Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہ حاملہ خاتون

Updated: July 28, 2025, 3:48 PM IST | M. Ismail Nerikar | Mumbai

ایک قصبہ کے بس اسٹاپ پر دو افراد بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کا عام سا شخص تھا۔ اور دوسری ،  ایک خاتون تھی جو اپنے لباس سے غریب نظر آرہی تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک قصبہ کے بس اسٹاپ پر دو افراد بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کا عام سا شخص تھا۔ اور دوسری ،  ایک خاتون تھی جو اپنے لباس سے غریب نظر آرہی تھی۔
بس کے انتظار میں دس پندرہ منٹ گزر گئے۔ اس شخص نے خاتون کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ غریب خاتون  عنقریب ماں بننے والی ہے۔اس شخص سے خاموش رہا نہیں گیا۔ اس نے پوچھ ہی لیا ’’کیا یہ تمہاری پہلی اولاد ہوگی ? ؟‘‘
 خاتون کو اس شخص کا یہ سوال اور اس کا اس طرح سے مخاطب کرنا ناگوار گزرا۔اس کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آئے۔ویسے بھی وہ کافی تھکی تھکی سی لگ رہی تھی۔اس لیے اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔صرف ناراضگی اور بے بسی کے جذبات  سے اس شخص کی طرف دیکھا۔کچھ دیر تک وہ اپنے جذبات پر قابو پاتی رہی اور پھر اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے، نحیف آواز میں بولی’’جی!  آپ  اندازہ صحیح ہے۔
 جواب سن کر اس شخص نے خاتون کو دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس معاملے میں تمہیں فکر کرنے اورپریشان ہو نے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ کبھی کبھار ہم لوگ خوامخواہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ تم ان سب فکروں کو اپنے ذہن سے جھٹک دو اور بے فکر ہو جائو۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یقین مانو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
یہ سن کر خاتون کی آنکھوں میں خوشی کی رمق  نظر آئی۔ اس نے کہا’’ تمہاری ہمت افزائی کا  شکریہ۔‘‘
 اب اس شخص کی ہمت بڑھ گئی۔اس نے ایک اور سوال داغ دیا ’’ تم ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہو۔ایسے وقت میں ،تمہارا شوہر ساتھ نہیں آیا؟‘‘
شوہر کا ذکر سن کر خاتون کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا’’ وہ تین ماہ پہلے مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔
      اس شخص نے پھر ایک سوال کیا’’آخر وہ کیوں تمہیں چھوڑ کر چلا گیا ?؟‘‘   وہ خاموش رہی۔اس سے کوئی جواب نہیں بن پارہا تھا۔اپنے آنسوؤں کو پو چھتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی’’ ہمارے درمیان معاملات کافی الجھ گئے تھے۔‘‘
     اب اس شخص نے اور ایک سوال اٹھایا’’تمہارے گھر میں اور کوئی نہیں ہے؟‘‘    اس خاتون نے ایک گہری  سانس لی اور بولی’’ میں اپنے گھر میں تنہا رہتی ہوں۔اپنے پتاجی کے ساتھ ! وہ بیمار رہتے ہیں۔‘‘
        وہ شخص کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر پوچھ بیٹھا ’’ کیا تمہیں، اپنے پتا کا سہارا اتنا ہی مضبوط لگتا ہے جتنا تمہارے بچپن میں رہا تھا؟‘‘
 خاتون سوچ میں ڈوب گئی۔مگر اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ بڑی مشکل سے وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی’’ جی ہاں۔آج بھی ، اس حالت میں بھی ، وہ میرے  لئےایک مضبوط سہارا ہیں۔‘‘
 ’’کیا تکلیف ہے تمہارے پتاجی کو؟‘‘ اس شخص نے بڑے خلوص سے پوچھا۔ کچھ  توقف کرنے کے بعد اس خاتون نے جواب دیا’’ انہیں اب یاد نہیں آرہا ہے کہ میں ان کی  بیٹی ہوں۔ اور وہ بھی کہ میں اکلوتی اولاد ہوں۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
 ٹھیک اسی وقت،بس اپنے اسٹاپ پر آپہنچی  اور  اپنے آنسو پچھتے ہوئے،  وہ  خاتون دو قدم آگے بڑھ کر بس کے دروازے تک پہنچی۔اور پھر  یکلخت مڑ کر اس ادھیڑ شخص کے پاس پہنچی اور بڑے پیار کے ساتھ اس کا ہاتھ تھاما اور خلوص بھرے لہجے میں بولی’’ چلئے پتاجی..... چلتے ہیں۔بس آگئی ہے۔‘‘
( مرکزی خیال،  روسی ادب سے ماخوذ ہے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK