائی، جاگے گاونکر جیسے پچاس نام گنوائے جاسکتے ہیں۔ ان میں سب سے الگ افسانہ نگار مالکھاجی، اے کلکرنی نے سو سواسو کہانیوں کے بل بوتے پر مراٹھی کہانی میں اپنی الگ شناخت بنائی۔ انہوں نے مہاراشٹر کرناٹک کے سرحدی علاقے میں بسے نچلے طبقے اور درمیانی طبقے کی زندگی کو اپنی کہانی کا مرکزی موضوع بنایا۔ یہ لوگ بے بسی اور غریبی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر دکھ سہنے کا بے پناہ حوصلہ ان میں موجود ہے۔ شہروں میں بسے غریب اور مڈل کلاس لوگ بھی ان کی کہانیوں میں ملتے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی پر Destiny نیتی کا گہرا سایہ پڑا ہے۔ وہ ان کے ساتھ خونخوار کھیل کھیلتی نظر آتی ہے۔ جی اے کا فلسفہ کئی ناقدوں کو یکطرفہ معلوم ہوتا ہے۔ جی اے کی علامتیں ، استعارے اور اسلوب سب سے ہٹ کر، ان کی کتھاسادھنا کسی قدیم عظیم عبادت گاہ کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ ان کی apocryphalکہانیوں میں رمز کا وجود لہرو ں کی طرح تھرتھراتا رہتا ہے۔ ان کا طنز و مزاح بھی بے چین کرنے والا ہوتا ہے۔ انہوں نے تمثیلی علامتی apocryphal افسانوں کے ذریعے مراٹھی افسانوں میں نئی دنیا ایجاد کی ہے۔
پانولکر کی کہانیوں میں واردات و حادثوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ پولیس، کسٹم والے، غنڈے اور اسمگلر جیسے کردار ان کی کہانیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ حالات سے جھوجھتے ہیں ، تلخی سے بھر جاتے ہیں مگر مرجھاتے نہیں ہیں۔ پنڈلک کی کہانیوں میں صحیح لفظوں کا چناؤ، روایت سے نازک رشتہ رکھنے والی ان کی کہانی ہے۔ چرمولے غیرمعمولی وارداتوں اور کرداروں کی کہانی کہتے ہیں۔ اپنے حصے کا دکھ یہ لوگ چپ چاپ سہتے ہیں۔ یہ بیانیہ افسانے صرف ایک کردار کی زبان سے بیان کرتے ہیں۔ کھانولکر، بھارت ساسنے، و۔ پو۔ کالے، لکشمن راؤ سردیسائی ایسے کئی کہانی کار نئے اسلوب، نئی بھاشا اور دیہات و مہانگر کے مسائل کو مرکزی موضوع بنا کر لکھتے رہے ہیں۔ اسٹرکچر اور احساسات کے اظہار میں کئی تجربے ہورہے ہیں۔ دیہات کے افسانوں میں میراث دار، شنکر پاٹل، لا۔ بھ۔ پاٹل نے قصوں اور لطیفوں سے ماخوذ کرکے دلچسپ کہانیاں لکھیں مگر آنند یادو، سکھاکلال، چاروتاساگر اور آنند پاٹل وغیرہ نے دیہات کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔
خواتین افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کی طرح بے باک افسانہ نگار مالتی بیڈیکر (وبھاوری شرورکر) کا نام سب سے پہلے لینا ہوگا۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’ہنڈولیاور‘ بڑے دنوں تک زیر بحث رہا ہے۔ رشید جہاں کی طرح انہیں بھی کڑوی تنقید اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بعد وسندھرا پٹوردھن، جوسنا دیودھر، کمل دیسائی، کرشنابائی، وجیا راجیا دھیکش، سدھا نرونے، پریا تنڈولکر، گوری دیشپانڈے، آشا بگے، سانیا اور تارا بنارسے وغیرہ کچھ نام قابل غور ہیں۔
۱۹۶۰ء کے بعد مراٹھی ادب میں ایک نیا انقلاب آیا جو دلت ادب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ Black Literature کی طرح یہ بھی ایک اسٹیبلش ادبی رجحانات کے خلاف بغاوت کے طور پر ابھر آیا۔ اس لہر کی طاقت روایتی مراٹھی ادب اور ادیبوں کو ڈرانے والی تھی۔ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کی تحریر اور تقریر کے زیراثر آزادی کے بعد دلت معاشرے میں تعلیم پانے کی للک بڑھی۔ تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں کا زندگی کی جانب دیکھنے کا نیا نظریہ تھا۔ اپنے سماج اور ذات پر صدیوں سے ہورہے ظلم و جبر کی وجہیں وہ ڈھونڈنے لگے اور اسی سوچ و مشورے سے ابھرا دلت ادب جس میں بغاوت کا شور خاص طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ وہ ناانصافی، تہذیب، روایت، سماجی نظام کو ٹھکراتے ہیں اور انکار، بغاوت، انسانیت اور سائنٹفک نظریے کے ذریعے دنیا بنانے کی ان کی تمنا ہے۔ دلت ادیبوں نے ویسے افسانے، ڈرامے، نظمیں لکھی تو ضرور ہیں مگر دلت ادب آتے ہی نظمیں اور سوانح حیات کا ذکر زیادہ آتا ہے۔
وقار قادری نے دلت افسانے اور یعقوب راہی نے دلت نظمیں اردو میں منتقل کی ہیں۔ قادری صاحب کو ان کی کتاب دلت کتھا پر ساہتیہ اکادمی انعام بھی ملا ہے۔ دیاپوار، لکشمن مانے، لکشمن گائیکواڑ، ارجن ڈانگلے، مادھوکونڈولکر اور پروفیسر کامبلے کی سوانح حیات میں مراٹھی قاری کو نئی دنیا سے پہچان کرائی ہے۔ بلوت کے تخلیق کار دیاپوار نے ہندو سماج سے خارج کئے گئے سماج پر نسل در نسل جو ظلم ہوا ہے اس کو بڑی سادگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سون کامبلے کی کتاب ’یادوں کے پنچھی‘ میں دلت اور اعلیٰ طبقوں میں چل رہا دانشورانہ اپروچ ملتا ہے۔ لکشمن مانے کی ’اپرا‘ نامی سوانح حیات میں دلت دروہی افسانوں اور نظموں میں بڑی طاقت کے ساتھ ابھر کر آتا ہے۔ دیاپوار، یشونت منوہر، ہیرا بنسوڑے، پرگیا لوکھنڈے، پرلہاد چیندونڈکر، نام دیو ڈھسال اور وامن نمبالکر جیسے شاعروں نے کئی طرح اپنے جذبات کو تیزی کے ساتھ نظموں میں اچھالا ہے۔ یہ نظمیں دھماکے کی طرح مراٹھی ادب میں پھٹ پڑیں۔ سماج کا جو اسٹرکچر تھا یا اس کی نگرانی کرنے والی قدروں کے نظام پر یہ خوفناک وار تھا۔ دلت تحریک ’ساہتیہ‘ عنوان سے پہچانی جاتی ہے جس میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے کئی قلمکاروں نے اپنی شناخت بنائی۔
خودشناسی، انکار اور بغاوت دلت ادب کے اہم موضوع رہے ہیں۔ بابوراؤ باگل نے ’میں نے ذات چرائی تھی‘ اور ’موت سستی ہورہی ہے‘ جیسی کہانیوں کے ذریعے ذات پات اور اونچ نیچ ماننے والے سماج کی ذہنی تربیت ہی پر تلخ زبان میں تنقید کی ہے۔ دتابھگت نے اپنے ڈرامے ’کھیلیا‘ اور ’واٹاپل واٹا‘ میں دلت اور سورن (اعلیٰ طبقہ) کی جدوجہد اور اس کے پیچھے ہورہی سیاست کی منظرکشی کی ہے۔ تین نسلوں دلت مسائل کی جانب دیکھنے کا مختلف نظریہ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ راجاڈھالے کہتے ہیں کہ ’جو کوئی اس سماجی دائرے اور تہذیبی گروہ کے خلاف لڑنے کی منشا رکھ کر ادب تخلیق کرے گا اور بھٹکے ہوئے سماج کو صحیح راہ پر لائے گا وہ دلت قلمکار ہوگا اور اس کی تخلیق دلت تڑپ سے ہوگی۔ ‘
مگر یہ نہ ہوسکا اور اب یہ عالم ہے کہ بیشتر دلت ادیبوں میں یہ تحریک اپنی اپنی خودغرضی کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ دلت مومنٹ کے ادیب اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن گئے۔ بغاوت کے نام پر دلت ادب میں نعرے بازی اور یکسانیت آگئی ہے۔ مہاراشٹر میں ہی نہیں، سارے ملک میں سیاسی، سماجی، تجارتی اور تہذیبی تبدیلیاں آئی ہیں۔ مزدور یونین کا بنیادی ڈھانچہ اور نظریہ تک ماند پڑا ہے مگر دلت شاعری اور نثر میں وہی پرانے نعرے بازی سنائی دیتی ہے۔
(تیسرا اور آخری حصہ آئندہ ہفتے)