Updated: May 19, 2025, 5:14 PM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ نے پیر کو اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمودآباد کی درخواست پر جلد سماعت کیلئے رضامندی ظاہر کی۔ اشوکا یونیورسٹی کےپروفیسرز نے بے بنیاد گرفتاری کی مذمت کی اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا اس کے علاوہ ملک کی کئی مشہور شخصیات نے ان کی گرفتاری پر شدید تنقید کی۔
پروفیسر علی خان محمود آباد۔ تصویر: آئی این این۔
سپریم کورٹ نے پیر کو اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمودآباد کی درخواست پر جلد سماعت کیلئے رضامندی ظاہر کی، جنہیں ایک روز قبل آپریشن سندور پر پریس بریفنگز سے متعلق اپنے تبصروں کے باعث گرفتار کیا گیا تھا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بینچ کے سامنے کیس پیش کیا۔ لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق سبل نے عدالت کو بتایا کہ پروفیسر کے خلاف بھارتی مسلح افواج کے آپریشن پر’’ایک مکمل طور پر محب وطن بیان‘‘ پر مقدمات درج کئےگئے ہیں۔ چیف جسٹس گوئی نے کیس کو منگل یا بدھ کے روز سماعت کیلئے فہرست میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ پروفیسرعلی خان محمودآباد کے خلاف دو مقدمات درج کئے گئے ہیں جن کا تعلق ہندوستان کی جانب سے۲۲؍ اپریل کے پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد کیمپوں کے خلاف کئے گئے فوجی آپریشن سے متعلق میڈیا بریفنگز پر دیئے گئے بیانات سے ہے۔ ایک مقدمہ ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی یووا مورچہ اکائی کے جنرل سیکریٹری، یوگیش جاتھری کی شکایت پر درج کیا گیا جبکہ دوسرا مقدمہ ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیا کی شکایت پر درج کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: آپریشن سیندور سے متعلق تبصرہ پر اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد گرفتار
علی خان پر بھارتیہ نیایا سنہیتا کی متعدد دفعات کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں جن میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے اقدامات، فساد برپا کرنے کی نیت سے دیئے گئے بیانات، قومی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے والے اعمال اور خواتین کی عزت پر حملہ کرنے والے الفاظ یا اشارے شامل ہیں۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق، اتوار کو پروفیسر علی خان محمودآباد کو دو دن کیلئے پولیس تحویل میں دے دیا گیا۔
علی خان نے کیا کہا تھا
یاد رہے کہ آپریشن سندور کے بعد اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے دائیں بازو کے اُن عناصر کو نشانہ بنایاتھا جو کرنل صوفیہ کے ذریعہ پریس بریفنگ پر خوشی کااظہار کررہے تھے۔ ۸؍ مئی کو کئے گئے فیس بک پوسٹ میں انہوں نے کہاتھا کہ’’شاید انہیں اتنی ہی بلند آواز میں یہ مطالبہ بھی کرنا چاہئے کہ ہجومی تشدد، من مانے بلڈوزر ایکشن اور بی جےپی کی نفرت انگیزی کا شکار ہونے والے افراد کو بھی ہندوستانی شہری کے طورپر تحفظ فراہم کیا جائے۔ ‘‘ علی خان محمود آباد نے مزید کہا کہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ کے ذریعہ جو ظاہری پیغام دیاگیا وہ اہم ہے مگر ’’اس ظاہری تاثر کو زمینی حقیقت میں بھی بدلنا چاہئے ورنہ یہ صرف منافقت ہوگی۔ ‘‘محمودآباد کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف اپنے بنیادی حق، یعنی آزادیِ اظہار کا استعمال کرتے ہوئے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ پروفیسر کا اصرار ہے کہ ان کے بیانات کو کمیشن نے’’مکمل طور پر غلط سمجھا‘‘ اور نوٹس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان کی پوسٹس خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف کیسے تھیں۔
یہ بھی پڑھئے: ورشا گائیکواڑ اور سپریہ سلے سمیت مہاراشٹر کے ۷؍ اراکین پارلیمان ’ سنسد رتن ایوارڈ‘ کیلئے منتخب
علی خان کی گرفتاری پر مشہور شخصیات کی جانب سے شدید مذمت کی گئی
اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر اور ماہرِ سیاسیات علی خان محمودآباد کی آپریشن سندور پر دیئے گئے بیانات کے بعد گرفتاری پر قانون سازوں، سیاسی لیڈران، نقادوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ متعدد افراد نے اسے علمی آزادی پر کھلا حملہ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انہیں ان کی مسلم شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
سینئر کانگریس لیڈرپون کھیڑا نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ’’ان کا واحد قصور یہ ہے کہ انہوں نے یہ پوسٹ لکھی اور ان کا دوسرا قصور ان کا نام ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا مزید کہا :’’ایک مورخ اور علمی شخصیت کو تشدد بھڑکانے پر نہیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے پر جیل بھیجا گیا۔ ان کا جرم؟ طاقت سے سچ بولنے کی ہمت، بی جے پی کے فرقہ وارانہ بیانیے کو بے نقاب کرنا اور حب الوطنی کے کھوکھلے نعروں کی منافقت کو چیلنج کرنا۔ ‘‘کھیڑا نے حکومت کے دوہرے معیار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، ’’جب بی جے پی کے وزراء اور ایک ڈپٹی چیف منسٹر مسلح افواج کی توہین کرتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی لیکن ایک پروفیسر پر پُرامن اختلاف رائے کیلئے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے، اختلاف رائے کو جرم بنانےاور ریاستی مشینری کے ذریعے ایسے دانشوروں کو خاموش کرانے کی مہم ہے جو بی جے پی کی جھوٹی برہمی کو للکارتے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: فوج نے آپریشن سیندور پر نیا ویڈیو جاری کیا، کہا ’’ پاکستان کو سبق سکھا دیا ہے ‘‘
علی خان کی پوسٹ میں کچھ بھی توہین آمیز نہیں ہے: مہوا موئترا
ترنمول کانگریس کی رکنِ پارلیمنٹ مہوا موئترا نے گرفتاری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’میں پروفیسر محمودآباد کی گرفتاری پر شدید صدمے میں ہوں۔ ان کی فیس بک پوسٹ میں کچھ بھی توہین آمیز نہیں، بغاوت آمیز تو ہرگز نہیں۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’اگر ان کو مِکی ماؤس جیسے جھوٹے الزامات پر گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے، تو اس کی واحد وجہ ان کا نام ہے۔ ‘‘موئترا نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور انتظامیہ کی خاموشی پر بھی تنقید کی۔
پروفیسر علی خان کی گرفتاری مجھے احسان جعفری کی موت کی یاد دلاتی ہے: پروفیسر اپوروا نند
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور ادیب اپوروانند، جو ہریانہ خواتین کمیشن کی جانب سے پروفیسر کو طلب کئے جانے کے بعد سے ان کے حامی رہے ہیں، نے کہا، ’’ڈاکٹر علی خان کی گرفتاری ایک پیغام ہے: مسلمان اپنے خیالات کا اظہار تو کر سکتا ہے، لیکن آزادی کی توقع نہ رکھے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’یہ گرفتاری مجھے غیر شعوری طور پر احسان جعفری صاحب کی المناک موت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘(احسان جعفری، کانگریس کے سابق رکنِ پارلیمنٹ تھے جنہیں ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات کے دوران آر ایس ایس/بی جے پی کے ہجوم نے گلبرگ سوسائٹی میں قتل کر دیا تھا۔ )
یہ بھی پڑھئے: ۱۰؍ و یں جماعت کیلئے روبوٹکس کی تعلیم کو لازمی قرار دینے والی کیرالا پہلی ریاست
علی خان کو اشوکا یونیورسٹی کی فیکلٹی اسوسی ایشن کی حمایت
اشوکا یونیورسٹی کی فیکلٹی اسوسی ایشن نے پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری کو ’’بے بنیاد اور ناقابل قبول الزامات‘‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی۔ اسوسی ایشن نے انہیں یونیورسٹی کا قیمتی اثاثہ، طلبہ کا محبوب استاد اور ایک ذمہ دار شہری قرار دیا جو اپنی ساری توانائی ہم آہنگی اور اجتماعی بھلائی کیلئے وقف کرتا ہے۔ واضح رہے کہ علی خان محمودآباد نے نوٹس کو’’سنسرشپ اور ہراسانی کی نئی شکل‘‘ قرار دیا اور کہا کہ انہیں قانون پر مکمل اعتماد ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے آئینی و بنیادی حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔ ایک کھلے خط میں، جس پر۱۲۰۰؍سے زائد افراد جن میں ماہرین تعلیم، سیاستدان، سابق بیوروکریٹس اور دیگر نے دستخط کئے، علی خان محمودآباد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور ہریانہ خواتین کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے سمن واپس لے اورجان بوجھ کر ان کی کردار کشی پر معذرت کرے۔