Inquilab Logo Happiest Places to Work

بانسری

Updated: August 04, 2025, 1:42 PM IST | Dr. Ansari Mukhtar Ahmed | Mumbai

صبح ناشتے کی میز پر اگر اخبار پڑھنے کو نہ ملے تو ناشتہ کرنے میں مزہ نہیں آتا۔ جانے کیوں آج ہاکر اخبار ڈالنا بھول گیا۔ ’’ کلینک جاتے وقت راستے میں اخبار لے لوں گا۔ ‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 صبح ناشتے کی میز پر اگر اخبار پڑھنے کو نہ ملے تو ناشتہ کرنے میں مزہ نہیں آتا۔ جانے کیوں آج ہاکر اخبار ڈالنا بھول گیا۔ ’’ کلینک جاتے وقت راستے میں اخبار لے لوں گا۔ ‘‘ میں نے دل میں سوچا اور جلدی جلدی ناشتے سے فارغ ہو کر اپنے کلینک کے لئے نکل پڑا۔ کلینک پہنچ کر میں نے دیکھا امّاں جی کا ٹِھّیا آباد ہے۔ کلینک کے سامنے برگد کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھ کر اماّں جی بھیک مانگا کرتی تھیں ۔ پاس ہی جمن بھٹیارے کا تنور دہکنے لگا تھا۔ تنور سے نکلتی گرما گرم روٹیاں اور بھٹیار خانے سے اَنواع اقسام کے کھانوں کی خوشبو فَضا میں بکھر گئی تھی- گاہکوں کی آمد بھی شروع ہوگئی تھی۔ 
 یہاں اماّں جی کو اچھی خاصی بھیک کے ساتھ کھانے کو بھی مل جاتا تھا۔  اماّں جی نے مجھے دیکھا تو کلینک میں آگئیں ۔ ’’بولو اماّں جی تمہاری طبیعت کو کیا ہو گیا، کیا چاہیے تمہیں ؟‘‘   میں نے اماّں جی کی طرف کرسی کا اشارہ کر کے پوچھا۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے، جو کچھ بھی دینا ہے میرے بچّے کے لئے دے دو ہمیشہ کی طرح دوائیں دینا۔ اماّں جی نے کہا۔ میں نے اماّں جی کو بغور دیکھا، بوسیدہ جسم جابجاپیوند لگی ساڑی میں ملبوس، تھکا ماندہ سا چہرہ، جس پر ہمیشہ ایک مردنی سی چھائی رہتی۔ جسم پر گوشت کم ہڈیاں زیادہ نظر آتی تھیں - پورے جسم کو جھریوں نے لپیٹ رکھا تھا۔ ۶۵؍ برس کی عمر میں کمر بالکل جھک گئی تھی۔ نہ جانے کتنی بیماریاں پال رکھی تھیں ۔ مگر کبھی بھی اپنے لئے دوائیں نہیں مانگی ۔ صرف اپنے بچّے کے لئے ہی دوائیں مانگا کرتی تھی۔ 
 گزشتہ دس برسوں میں صرف ایک بار جب اُن کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا، مجھ سے ضد کرکے میرے ایک دوست سرجن سے اپنی آنکھوں کا آپریشن کروایا تھا - مجھے یاد ہے ! تب ہی انھوں نے آنکھوں کے ڈراپس، دوائیں اور اپنے لئے چشمہ بنوایا تھا۔ ’’ ٹھیک ہے اماّں جی تم برآمدے میں جاکر بیٹھو میں دوائیں دیتا ہوں۔ کلینک میں اب مریضوں کی بھیڑ ہونے لگی تھی۔ مریضوں کے معائنے اور علاج و معالجہ سے فارغ ہو کر میں نے اماں جی کی جانب دیکھا، وہ اب بھی برآمدے میں ہی بیٹھی تھیں۔ اماں جی کی شخصیت میرے لئے ایک معّمہ سے کم نہ تھی، آج میں اماں جی کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتا تھا اور قریب کی کرسی پر جا بیٹھا’’ہاں تو اماّں جی کیا دوں تمہیں ؟‘‘’’ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے جو بھی دینا ہے میرے بچّے کے لئے دے دو۔ ‘‘ اماں جی نے ہمیشہ کی طرح جواب دیا۔ میں نے دوائیں ان کے حوالے کی اور گویا ہوا۔ میں ہمیشہ تمہارے بچّے کو بغیر معائنہ کے دوائیں دیتا ہوں، کبھی کچھ ہو گیا تو کیا کروگی؟ اگلی بار اُسے میرے کلینک میں لانا ہو گا۔ میں اس کا معائنہ کر کے دوائیں دوں گا ورنہ نہیں۔ 
 ’’اماّں جی کچھ ڈر سی گئیں۔ ‘‘’’ ڈاکٹر صاحب سچ کہہ رہے ہو یا مذاق کررہے ہو ؟‘‘   اماں جی کی آنکھوں میں ایک خوف سا دکھائی دے رہا تھا۔ ’’ تم نے مجھ سے ایک بار کہا تھا کہ وہ ۳۵؍برس کا ہو گیا ہے۔ کیا اس کے پاؤں نہیں ہیں دواخانے میں آنے کے لئے؟کام دھندا کچھ کرتا نہیں، دن بھر گھر میں پڑا رہتا ہے، اپنی بوڑھی اور بیمار ماں سے بھیک منگواتا ہے، مفت کی روٹیاں توڑتے اسے ذرا بھی شرم نہیں آتی؟   میں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میری غصّہ بھری باتیں سن کر اماّں جی میرے قریب آئیں اور بولی۔  ڈاکٹر صاحب یہ سچ ہے کہ وہ۳۵؍ برس کا ہے مگر وہ یہاں نہیں آسکتا، پیدائشی طور پر دونوں پیروں سے معذور ہے، میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہوں، اس بات کی اسے شرم آتی ہے یا نہیں، یہ میں نہیں جانتی، کیوں کہ وہ معذور ہونے کے ساتھ ساتھ پاگل اور دیوانہ بھی ہے۔ گھر جانے پر مجھے بس دیوانہ وار تکتا رہتا ہے۔ اتنا کہہ کر اماں جی روہانسی ہو گئیں ۔ 
 میں بھی شرمندہ ہو گیا، کسی کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر غصّہ میں کیا کچھ کہہ گیا۔ اماّں جی مجھے معاف کرنا۔ غلطی ہو گئی۔ میں نے تمہارا دل دکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس میں تمہاری کیا غلطی ہے۔ یہ تو سب تقدیر کا کھیل ہے، مجھے اس کا کوئی بھی ملال نہیں ہے۔ اماں جی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ کیا نو مہینے پورے ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوگیا تھا ؟‘‘میں نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ مجھے کیا پتہ، اماّّں جی نے بے فکری سے جواب دیا۔ تمہیں کچھ پتہ نہیں ایسا کیوں ؟ ماں کو توپتہ ہونا چاہئے۔ میں نے دوبارہ پوچھا ۔ اماّں جی سراسیمہ ہوکر میرا چہرہ تکنے لگیں۔ ہاں ڈاکٹر صاحب مجھے کچھ بھی نہیں پتہ۔ 
 وہ میرے پیٹ سے نہیں ہے! سوتن کا بیٹا ہے۔ اماّں جی نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا اور خاموش ہوگئیں ۔ میں حَیرت زدہ ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا، سارا معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ اپنی پیشہ وَرانہ عادت سے مجبور میں نے اماّں جی کو کریدنا شروع کیا، ان کے پرانے زخموں کی کھپلی نکلتی گئی، پرتیں کھلتی گئی اور زخم پھر سے ہرے ہوگئے۔ 
 اماّں جی کی شادی ہوئے برسوں بیت گئے ! مگر اپنے شوہر کو اولاد کا سکھ نہ دے سکی۔ شوہر کی محبّت اور مودّت میں کمی ہوتی گئی۔ بانجھ ہونے کا طعنہ سنتی رہی اور ظلم و ستم سَہتی رہی۔ برسوں انتظار کے بعد شوہر گھر میں سوتن لے آیا۔ اُس دن اماّں جی کے اوپر غَموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ سوتن نے آتے ہی پورے گھر پر قبضہ کر لیا، شوہر نے بازو کا چھوٹا سا مکان دے کر گھر سے باہر نکال دیا۔ سوتن اور شوہر نے اماّں جی کو تکلیفیں دینی شروع کی، محض دو وقت کے کھانے اور سر چھپانے کے عوض گھر کے سارے کام کرنے ہوتے تھے۔ آخر ایک دن سوتن کا پالنا ہل گیا۔ ایک برس میں ہی سوتن نے شوہر کو اولاد نرینہ کا سکھ دےدیا۔ بیٹا پیدا ہوا، جو دونوں پیروں سے معذور تھا۔ چھ مہینے بعد ہی شوہر ایک سڑک حادثے میں فوت ہوگیا۔ سوتن کو دکھوں نے آگھیرا اور اسی دکھوں کے چلتے ایک برس کے بچے کو چھوڑ کر دنیا سِدھار گئی ۔ میت کے دن بچّہ دن بھر روتا رہا۔ اماّں جی نے بھی اس کا کوئی خیال نہیں کیا۔ وہ تو بس رات ہونے کا انتظار کرنے لگی تاکہ بچے کو کسی کے دروازے پر چھوڑ آئے۔ رات ہونے پر اماّں جی نے بچے کو گود میں اٹھایا، اپنی چھاتی سے لگایا اور گھر سے باہر نکلیں ۔ بچہ بھی ماں سمجھ کر اماّں جی کی چھاتی سے چمٹ کر چپ ہو گیا۔ 
 زندگی میں پہلی بار اماّں جی کے دل میں ماں ہونے کا احساس جاگا۔ مامتا کاتلاطم خیز ریلا آکر تھم سا گیا ! سارے جسم میں برقی رو دوڑ گئی۔ گویا آج ان کا وجود مکمل ہو گیا۔ بچے کو کسی کے دروازے پر چھوڑ آنے کی بجائے، فرط مَسّرت سے بچے کا ماتھا چُوما ۔ اُس کے لئے باہر سے دودھ لے کر آگئیں اور سوتیلی سے سگی ماں بن گئیں ۔ 
 آج ۳۵؍ برس بیت گئے۔ اس معذور اور اپاہج بچے کی پرورش کرتے کرتے، علاج و معالجے میں گھر بک گئے، زیورات بک گئے۔ مگر بچے کی حالت جُوں کی تُوں رہی اس میں کوئی بھی سُدھار نہیں ہوا۔ کوئی اگر کسی کے لیے کچھ کرتا ہے تو اس کے پیچھے بس یہی ایک آس ہوتی ہے کہ کل اس کا کچھ فائدہ ہوگا۔ مگر یہاں تو سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی کسی توقع اور اپنی عزت نفس کی پرواہ کئے بغیر بھیک مانگ کر اماّں جی سوتن کے بچے کی پرورش کررہی تھیں۔ 
 اماّں جی یہ بچہ تمہارا نہیں ہے پھر بھی اس کے لئے اتنا کچھ کیوں کرتی رہتی ہو؟ میں نے اماّں جی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا، مجھ سے ہمیشہ دوائیں لے جا کر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے، وہ ٹھیک ہونے والا نہیں ہے. اماّں جی کی آنکھیں بھر آئیں ۔ میرا ہی ہے وہ ! میرے شوہر کی نشانی ہے۔ میں اکثر سپنے میں یہی دیکھتی ہوں کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے ۔ کم از کم مجھے سپنے تو دیکھنے دو ! اسی خاطر میں نے آنکھوں کا آپریشن کروایا تھا، تاکہ ہمیشہ اسے اچھی طرح سے دیکھتی رہوں۔ مگر کب کرتی رہو گی یہ سب؟جب تک زندگی ہے تب تک۔ پھول کو کیا معلوم کہ وہ بھگوان کے چرنوں میں ڈالے جائیں گے یا کسی مزار پر۔ وہ پھول ہی کہلایں گے۔ یوں ہی اپنی خوشبو بکھیرتے رہیں گے اور کھلتے رہیں گے۔ ایسا ہی کچھ ہمارا بھی ہے۔ سپنے، شیشے اور رشتے اگر ٹوٹ کر بکھر جائیں تواس کی کرچیوں سے بہت ہی چبھن ہوتی ہے۔ ہاں ! مگر اسی چبھن سے زندگی کا فلسفہ وجود میں آتا ہے۔ 
 ڈاکٹر صاحب، کھوکھلے بانس صرف آواز کرتے ہیں مگر اسے چھید کر اس میں سوراخ بنائے جائیں تو ایک بانسری تیار ہوتی ہے۔ جس سے نہایت ہی سریلی آواز نکلتی ہے۔ کھوکھلے بانس ہونے سے اچھا ہے کہ اپنے جسم کو چھید کر اس میں سوراخ کرکے بانسری بن جائیں۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک ان پڑھ اماّں جی مجھ ڈاکٹر کو زندگی کے وہ رموز بتا رہی تھیں جو میں نے اب تک کسی بھی نصاب میں نہیں پڑھا تھا۔ اماّں جی کہاں سے سیکھا ہے یہ سب؟ میں نے پوچھا۔ سیکھنا نہیں پڑتا، یہ جو زندگی ہے نا !سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ اماّں جی نے ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ 
 مجھے تو اب یہی فکر کھائے جارہی ہے۔ اگر میں مرگئی تو اس کا کیا ہوگا ؟ وہ تو کچھ ہی دنوں میں اپنے آپ ہی مر جائے گا۔ اماّں جی ساڑی کے پلّو میں اپنا چہرہ چھپائے بلک کر رونے لگیں ۔ دل میں بس اب ایک ہی خواہش رہ گئی ہے۔ کہہ کر اماں جی خلاء میں تکنے لگیں۔ کیسی خواہش اماّں جی ؟ میں نے پوچھا۔ اماّں جی میرے قریب آکر کہنے لگی۔ کوئی بھی ماں ایسا نہیں کہے گی۔ بس یہی کہ وہ مجھ سے پہلے مَرجائے۔ کہہ کر اماّں جی جانے لگیں ۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور اپنے جسم کو چھید کر اس میں سوراخ کر کے زندگی کا سریلا نغمہ سناتی اُس بانسری کو میں تکتا رہ گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK