ادب برائے زندگی کے روایتی ترجمان زندگی کے عظیم الشان انتشار اور اس کی بے ربطی کو نہیں سمجھتے اور اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ زندگی اپنی تمام وسعت کے باوجود ادیب کے ذہن میں سما سکتی ہے۔
EPAPER
Updated: May 18, 2025, 12:00 PM IST | Shamsur Rahman Faruqi | Mumbai
ادب برائے زندگی کے روایتی ترجمان زندگی کے عظیم الشان انتشار اور اس کی بے ربطی کو نہیں سمجھتے اور اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ زندگی اپنی تمام وسعت کے باوجود ادیب کے ذہن میں سما سکتی ہے۔
میں اگر ادب کے مسئلے پر غور کرنے کی کوشش کروں تو پہلے سوچوں گا کہ ادب کا موضوع کیا ہونا چاہئے، یا کیا ہوتا ہے، پھر یہ کہ کون سی ہئتیں یا ظاہری شکل و صورت ایسی ہے جسے ادب کی ہیئت یا ادبی ہیئت کہہ سکتے ہیں ، اور پھر یہ کہ ادب کا مقصد کیا ہے اور انسان کو ادب کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ جہاں تک ممکن ہوگا میں ’’ہونا چاہئے‘‘ سے گریز کروں گا کیونکہ میرے آپ کے کہنے سے ادب کے اقدار متعین نہیں ہوتے، جس طرح نیوٹن کے کہنے سے کشش اضافی کے قانون متعین نہیں ہوئے تھے۔ وہ ساری کائنات میں جاری ساری تھے، نیوٹن نے ان کو صرف پرکھا تھا۔
سوال یہ تھا کہ ادب کا موضوع کیا ہوتا ہے! اس کا بڑا آسان جواب یہ ہے کہ ’’زندگی۔ ‘‘ اگر یہ مسئلہ یہیں ختم ہوجاتا تو ہمارے ترقی پسند ادیبوں کو ادب برائے ادب اور ادب برائے تفریح کے علمبرداروں کے سامنے اسلحہ آراء ہونے کی سرگرانی نہ رہتی لیکن بات یہیں ٹھہرتی نہیں۔ فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی سے کیا مراد ہے؟ اور کس زندگی کو ادب کا موضوع ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ’’ادب کا موضوع زندگی ہوتا ہے‘‘ اس کلیہ کا کیا مطلب ہے؟ زندگی خود اتنی بڑی عظیم الشان اور تہ در تہ چیز ہے کہ کوئی ایک ادیب یا ادب اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اور کیا زندگی بذات خود اتنی خوبصورت یا بامعنی ہے کہ اس کو ادب کا موضوع ہونے کا شرف بخشا جاسکتا ہے؟ میں ادب برائے ادب اور اس طرح کے دوسرے نظریات سے بحث اس لئے نہیں کروں گا کہ وہ بذات خود کوئی نظریے نہیں ہیں، ادب برائے زندگی کے مختلف پرتو اور بگڑے ہوئے پہلو ہیں ، کیونکہ بہرحال ادب کے لئے ادیب کی ضرورت ہوتی ہے اور ادیب زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے چاہے وہ یے ٹس کی طرح شیش محل میں رہے یا بورہس کی طرح بھول بھلیاں کی تنگ و تاریک بوجھل دنیا میں۔ ادب برائے زندگی کے نام نہاد علمبردار یہ کہتے آئے ہیں کہ زندگی سے مراد دورِ حاضر ہے اور خاص کر دورِ حاضر کے وہ مسائل جو عام انسانوں کی روٹی کپڑے اور اقتصادی اور سماجی آزادی سے منسلک ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ادب صحیح معنوں میں ادب تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ وقت کے بدلے ہوئے دھارے میں خود کو سمودے اور اس کو خود میں سمولے اور پسماندہ انسانوں کے مسائل کو اپنائے۔ جدید انگریزی شاعری ایک عرصہ سے ادھیڑبن میں ہے کہ دورِ حاضر کے شدید جھنجھوڑنےوالے واقعات اور سائنس کی چکناچور کردینے والی قوتوں اور ان قوتوں کے ذریعے بے نقاب ہونے والی عظیم الشان بھیانک طاقتوں کو کس طرح اپنائے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ادب کا کوئی مستقبل ہی نہیں ہے جب تک پرانے تصورات کے محلوں کو ویران کرکے اپنے تخیل کدہ کو اسپوتنک اور آواز سے زیادہ تیزرفتار ہوائی جہاز اور ایٹمی قوتوں کی جادوگری سے آباد نہ کرے۔ پرانے خیالوں والا ورڈزورتھ یہی کہتا رہ گیا کہ ’’قلب انساں کے سوا میرا کوئی موضوع نہیں ‘‘ لیکن آج اس کا کلام پڑھنے والے شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ جو ادبی نظریہ باز اور زیادہ آزاد خیال ہیں کہتے ہیں کہ ادب کے لئے ضروری ہے کہ وہ سماجی اور سیاسی حیثیت سے بیدار ہو اور اپنے وقت کے تمام سیاسی نظریات کو منعکس کرے یا اسی ایک سیاسی نظریے سے دنیا کو دیکھے اور سمجھے جو اور تمام نظریات سے بہتر اور ارفع ہے۔
ادب برائے زندگی کے کچھ اور ترجمان یہ کہتے ہیں کہ ادیب کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول اور ذہنی فضا کی آئینہ داری کرے۔ اس کو اس سے مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہئے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ بتائے کہ کیا ہورہا ہے۔ لیکن اس ’’کیا ہورہا ہے‘‘ کو بھی وہ ہنگامی مسائل تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق و محبت کی گفتگو اب بہت ہوچکی۔ انفرادی حیثیت سے انسان کے خوف و مسرت اور بیم و رجا کی کیفیتوں کو وہ ادب کا موضوع ماننے سے انکار کرتے ہیں اور فرد کو ’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ‘‘ کی طرح کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
غرض کہ اس طرح ایک سادہ سا جواب سے ایک ایسا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے جس کے ہزاروں حل نظر آتے ہیں اور ہر شخص کو یقین ہے کہ اس کا حل بہترین، مکمل ترین اور پختہ ترین ہے۔ اس تمام الجھاوے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب ادیب اور نقاد اس مسئلے سے الجھے ہوئے ہیں کہ ادب کو کیا ہونا چاہئے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ادب کیا ہے اور اس کو حل کرنے کی صورت یہ ہے کہ بجائے نظری اور عملی تنقید کی خشک کتابوں کی ورق گردانی کی جائے، خود ادب ہی کو پڑھا اور پرکھا جائے۔
جس لمحہ ہم ادب کے شارحین کی نگاہ بچا کر ادب کی تخلیق کرنے والوں اور ان کے ادب کو دیکھتے ہیں تو ایک بہت بڑی بنیادی حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ادب کا موضوع کل زندگی نہیں بلکہ زندگی کا ایک ننھا سا ٹکڑا ہے جس کو ادیب اپنی شخصیت کی رنگارنگی، مزاج کی بلندی اور تخیل کی تیزی سے ایک نئی زندگی اور ایک نیا حسن بخش دیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، خیالی ہو یا واقعی، بس اسے زندہ اور متحرک ہونا چاہئے۔ نہ زندگی کا ہر پہلو ادب ہوتا ہے اور نہ ادب کا ہر پہلو زندگی۔ شہد کی مکھیوں کی عادات و خواص اور ان کی حرکتیں زندگی کا ایک جز ہیں لیکن وہ ادب کا موضوع نہیں بن سکتیں جب تک کہ ادیب ان کو اپنے تخیل کے زور سے ایک تمثیلی کیفیت نہ بخش دے (ملاحظہ ہو لارڈ ڈن سنی کا ڈراما دی فائٹ آف کوئین)۔ زندگی ایک وسیع بلکہ غیرمحدود اور لمحہ بہ لمحہ تغیرپزیر اکائی ہے۔ ادیب اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے اور پھر ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے جو اصل سے مختلف، اثریت اور حرارت میں شدید تر اور معنی میں جامع تر ہوتی ہے۔ جو نقاد یہ کہتے ہیں کہ ادیب کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے سارے معاشرہ یا آس پاس کے سارے مسائل کو ادب میں بھرلے، وہ زندگی کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور شاعر کے ذہن کو میکھ بتھ کی جادوگرنیوں کے Magic Broth جیسا کوئی چوں چوں کا مرتبہ سمجھتے ہیں۔ ادیب کا ذہن صرف ایک یا دو چار مسائل کا اثر قبول کرسکتا ہے۔ ادب برائے زندگی کے روایتی ترجمان زندگی کے عظیم الشان انتشار اور اس کی بے ربطی کو نہیں سمجھتے اور اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ زندگی اپنی تمام وسعت کے باوجود ادیب کے ذہن میں سما سکتی ہے۔ وہ اس حقیقت کوبھی بھول جاتے ہیں کہ اکثر زندگی کی عکاسی خیالی یا غیرواقعی ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو علامت نگاری کے اصول کی ادب میں کیا جگہ ہوگی؟ یوں تو ہر بڑا ادیب علامت کا استعمال کرتا ہے، زیادہ یا کم یہ اس کی افتاد مزاج پر منحصر ہے لیکن بورہس کی کہانیوں کو آپ کیا کہیں گے جن کے ماحول اور فضا سراسر غیرواقعی ہیں اور واہمہ میں غرق۔ اس کی کہانیوں میں بار بار ایک غیرمختتم بھول بھلیاں کا ذکر آتا ہے، کہیں بابل کی لاٹری کی صورت میں جس کے انتخابات لامتناہی تھے اور ہر انتخاب کے نتائج نامعلوم۔ کہیں ایک افق سے لے کر افق تک پھیلی ہوئی لائبریری کی صورت میں جس میں ہزارہا شعبے ہیں اور ہر شعبے میں ہزارہا کتابیں اور ہر کتاب کی ہزارہا شرحیں اور ہر شرح ایک دوسرے سے مختلف ہے اگرچہ ہر کتاب کے اصل معنی ایک ہی ہیں اور کسی بھی کتاب کے معنی کسی کو نہیں معلوم، کیونکہ وہ صرف ۲۳؍ حرفوں کے ان گنت الٹ پھیر سے بنائی گئی ہیں اور اس طرح ان میں دنیا کی ہر زندہ مردہ اور آئندہ پیدا ہونے والی زبان لکھی ہوئی ملتی ہے۔
ظاہر ہے یہ کہانیاں زندگی کی ہی عکاسی کرتی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کی فضا انتہائی خیالی اور ان کے کردار واقعیت سے اتنے ہی دور ہیں جتنی تحت الثریٰ سے ثریا۔ لیکن اصل مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ ادب زندگی کا نہیں زندگی کے ایک ٹکڑے کا نام ہے اور وہ ٹکڑا بھی دایب کےتخیل کے نگارخانے میں ہزارہا اور نئی زندگیوں کا اثر جب قبول کرکے باہر نکلتا ہے تو حقیقتاً زندگی سے کوسوں دور ہوتا ہے، اتنا دور کہ اکثر اس کا پہچاننا ہی مشکل ہوتا ہے۔
(’’لفظ و معنی‘‘ میں شامل مضمون ادب پر چند مبتدویانہ باتیں کا ایک حصہ)