وہ لڑکی جھگی میں اکیلی رہتی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے ماں باپ مرچکے ہیں، وہ لوگوں کے گھروں کام کرکے اپنا گزارا کرلیتی ہے۔ اس کانام فرزانہ ہے۔ اس کے بازو میں ایک جھگی خالی تھی۔ فرزانہ کے کہنے پر رحمت خاں بھی اس جھگی میں رہنے لگا۔
EPAPER
Updated: June 24, 2024, 11:57 AM IST | Ibrahim Yadgiri | Mumbai
وہ لڑکی جھگی میں اکیلی رہتی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے ماں باپ مرچکے ہیں، وہ لوگوں کے گھروں کام کرکے اپنا گزارا کرلیتی ہے۔ اس کانام فرزانہ ہے۔ اس کے بازو میں ایک جھگی خالی تھی۔ فرزانہ کے کہنے پر رحمت خاں بھی اس جھگی میں رہنے لگا۔
اس کا نام رحمت خاں تھا وہ ایک ایماندار نوجوان صوم وصلوٰۃ کا پابند تھا پچھلے۔ دودنوں سے وہ فاقے کررہا تھا۔ صحت اچھی تھی۔ پانی پیتا تو پیٹ میں ہلتا ہوا معلوم ہواتاتھوک نگلنا چاہتا تو حلق میں کانٹے چبھنے لگتے بار بار اس کا سر چکرا رہا تھا۔ وہ بے دم ہوکر کہیں گرنا چاہتا تھا لیکن اس کو گرنے کیلئے کسی پاک صاف جگہ کی ضرورت تھی لیکن وہ فٹ پاتھ پر بنی ہوئی ایک جھگی کے سامنے گر گیا۔ گرنے کے بعد بھی اس میں اتنی قوت برداشت تھی کہ وہ ہوش میں تھا۔ وہ کسی کے مکان کے دروازے کے بجائے دروازے نما پردے کو دیکھ رہا تھا۔ کئی سوالات اس کے ذہن میں چکرارہے تھے اور اس کا سر بھی چکرا رہا تھا۔ اچانک جھگی کا پردہ اٹھااورایک نوجوان لڑکی دروازہ سے نکلی اوراس کے چہرے پر جھک کر پوچھا۔
’’ تم کون ہو؟‘‘ رحمت خاں نے اپنے خشک ہونٹوں کو زبان سے بھگوتے ہوئے اپنا نام بتایا۔ اس لڑکی نے کہا ’’ تم حلیہ سے اچھے گھر کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘ یہ سن کر رحمت خاں کے بھوکے چہرے پر ایک دم رونق آگئی۔ اس کی زبان تالو سے چپک گئی تھی پھر بھی اس نے بڑی مشکل سے جواب دیا اورکہا میں ایک غریب آدمی ہوں۔ اپنےگاؤں سے روزگار کی تلاش میں آیا ہوں۔ ‘‘’’ تمہارے چہرہ سے اور تمہاری آواز کی نقاہت سے پتہ چل رہا ہے کہ تم یا تو بیمار ہویا بھوکے ہو۔ میں ابھی روٹی لے کرآتی ہوں۔ پہلے تم کھالو، کھڑے ہونے کے قابل بن جاؤ اور میری جھگی میں چلو کچھ دیر آرام کرلو۔ ‘‘ لڑکی کی اس غیر متوقع عنایت پر وہ مطمئن ہوگیا۔ جب وہ روٹی لے کر آئی تو اس نے پوچھا۔ ’’کیا تم نے کھانا کھایا‘‘؟ ’’ہاں ‘‘ ’’کیا تمہارے پڑوسی نے کھا لیا؟‘‘ یہ سوال سن کرلڑکی ذرا سی چکراگئی پھر اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں پڑوسیوں نے یقیناً کھالیا ہوگا۔ ‘‘
’’ تم یہ بات یقین سے نہیں کہہ رہی ہو جبکہ تمہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ تمہارا پڑوسی بھوکا نہیں ہے‘‘ ’’جی ہاں ! مجھے یقین ہے کہ ہماری جھگی کے آس پاس جو جھگیاں ہیں ان میں رہنے والے سب لوگ کھانا کھاچکے ہیں۔ ‘‘ لڑکی نے کہا اوراپنی جھگی میں چلی گئی اور جاتے جاتے رحمت خاں کو جھگی میں آنے کی دعوت دے گئی۔ رحمت خاں کھانا کھانے کے بعد بڑی مشکل سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ فاقہ کشی کا عادی تھا اس کے باوجود کبھی کبھی بھوک چٹکیاں لے لیتی تھی۔ وہ نقاہت سے جھکتا ہوا اور ڈگمگاتا ہوا جھگی میں داخل ہوا۔
وہ لڑکی جھگی میں اکیلی رہتی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے ماں باپ مرچکے ہیں، وہ لوگوں کے گھروں کام کرکے اپنا گزارا کرلیتی ہے۔ اس کانام فرزانہ ہے۔ اس کے بازو میں ایک جھگی خالی تھی۔ فرزانہ کے کہنے پر رحمت خاں بھی اس جھگی میں رہنے لگا۔ اسی دوران رحمت خان کو ایک کمپنی میں نوکری مل گئی۔ ایک دن وہ باتوں باتوں میں فرزانہ سے کہنے لگا۔ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھا کرو، سر سے آنچل نہیں ڈھلکنا چاہئے۔ اچھی بہو، بیٹیوں کو اچھے طور طریقے سیکھنے چاہئیں۔ ‘‘یہ کہہ کر جب وہ باہر کی طرف جانے لگتا تو ہزار بار سوچنے کے باوجود یہ بات اس کے سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ فرزانہ کو نظریں اٹھاکر تو دیکھتا نہیں ہے پھر وہ کیسے سمجھ جاتا ہے کہ اس کے سر سے آنچل ڈھلکا ہوا تھا۔ یہ بات کبھی اس کی سمجھ میں نہ آئی کہ انسان نہ دیکھنے کے باوجود غیر شعوری طورپر ممنوعہ چیزوں کو چور نظروں سےکیسے دیکھ لیتا ہے۔ وہ دن رات میں کئی بار توبہ کرتا مگریہ کمبخت جوانی توبہ سے نہیں مانتی۔ وہ اپنی چھوٹی سی جھگی میں پسینہ پسینہ ہوجاتا۔ یادالٰہی کے لئے مراقبے میں بیٹھ جاتا تو ذرا پرسکون ہونے کے بعد یہ بات اس کی سمجھ میں آتی کہ جھگی کا پردہ نما دروازہ بند کرنے سے وہ لڑکی اس کی دنیا سےچلی نہیں جائے گی۔ جھگی کا پردہ گر جائے گا تو آنکھیں کھلی رہیں گی۔ وہ آنکھیں بند کرے گا تو خیال کے دریچے کھل جائیں گے۔ خیال کو توبہ کے طمانچوں سے بھگائے گا تو آنکھوں سے نیند اڑجائے گی۔ جب وہ اس دنیا میں پیدا ہوچکا ہے اور گیہوں کا دانہ کھاچکا ہے تو جوانی کی اس چیختی ہوئی عمر میں خواہشات کی چڑیلیں ضروراس کا پیچھا کریں گی۔ ایسے وقت میں وہ سجدے میں گر کر رب کریم کے سامنے گڑگڑاتا تھا۔
’’میر ے معبود میں نے تیری عبادت کے سامنے زندگی کی تمام ضروریات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب تک میں کسی شریف زادی سے نکاح نہ پڑھ لوں اس وقت تک میرے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دے میرے معبود۔ ‘‘ دوسرے دن وہ لڑکی روٹیاں لے کر اس کی جھگی میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی رحمت خاں بوکھلا گیا۔ اس نے جلدی سے نظریں جھکا کر ہکلاتے ہوئے پوچھا: ’’ تم؟ ‘‘ ’’ آپ کیلئے روٹیاں لائی ہوں ‘‘ اس نے روٹیوں کی پلیٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ رحمت خاں کی نظریں فرزانہ سے ملیں تو گڑبڑاگئیں ۔ رحمت خاں نے اپنی آنکھوں کو اتنی سختی سے بھنچ لیا جیسے وہ ان آنکھوں کو اپنی کھوپڑی میں چھپا لینا چاہتا ہو۔ آنکھیں نہ چھپ سکیں بلکہ بند ہوتے ہی کچھ اور روشن ہوگئیں۔ دماغ کے وسیع آسمان پر غبارے ہی غبارے اُڑتے نظر آرہے تھے۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے نفس کو مارنے کی پوری کوشش کرے گا حالانکہ وہ شرعی پابندیوں میں رہ کر فرزانہ کو حاصل کرسکتا تھا لیکن حاصل کرنے تک نفس کو مارنا ضروری تھا۔ مگر اسے اپنا یہ فیصلہ پسند نہ آیا کیوں کہ و ہ بیوی بچوں کے جھمیلے سے دور رہنا چاہتا تھا۔ جب تک وہ تنہا تھا خود پرظلم کرکے زندگی کی ضرورتوں سے دور رہ سکتا تھا لیکن بیوی آتی تو وہ اپنے جہیز میں ضرورتوں کا ہجوم لے آتی۔ پھر بچوں کی تعداد بڑھنے لگتی، وہ اپنی تمام آرزؤں سے منہ موڑ سکتا تھا لیکن بیوی بچوں کے آئے دن کے مطالبات سے ہمیشہ آنکھیں بند کرکے نہیں رہ سکتا تھا۔ اس لئے وہ بیوی کی ضرورت سے بھی کترا رہا تھالیکن ایک دن جب وہ مسجد سے اپنی جھگی کی طرف آرہا تھا تو اس کی ملاقات ایک بزرگ شخص انور حسین سے ہوئی۔ دونوں راستے میں ایک ہوٹل کے قریب کھڑے تھے۔ ’’ چلئے چائے پیتے ہیں ‘‘ انور حسین نے کہا۔ ’’ جب کھانا کھاکر پیٹ بھر جاتا ہے تو پھر فضول خوراک کا عادی بننا کیا ضروری ہے‘‘؟رحمت خاں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ اس لئے ضروری ہے کہ یہ سب خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں ان سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘
’’ بے شک نہیں کرنا چاہئے اگریہ نعمتیں اپنی محنت سے حاصل ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں اللہ تعالیٰ دو وقت کی روٹیاں انعام میں دیتا ہے، اگر میں نماز کے علاوہ لوگوں کو کلام پاک کی تعلیم دینا شروع کردوں اور وہ معبود میرے انعام میں ایک گلاس دودھ یا چائے کا اضافہ کردے تو میں انکارنہیں کروں گا۔ اگر ابھی میں نے دودھ اور چائے جیسی غیر ضروری چیزوں کو منہ لگایا تو یہ رفتہ رفتہ میری ضرورت بن جائیں گی۔ یہیں سے یہ ضرورتیں انسان کو رشو ت اور حرام خوری کی طرف مائل کرتی ہیں۔ ’’آپ ایسی باتیں بتاتے ہیں جو اس زمانے میں قابل عمل نہیں ہوسکتیں، اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ‘‘ انور حسین نے کہا۔
’’ کبھی بھی زمانے میں ایمان نہیں بدل سکتا بشرطیکہ ہم چاہیں، آپ زمانے کے بدلنے کی بات کہتے ہیں حالانکہ زمانہ کبھی نہیں بدلتا انسان خود کو بدلتے بدلتے زمانے کو بدل دیتا ہے۔ پھر اسی زمانے کا شکوہ بھی کرتا ہے۔ انور حسین صاحب صرف اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
میں نے چالیس برس کی عمر میں آپ جیسا ایک ہی ایمان والا دیکھا ہے۔ ہم سب اپنی ضرورتوں میں اس طرح گھر چکے ہیں کہ زہد اور پرہیزگاری کے معاملے میں آپ کی طرح انتہا پسندنہیں بن سکتے۔ معاف کیجئے گا کیا آپ تنہا اس معاشرے کو بدل سکتے ہیں ؟ انور حسین نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ایک ایک قطرے سے سمندر بنتا ہے میں ایک قطرہ ہوں آپ بھی ایک قطرے کی طرح مجھ میں مل جایئے پھر دیکھئے کہ ایمان کا سمندر کیسے ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ ‘‘ انور حسین نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ اتنی اچھی باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ اس دنیا میں بالکل اکیلے ہیں ۔ اگر آپ بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزاریں اور پورے ایک کنبے کی پرورش کریں تب آپ کو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ اس دنیا میں رہ کر آئے دن کی ضرورتوں سے پیچھا نہیں چھوٹ سکتا تنہا تو جانور بھی جنگلوں میں زندگی گزارلیتے ہیں دنیا داری کرتے ہوئےدینداری محال ہے۔ ‘‘
’’ محال ہوسکتی ہے ناممکن نہیں، انسان چاہے تو سب کچھ کرسکتا ہے ‘‘ رحمت خان نے کہا۔ ’’ آپ زبانی دعویٰ نہ کریں ، کیا آپ شادی کرکے بیوی بچوں کےساتھ زندگی گزارتے ہوئےاپنے زہد اور پرہیزگاری کوعملی طورپر ثابت کرسکتے ہیں ؟‘‘ رحمت خاں ، انور حسین کا منہ تکنے لگا۔ اس نے کبھی شادی کے مسئلے پر سنجیدگی سے غورہی نہیں کیا تھا۔ انور حسین نے اسے الجھتے دیکھ کرکہا۔ ایمان والے ہمیشہ اپنے عمل سے دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں ، میں آپ کو عمل کی دعوت دیتا ہوں، آپ میرا مشورہ مان کرشادی کرلیں۔ رحمت خاں کے ذہن میں جیسے دھماکہ سا ہوا وہ بے چینی سے اِدھر اُدھر پہلو بدلنے لگا۔ اچانک ہی فرزانہ اسکی نگاہوں کے سامنے دلہن کے روپ میں آگئی۔ سرخ جوڑے اور سونے کے زیورات میں وہ ایسے جگمگا رہی تھی کہ اس پر نگاہیں نہیں ٹھہر رہی تھیں۔ وہ بظاہر خاموش تھا مگر اس کا دل سینے کی دیوار سے دیوانے کی طرح سرٹکرا رہا تھا۔ انور حسین کی باتیں سنکر رحمت خاں کا سرجھک گیا۔
پھر ایک دن وہ آیا۔ رحمت خاں کی جھگی گلاب کی خوشبوئوں سے مہک رہی تھی۔ لالٹین کی زرد روشنی میں فرزانہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔ قریب میں دودھ کا گلاس اورمٹھائی کی پلیٹ رکھی ہوئی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلی بار یہ رات آئی تھی اوراس کے ساتھ ہی غیرضروری دودھ اور مٹھائی آگئی تھی۔ صرف ایک رات غیرضروری خوراک استعمال کرلینے سے ایمان میں فرق نہیں پڑے گا۔ اس سہانی رات کے بعد کل ان کی زندگی میں نئی صبح کا سورج نکلے گا۔