• Tue, 23 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مجھے کتابوں سے بچائو !! (انشائیہ)

Updated: September 23, 2025, 4:55 PM IST | Muhammad Asadullah | Nagpur

دنیا میں موجود بے شمار آ فتوں ،بلائوں اور مصیبتوں میں کچھ زمینی ہیں اور کچھ آ سمانی۔ ان سب سے بچائو کی خاطردعائیں مانگی جاتی ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 دنیا میں موجود بے شمار آ فتوں ، بلائوں اور مصیبتوں میں کچھ زمینی ہیں اور کچھ آ سمانی۔ ان سب سے بچائو کی خاطردعائیں مانگی جاتی ہیں ۔ بلائوں کی اس قطار میں طوفان، زلزلے اور فسادات ہیں۔ مصائب کی اس فہرست میں یقینا کہیں بھی کتابوں کا ذکرنہیں ہے۔ پھر ہم کیوں کتابوں سے پناہ مانگ رہے ہیں ؟ اگر آ پ کتابوں کی اشاعت اور ان کی موجودہ صورتِ حال سے واقف ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آسمانی کتابوں کے منکرین کے علاوہ زمینی کتابوں سے بیزار لوگوں کا بھی ایک بڑا طبقہ اس روئے زمین پرموجود ہے۔ یقیناً کتابیں علم کا خزانہ ہیں اور نعمت کہلاتی ہیں ، تاہم وقت اورانسان کا رنگ بدلتے اور رحمتوں کو زحمتوں میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یہی کچھ فی زمانہ کتابوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا اردو کے ایک نامور محقق کا ایک بیان ہم نے کسی رسالے میں پڑھا (پھر چند دیگر ادیبوں نے بھی اس بیان کو دہرادیا )بہر حال اس محقق نے اپنے مداحوں اور دوستوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ انہیں تحفتاً اپنی کتابیں ہر گزنہ بھجوائیں کیونکہ اب ان کے گھر میں کتابیں رکھنے کے لئے جگہ نہیں ہے۔ یہ پڑھ کر اس صاحبِ علم کے بارے میں ہمارے نیک خیالات اور خوش فہمیوں کے سارے قلعے مسمار ہوگئے بلکہ غصّہ بھی آ یا کہ جس زبان نے انھیں یہ مرتبہ عطا کیا اس کی کتابوں کی ایسی تحقیر! کل جس صورتِ حال کو ہم قابلِ نفریں سمجھتے تھے آ ج وقت نے ہمیں ان ہی حالات میں لا کھڑا کر دیا۔ آ خراس محقق کی سوچ نے ہمیں اپنا ہم خیال بنا ہی لیا۔ اب ہم کتابوں سے اسی طرح بیزار ہیں جیسے کوئی مفلس کثرتِ اولاد سے پریشان ہوجاتا ہے اور ہم اس پریشانی کی واحد مثال نہیں ہیں ، بے شمار مل جائیں گے، خاص طور پر ادیب اور شاعر۔ 
 کتابیں ادیبوں کو جنم دیتی ہیں اور پھر وہی ادیب ان کتابوں کے دنیا میں آ نے کا سبب بنتے ہیں اسی لیے تخلیقا ت کو اولاد ِ معنوی کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اب اکثر تخلیقات میں معنویت مفقود اور اولادیت باقی رہ گئی ہے۔ کبھی یہی معنویت کتابوں کو گھر میں سینت سنبھال کررکھنے کا جواز تھی اب کتابوں کا پھیلتا ہوا مادی وجودانھیں گھر سے چلتا کرنے کا سبب ہے۔ اب اکثر لوگ اپنے گھروں میں کتابیں اس لیے سجاتے ہیں تاکہ مہذب اور تعلیم یافتہ کہلائیں ۔ کتابوں ہی سے گزر کر آ دمی ڈگریوں تک پہنچتا ہے۔ ہمارے ایک شناسا اپنے آ پ کو ادیب اور محقق ثابت کر نے کے لئے کتابوں کو محبوب کی زلفوں کی طرح گھر بھر میں بکھرا کر رکھتے ہیں۔ بھلا ہو اردو اکادمیوں کا اور سر کاری اداروں کا جن کی فیاضیوں کے طفیل ہماری کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر آ نے لگیں تو ایسا لگا ہمارا غریب خانہ، ہمارا گھر نہیں رہا کتاب گھر بن گیا ہے۔ شروع شروع میں ہمیں یہ شکایت رہی کہ کتابیں تو چھپ گئیں مگر ادبی دنیا نے انھیں نظر بھر کر دیکھا تک نہیں مگر جلد ہی نظر انداز کئے جانے کا یہ گلہ جاتا رہا کہ اب کتابیں گھر والوں کی نظر میں آ نے لگی تھیں بلکہ کھٹکنے لگی تھیں ۔ مذکورہ تصانیف دوائے دل تو تھی نہیں کہ کاروبار آ گے بڑھتا، شومی ِ قسمت سے سر مہ مفت نظر ثابت ہوئیں ۔ ہم نے کسی سے ان کے فروخت نہ ہونے کا ذکر کیا تو کہنے لگے: جناب ان کا ولیمہ کر وائیے، دھوم دھام سے رسمِ اجراء کا جشن منا ئیے۔ ایک ہی کتاب کا کئی شہروں میں، ’ مکرر ارشاد ہے‘ کہہ کر اجرا دہرائیے۔ شہر کے ادب نواز موٹے مرغوں کو پکڑئیے۔ کتاب بیچنے کے کئی شریفانہ طریقے ہیں ۔ صرف اچھا ادیب ہونا کافی نہیں ہے، اسے اچھا بز نس مین ہونا چاہئے ورنہ ایسا آ دمی وقت گزرنے پر ادیب بھی نہیں رہ پاتا، آ ثارِ قدیمہ بن جاتا ہے۔ جناب ِ عالی آ پ تو کتاب چھپواکر اپنے منہ میں دہی جما کر بیٹھ گئے۔ ادب کے کاروبار میں ایسے رنگ نہیں چڑھتا’ لو دھی لودھی ‘ کہہ کر پھیری والے کی طرح اسے بیچنا پڑتا ہے۔ 
 بد قسمتی سے ایک مرتبہ ہماری جو شامت آ ئی تو چند دوستوں کی کتابوں پر تبصرہ کر بیٹھے۔ پھر کیا تھا، کئی قلمکار اپنی کتابیں لے لے کر پیچھے پڑ گئے کہ جناب!کچھ لکھ دیجئے، ایک مقامی رسالے کے ایڈیٹر کو خبر ہوئی تو ہمیں آپکڑا کہ کتابیں آ کر پڑی ہیں ، کوئی مبصر نہیں مل رہا ہے یہ کہہ کر یہ ذمہ داری اور کتابوں کا ایک وزن داربنڈل ہمیں تھمادیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جن ادیبوں کی وہ کتابیں تھیں انھیں کسی طرح پتہ چل گیا، انھوں نے اپنی اگلی پچھلی سب کتابیں ہمیں بھجوادیں کہ ان کی روشنی میں تبصرہ لکھو، بلکہ ہو سکے تو ان سب کتابوں پر بھی لکھو۔ ہم انھیں کیسے سمجھاتے کہ ہمارا غریب خانہ پہلے ہی تجلی زار بنا ہوا ہے، ہماری اپنی دو درجن کتابیں ، شوقِ مطالعہ کے پیروں سے چل کر آ ئی ہوئی کتابیں ، کسی گھر میں پڑھنے والے کے انتقال کے بعد دھرتی کا بوجھ بنی ہوئی کتابیں ، کسی کا پتہ نہ ملنے پر ہمیں صاحبِ ذوق سمجھ کر ہمارے گھر میں پوسٹ مین کی ٹپکائی ہوئی کتابیں ، صاحبِ کتاب دوستوں کی محبتوں اور خلوص کے نذرانوں کے بڑے بڑے بنڈل، غرض سارا گھر کتابوں سے بھر گیا۔ گھر والے اس طوفانِ ادب سے گھبراگئے۔ 
 مکان تعمیر کر تے وقت گھر والوں کی پسند، سہولت ا ور ہرضرورت کا خیال رکھاگیا، یہ دھیان ہی نہ آ یا کہ اس میں میرے خاندان کے جولوگ آ کر رہیں گے، ان میں ایک ایسا شخص بھی ہوگا جو ادیب ہے، کتابوں کا دیوانہ ہے۔ میرے اندر برسوں سے رہنے بسنے والے اس شخص کو میں نے بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ عام طور پر ہمارے گھروں میں کتابوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہم میں سے اکثر کے لیے ہمارا گھر در اصل ہماری زندگی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری زندگی ہی کتابوں سے خالی ہے۔ عام آ دمی کا کتابوں سے کبھی نہ کبھی ایک تعلق ضرورہوا کرتا ہے خواہ درسی کتابوں کی صورت میں ہو یا بینک کے پاس بک کی شکل میں ۔ ہم ٹھہرے ادیب۔ کتابیں ہمارا اوڑھنا بچھونا ہیں ۔ (ہم انھیں بچھاتے ہیں اور لوگ اوڑھتے ہیں، اوڑھی ہوئی چیزوں کو اتار پھینکنا کس قدر آسان ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ) در اصل مکان کی تعمیر کے وقت یہ خیال نہ آ یا کہ زندگی کے اس سفر میں کتابیں بھی ہماری ہم سفر ہیں اور ضروریاتِ زندگی کا حصہ ہیں۔ ہمارے گھروں میں مرغیوں، کبوتروں ، بکریوں ، کتوں اور دیگر جانوروں کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے۔ کتابوں کے لیے ایک کمرہ بنانے کا خیال تک نہیں آ تا، شاید اس لیے کہ کتابیں بے جان چیزیں ہیں ۔ وہ تو چھپکلیوں ، مکڑیوں ، مچھروں، کاکروچ اور چیونٹیوں کی طرح گھر کے کسی کونے میں رہ سکتی ہیں ۔ 
 وقت کے ساتھ جب میرے گھر میں اس کے مکین پھولنے پھلنے لگے تومکان دن بہ دن اس قدر سکڑتا ہوا محسوس ہونے لگا کہ اس کا ’گھر پن‘خطرے میں گھر گیا۔ تب ہم سب نے کچھ کر نے کی ٹھانی۔ کسی نہ کسی چیز کو تو دیس نکالا دینا ہی تھا، نظر ِانتخاب سب سے پہلے کتابوں پر پڑی، بلکہ لگتا ہے وہ پہلے ہی سے نظر میں تھیں بس کھٹکنے کا عمل ذرا دیر میں شروع ہوا۔ اب جو ان کتابوں پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ کتابیں پورے گھر میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں جیسے کسی ملک میں بے کاری اور بے روز گاری پھیل جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھاکہ ان کتابوں کا اپنا کوئی ملک یعنی کمرہ نہیں تھاجہاں کی شہریت انھیں حاصل ہوتی۔ وہ مختلف کمروں مثلاً ڈرائنگ روم، بیڈ روم، اسٹور روم، حتیٰ کہ کچن ٹیبل پر بھی پڑی ہوئی پائی جاتی تھیں۔ جہاں پڑھا وہیں چھوڑ دیاگیا۔

ہماری بیگم کے لیے کتاب سوتن سے کم نہ تھی ۔گھر میں رہنے والے دوسرے لوگوں کے ٹھکانوں پر بھی کتابوں نے غاصبانہ قبضہ جما رکھاتھا۔ میرا معمول تھا کہ پڑھی ہوئی یا فضول کتابوں کو ہر دوچار مہینوں کے بعد چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کی طرح پکڑ پکڑ کر شہر کی لائبریری کے حوالے کر آتا۔ایک سست قسم کے لائبریرین نے ایک مرتبہ مجھے سخت سست بھی کہہ ڈالا۔ اس کا یہ جملہ اب تک یاد ہے کہ ’جناب ! لوگ لائبریری میں کتابیں لینے آ تے ہیں اور آ پ کتابیں دینے۔ ‘سیکڑوں کتابوں سے گھرا ہوا وہ آ دمی میری کتابوں سے اس لیے بیزار تھا کہ ر جسٹر میں کتابوں کا اندراج کر نا اس کی مجبوری تھی۔ کتابوں کو لائبریریوں اور ضرورت مند اور غیر ضرورتمند دوستوں کے حوالے کر کے ہم اکثر خود کو احساس ِ جرم کا شکار پاتے ہیں۔
یہ احساس ایسا ہی ہے جو ان باضمیر یا سست ضمیر لوگوں کو ہوا کرتا ہے جو اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آ تے ہیں۔کبھی کتابیں ہماری سوجھ بوجھ اور دانشمندی کی مائی باپ تھیں اب ان کتابوں کا کوئی مائی باپ نہیں ہے۔ کتابوں کا یہ حق ہے کہ ان کا مطالعہ کیا جائے ۔ یہ حق مار کر بیٹھے ہیں اس لیے ہم ان کے مجرم ہیں۔ تاہم معاملہ یہ ہے کہ الٹا چو ر کوتوال کو ڈانٹے۔ کتابیں کسی کی ذاتی ملکیت ہو یا عوامی لائبریری کی؛میں جب بھی کتابوں کو الماریوں میں سجا ہوا دیکھتا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے وہاں کتابیں نہیں ہیں، جیل کے اندر مجرم قطار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ 
نہ صرف عام لوگ بلکہ بعض لکھنے والے بھی مطالعے کو کارِ فضول سمجھ کر اس سے جان چراتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوران گفتگو ایک نوخیز ، ابھرتے ہوئے، بلکہ اچھلتے ہوئے ادیب نے اپنی گردن ٹیڑھی کر کے ہمیں یہ بتا یا کہ وہ پڑھتے نہیں صرف لکھتے ہیں۔ ہم نے وجہ جاننے کی کو شش کی تو فرمانے لگے ،دوسروں کی کتابیں پڑھنے سے ہمار ا رائٹنگ اسٹائیل خراب ہوتا ہے۔ ہم نے کہا:  بڑے ادیبوں کی تصانیف کے مطالعے میں تو یہ خطرہ نہیںہے ۔کہنے لگے ایک دو مرتبہ کوشش کی تھی مگر انھیں پڑھ کر میرے اندر احساسِ کمتری پیدا ہونا شروع ہوگیاتھا،بھلا ایک رائٹر میں اعتماد کی کمی پیدا ہوجائے تو وہ کیسے لکھے گا! یہ تو ایک ادیب کی رائے تھی ،کسی حد تک صحیح بھی تھی کہ گھٹیا کتابیں یقیناً ہمارے ذوق کو متاثر کرتی ہیں ۔عام طور پرہم کتابیں پڑھتے ہیں نہ اوروں کو پڑھنے دیتے ہیں کہ اچھی کتابیں ہمیںجینے کی جو راہ بتاتی ہیں،ہم اس پر چلنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم نے اپنے الگ راستے بنا رکھے ہیں، پھر ان پر کون چلے گا۔ 
میں جب کبھی الماریوں کے شیشوں سے جھانکتی ہوئی عمدہ اور عظیم کتابوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں اس قید خانے سے باہر نکالو ،ہمیں بھی اپنی زندگی کے سفر میں شریک کرلو اور کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ لوگوں کو ان کتابوں کی جگہ قید کر دوں اوران کتابوں کو وہاں سے آزاد کر کے سماج، سیاست ،ادب ،مذہب اور تعلیم و تدریس وغیرہ کے سب میدان ان اچھی اچھی کتابوں کے حوالے کر دوں کہ لو ، زندگی کے سارے شعبے اب تم سنبھالو! ہم نے تو ہر جگہ کھیل بگاڑنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK