خانوادہ ٔسیماب کے چشم و چراغ مرحوم اعجاز صدیقی کے فرزند اور ماہنامہ شاعر کے مدیر ناظر نعمان صدیقی طویل علالت کے بعد جمعہ کی صبح انتقال کرگئے۔ ۲۰۲۰ء میں انہوں نے اپنی یادداشت قلمبند کی تھی جو ۶؍قسطوں میں انقلاب کے اسی صفحے پر شائع ہوئی تھی۔ بطور خراجِ عقیدت ملاحظہ کیجئے پہلی قسط کا وہ حصہ جو انہوں نے خود اپنے بارے میں لکھا تھا:
ناظر نعمان صدیقی نے جو ’’مانی بھائی‘‘ سے جانے جاتے تھے، تقریباً ۶۰؍ برسوں تک شاعر کے لئے اپنی خدمات انجام دیں۔ تصویر : آئی این این
میں نہ تو ادیب ہوں نہ شاعر، اور نہ ہی کوئی مشہور شخصیت۔ میں تو ۵۰؍ سال سے زائد عرصے سے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ میں مزدوری کررہا ہوں۔ جس طرح کوئی مزدور مٹی گارے سے خوبصورت عمارت تعمیر کرتا ہے اور جب اسے دیکھتا ہے تو خوش ہو لیتا ہے اسی طرح میں ’’شاعر‘‘ کے شمارے دیکھ کر خوش ہو لیتا ہوں۔ یہ نا پختہ تحریر رقم کرنے کی نوبت یوں پیش آئی کہ ’’ شاعر‘‘ کے بیشتر قلم کار، قارئین اور بہی خواہ یہ جاننے کی خواہش کرتے ہیں کہ میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ یوں اس کچی پکی تحریر کے ذریعہ آپ سے مخاطب ہوں۔
میں اعجاز صدیقی خاندان کا منجھلا لڑکا ہوں۔ ماضی کی وہ یادیں جو ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں اُنہیں سپرد تحریر کررہا ہوں۔ عمر ۶؍ یا ۷ ؍ سال رہی ہوگی۔ آگرہ میں چھوٹے غالہ پورہ میں ’’ سیماب منزل‘‘ ایک طویل و عریض حویلی تھی جو آج جوتوں کا کارخانہ بن گیا ہے۔ حویلی میں داخل ہونے کیلئے بڑی سے دیوڑھی، دیوڑھی سے پہلے بڑا سا دروازہ، پھر حویلی میں داخل ہونے کا دوسرا دروازہ، بڑا سا دالان، دالان سے ملحق قطار در قطار کمرے، اوپری منزل میں بھی اسی طرح کے کمرے، بائیں ہاتھ کی طرف بڑا سا باورچی خانہ۔ باورچی خانے سے لگا ہوا ایک خصوصی کمرہ جس کے دو دروازے تھے، ایک حویلی میں کھلتا تھا دوسرا سڑک کی طرف۔ یہ دادا سیماب اکبر آبادی کا خصوصی کمرہ تھا۔ مہمانوں کیلئے سڑک کا دروازہ کھول دیا جاتا تھا گھر کے افراد کے لئے حویلی کا اندرونی دروازہ۔ حویلی میں تایا منظر صدیقی، چچا سجاد حسین، مظہر حسین اور والد محترم اعجاز صدیقی کا خاندان رہائش پزیر تھا۔ حویلی میں بڑی چہل پہل رہتی تھی۔ دادا جان کے چھوٹے بھائی شیخ صادق حسین صبح صبح تلاوت کلام پاک کے ذریعہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔
دادا جان سیماب اکبرآبادی زیادہ تر اپنے مخصوص کمرے میں ہی رہتے تھے۔ اسی میں ملاقاتیوں اور مہمانوں کی آمد ہوتی تھی۔ مہمان نوازی کیلئے بغل ہی میں باورچی خانہ تھا۔ گھریلو خادم علاؤ الدین دوڑ دوڑ کر مہمانوں کی خاطر مدارات کرتا۔ گھر کی خواتین اور دادی جھلاّ جاتیں کیونکہ سیماب اکبر آبادی کی مہمان نوازی مشہور تھی، بیرون شہر سے آنے والے بعض مداح اور شاگرد مع بوریا بستر بھی آجاتے تھے، ان کے قیام کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ خاتون شاگردوں کو حویلی کے اندرونی حصے میں جانے اور خواتین سے ملنے کی اجازت تھی۔ جب یہ خواتین واپسی کیلئے رخت سفر باندھتیں تو اُنہیں تحفے تحائف دیئے جاتے، خاص کر کپڑے لتے، اور آمدورفت کا کرایہ۔
حویلی میں صبح کا معمول تھا کہ تمام چچا اور والد صاحب دادا کی خدمت میں حاضری دیتے اور سلام پیش کرتے۔ اس وقت سر پر ٹوپی کا ہونا لازمی ہوتا۔ اگر کوئی ٹوپی نہیں پہنا ہوا ہوتا تو سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ دادا جان سب کو ہدایتیں دیتے۔ بہویں گھونگھٹ نکال کر سلام پیش کرتیں۔ ان سے ان کی ضرورتیں پوچھتے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے اور بعد ناشتہ بگھی پر سوار ہوکر ’’شاعر‘‘ کے دفتر روانہ ہوجاتے۔
سیماب منزل میں اس کچے ذہن نے بہت کچھ دیکھا۔ چوڑی والیاں ٹوکروں میں چوڑیاں لئے چلی آرہی ہیں۔ کپڑے والے تھان کے تھان حویلی میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ خواتین کی پسند کے بعد بقیہ کپڑے شام میں دکاندار واپس لے جاتے تھے۔ سیماب خاندان کا محلہ میں بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ دادا کے شاگرد ہندستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ بعض شاگرد موسمی پھل از راہِ محبت اس کثرت سے بھیج دیتے تھے کہ ان کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا چنانچہ محلے میں منادی کرا دی جاتی کہ سیماب منزل میں پھل فروٹ کی تقسیم ہورہی ہے۔ کچھ گھنٹوں میں ہی پھل تقسیم ہوجاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ٹرک بھر کر ٹونک سے کسی شاگرد نے خربوزے بوروں میں بھر کر بھجوائے تھے۔ دادی نے بورے ڈیوڑھی میں خالی کروائے اور حسب معمول منادی کروادی، چند گھنٹوں میں یہ بورے خالی ہوگئے۔ ٹونک کے خربوزے بہت میٹھے اور لذیذ ہوتے تھے۔ اب یہ پھل ٹونک میں نا پید ہے۔
میرے بچپن کے اِس دور میں شادی بیاہ میں گھر کی خواتین سائیکل رکشہ میں جاتیں۔ رکشہ والا حویلی کے دروازے سے دور کھڑا ہوجاتا۔ رکشہ پر سفید چادر تان دی جاتی۔ جس گھر میں شادی ہوتی رکشہ والا وہاں پہنچ کر آواز لگاتا ’’سیماب صاحب کے گھر کی سواری ہے۔ ‘‘ گھر سے باہر ایک مخصوص شخص کھڑا ہوتا جو رکشہ والے کو کرایہ ادا کردیا کرتا تھا، پتہ نہیں یہ چلن آج بھی ہے کہ نہیں۔ تایا منظر صدیقی کٹر کانگریسی تھے اور ایک ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اخبار ’’ ایشیا ‘‘ نکالتے تھے جس میں فلمی صفحہ یا فلمی تبصرے بھی شائع ہوتے تھے، اسلئے سنیما کے پاس بھی ملتے تھے۔ گھر کی خواتین سنیما دیکھنے جاتیں تو ہم بھی ساتھ ہو لیتے، اس زمانے میں بچوں کا ٹکٹ نہیں لگتا تھا۔ سنیما گھر کے آخری حصے میں کچھ اونچائی پر نشستیں ہوتی تھیں، تین چار قطاروں کے بعد کالے پردے ٹنگے ہوئے ہوتے تھے۔ فلم شروع ہوتے ہی یہ پردے ہٹا دیئے جاتے تھے۔ یہ اہتمام اور نشستیں خواتین کیلئے مختص تھیں۔ یہ منظر آج بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا مگر حقیقی دُنیا میں پردہ کا یہ اہتمام اب خواب و خیال معلوم ہوتا ہے۔