Inquilab Logo

نضال

Updated: February 05, 2024, 2:13 PM IST | Azmat Iqbal | Malegaon

’’الام‘‘، اس کی چیخ اس کے وجود کی طرح دب کر رہ گئی۔ وہ کمر تک درگور تھا۔ داہنا  ہاتھ کسی پتھر تلے دبا ہوا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے دبے ہاتھ کو کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی۔

 Nidhal. Photo: INN
نضال۔ تصویر : آئی این این

’’الام‘‘، اس کی چیخ اس کے وجود کی طرح دب کر رہ گئی۔ وہ کمر تک درگور تھا۔ داہنا  ہاتھ کسی پتھر تلے دبا ہوا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے دبے ہاتھ کو کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی۔ ’’اللہ اکبر‘‘اس کی آواز میں کرب ہے۔ اسے یاد آیا ماں کہا کرتی تھی درد بھری صدا ساتوں آسمان کو چیر کر اللہ تک پہنچتی ہے۔ میں کہاں ہوں؟ ماں، بابا اور فاطمہ کہاں ہے؟ 
 گھپ اندھیرے میں اس نے پلکوں کو کئی بار کھولا بند کیا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ کس مصیبت کا شکار ہو گیا ہے؟ اسے اپنی ٹیچر یاد آئی۔ روزانہ صبح اسکول میں دعا پڑھایا کرتیں۔ وہ اپنے جسم میں بچی کچی توانائی صرف کر دعا پڑھنے لگا۔ مصیبت میں کسے پکا را جائے؟ اللہ اللہ اللہ، مصیبت میں کون کام آئے؟، اللہ اللہ اللہ، طوفاں میں کسے پکارا جائے؟، اللہ اللہ اللہ، طوفاں سے کشتی کون بچائے؟، اللہ اللہ اللہ.... زخمی، لاچار، کمزور الفاظ کو اندھیرا اپنے میں سمو لے رہا تھا۔ زخمی کپکپاتے لبوں سے نحیف آواز میں وہ اپنے مسیحا کو پکارنے لگا۔’’یا اللہ یااللہ ‘‘،’’اللہ  اکبر اللہ اکبر۔‘‘ ہاتھ سے چہرے پر لگی مٹی ہٹانے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے پر مٹی کی پرت جم گئی ہے۔ زخم سے  رستا خون مٹی کو اپنے میں جذب کر چکا ہے۔ اس کے جسم کا نصف حصہ ملبے میں دبا ہوا ہے اور بقیہ حصہ بری طرح زخمی لیکن اسے درد کا احساس نہیں ہو رہا۔ شاید درد اپنی حد سے گزر چکا ہو۔ 
کچھ ہی دیر پہلے اسے ہوش آیا۔ اندھیرے میں اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کچھ شناسا چہرے، اپنی ماں، باپ اور فاطمہ سلسلے وار اس کے معصوم ذہن سے منعکس ہو کر اس کے سامنے فلمی منظر کی طرح گزرتے جا رہے ہیں۔ ماں اکثر کہا کرتی نیک لوگوں کو دوسری دنیا میں جنت ملتی ہے۔ اور جنت میں تمام خواہشات و تمنائیں پلک جھپکتے ہی پوری ہو جایا کرتی ہیں۔ اس نے ماں سے کہا تھا جب وہ جنت میں جائے گا تو اپنے لئے کمپیوٹر گیم، ڈھیر سارے چاکلیٹ اور مٹھائیاں طلب کرے گا۔ ساتھ ہی وہ پرندوں کی طرح آسمان میں پروازکرے گا۔ اسے یاد آیا ایک بار اسے مکتب میں قبر کے عذاب کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ قبر، جہاں انسان کی روح آسمان میں پرواز کر جانے کے بعد اس کے مردہ جسم کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ جب اس کے دادا کا مردہ  جسم اسپتال سے گھر لایا گیا اور پھر جبالہ شہر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ وہ اپنے باپ کی انگلی تھامے تدفین کے پورے عمل کو دیکھتا رہا۔ یکلخت اس کے ذہن میں خیال آیا جس نے اس کے زخمی ادھ مرے وجود کو جھنجھوڑ دیا۔ ’’کیا میں بھی قبر میں دفن کردیا گیا ہوں؟، مگر میری موت کب ہوئی؟، میں تو بیمار بھی نہیں ہوا؟ اور نہ ہی بوڑھا ؟‘‘چند روز پہلے ہی اس کی چھٹی سالگرہ تھی جس میں پڑوس کے بچوں کو بلا کر ماں نے لذیذ  کھانوںسے سب بچوں کی ضیافت کی تھی۔ اس نے اپنے ذہن پر مزید زور دیا۔ وہ اس حالت میں کیونکر ہے؟
اسے یاد آیا ایک یا دو روز قبل وہ اسکول نہیں گیاتھا۔ ابا نے بتایا کچھ دنوں کے لئے اسکول کی چھٹی رہےگی۔ ابا بھی کام پر نہیں گئے۔ گھر پر بیٹھے خبریں دیکھتے رہے۔ ماں بھی کچن میں کھانا بناتے وقت اور دوسرے کام کرتے ہوئے بار بار ٹی وی کے سامنے آبیٹھتی۔ دونوں پتہ نہیں کس بات کو لے کر بڑے پریشان نظر آر ہے تھے۔ اپنے شہر جبالہ کو چھوڑ کسی دوسرے شہر میں جانے کی بات بھی چل رہی تھی۔ دونوں میں سے کوئی ایک اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ فاطمہ کے ساتھ کھیلتے ہوئے کبھی کبھی اماں ابا کی باتوں پر اس کا دھیان  چلا جاتا تھا۔  اور پھر ایک رات زور زور کے دھماکوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے دو تین دھماکوں کی آواز کہیں دور سنائی دی اور پھر کہیں قریب دھماکہ ہوا۔ وہ بستر سے اٹھ بیٹھا۔ دھماکوں کی آواز نے اسے سماعت سے محروم کردیا۔ بس اسے اتنا یاد ہے کہ اس کی ماں فاطمہ کو گود میں اٹھائے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہاتھوں سے اسے اپنے طرف دوڑ کر آنے کا اشارہ کر رہی تھی۔اور پھر اچانک اس کی سماعت واپس  لوٹی ۔ اس نے ایک بار پھر شدید دھماکے کی آواز سنی اور پھر....  اس کے آگے کیا ہوا؟ اسے کچھ یاد نہیں۔ 
تو کیا وہ مر چکا ہے؟ اور اسے قبر میں دفنایا جا چکا ہے؟ ماں نے بتایا تھا، نیک لوگ قبر کی کھڑکی سے جنت کا نظارہ کرینگے۔ اور پھر قیامت کے بعد جنت ان کا ٹھکانہ ہوگی۔ مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ بس گھپ اندھیرا۔ تو کیا میرا شمار عاصی بندوں میں ہوگا؟ مگر میں نے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا؟ اماں ،ابا اور اپنے ٹیچر کی بھی سبھی باتیں مانیں۔ نماز پڑھنے کے لئے ابا کے ساتھ مسجد بھی جایا کرتا تھا۔ جب اسے جہنم اور قبر کے عذاب کا علم ہوا اسی وقت اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی تھی۔ ایک مرتبہ ریفریجریٹر سے سیب کا جوس نکالنے کی کوشش میں جوس کا گلاس گر پڑا۔ ماں نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا تھا۔ ’’نضال! بتاؤ جوس کیسے گر پڑا؟‘‘ اور اس نے فاطمہ کی جانب انگلی سے اشارہ کردیا تھا۔ امی سے فاطمہ کو بہت ڈانٹ پڑی تھی۔ اور دوسرا گناہ اس سے اس وقت ہوا جب گھر کے برآمدے میں کھیلتے ہوئے پڑوسی کی بلی کو اس نے پتھر اچھال کر مارا تھا۔
 کیا اللہ نے اس کی توبہ قبول نہیں کی تھی؟ ’’الام‘‘، اس بار درد بھری چیخ سرگوشی میں سمٹ گئی۔ اس کا گلا اور زبان خشک ہوچکے تھے۔ جہنم کا خوف اس پر حاوی ہونے لگا۔ اب کسی بھی وقت اس پر عذاب آنا شروع ہوجائے گا۔ وہ گنہگار بندوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ کا عذاب نازل ہو رہا ہوگا۔ سب چیخ رہے ہوں گے۔ اللہ سے پناہ مانگ رہے ہوں گے۔ اس اندھیری قبر میں اسے بچھوئوں کے زہریلے ڈنک سہنے ہونگے۔ کسی بھی وقت زہریلے سانپ آکر اس پر ٹوٹ پڑں گے یا پھر بڑا سا اژدہا آکر اس کے جسم سے لپٹ جائے گا۔اس کی سانسیں بے ترتیب ہوگئیں۔ آنکھیں بند ہوتی گئیں اور وہ  دوبارہ بے ہوش ہو گیا۔ روتے چیختے اور آہ و زاری کرتے مرد، عورتیں و بچوں کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑیں۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ وہ سرخ، گیلے اور گرم فرش پر پڑا ہوا تھا۔ ادھ کھلی آنکھوں سے اس نے دیکھا۔ اس کے دائیں بائیں کئی انسانی جسم کچھ تڑپتے، کچھ درد سے چیختے، کچھ کراہتے اور کچھ بے جان پڑے تھے۔ 
اس کی دائیں جانب  ایک بچہ جس کا بایاں ہاتھ نہیں تھا۔ بس کاندھے کے پاس گوشت کا لتھڑا نظر آرہا تھا۔ بائیں جانب اس کے ابا سے مشابہہ ایک شخص بے حس پڑا ہواتھا۔ جس کے سر کے پچھلے حصے سے خون  بہہ کر فرش پر پھیلتا جا رہا تھا۔ اس شخص کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں۔ مگر پلکیں جھپکنا بند ہوگئیں تھیں۔ اسے عجب قسم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں سرخی چھانے لگی۔ پورا منظر سرخ ہوگیا۔ اسے یقین ہو گیا۔ اس کیلئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسے جہنم رسید کردیا گیا ہے۔ 
 وہ  پوری شدت سے چیخا ،’’اللہ اکبر اللہ اکبر،  اللہ یغفرلی۔‘‘ نرس اس کی جانب دوڑی۔ اس کے رخسار اور پھر گردن پر ہاتھ رکھ کر نبض ٹٹولی۔ نضال اپنے سفر پر نکل چکا تھا۔
(نضال :اسم مذکر، معنی :جنت کے گھوڑے پر سوار ہونے والا۔ فلسطین میں یہ نام عام ہے۔)  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK