کہتے ہیں ممبئی روشنیوں کا شہر ہے لیکن کچھ گلیاں، کچھ محلے اور کچھ بےنصیب علاقے ایسے بھی ہیں جہاں روشنی صرف بجلی کے بل میں دکھائی دیتی ہے، یا پھر ان وعدوں میں جو ہر الیکشن سے پہلے ’’لال بتی‘‘کی طرح چمکاتے ہیں اور بعد میں اندھیرے میں غائب ہو جاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 05, 2025, 1:52 PM IST | Khan Istikhar Ishtiaaq | Mumbai
کہتے ہیں ممبئی روشنیوں کا شہر ہے لیکن کچھ گلیاں، کچھ محلے اور کچھ بےنصیب علاقے ایسے بھی ہیں جہاں روشنی صرف بجلی کے بل میں دکھائی دیتی ہے، یا پھر ان وعدوں میں جو ہر الیکشن سے پہلے ’’لال بتی‘‘کی طرح چمکاتے ہیں اور بعد میں اندھیرے میں غائب ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں ممبئی روشنیوں کا شہر ہے لیکن کچھ گلیاں، کچھ محلے اور کچھ بےنصیب علاقے ایسے بھی ہیں جہاں روشنی صرف بجلی کے بل میں دکھائی دیتی ہے، یا پھر ان وعدوں میں جو ہر الیکشن سے پہلے ’’لال بتی‘‘کی طرح چمکاتے ہیں اور بعد میں اندھیرے میں غائب ہو جاتے ہیں۔ گرمی کا زور تو ایسا کہ جیسے سورج نے بھی دوپہر کے وقت ٹھیلا لگا رکھا ہو’’آگ برساتا ہوں، سستا نہیں دیتا!۔ ‘‘ ایسے میں بجلی کا جانا ایسے لگتا ہے جیسے مریض سے آکسیجن کھینچ لی گئی ہو۔
ایسے ہی دنوں میں، ہمارے محلے کا ستارہ، خوابوں کا سودا گر اور اس کہانی کا ہیرو — سونُو منظر پر نمودار ہوا۔ سونُو جس کی آنکھوں میں کولر کے سپنے تھے اور دل میں اے سی کی ٹھنڈک کی تڑپ۔ قسطوں پر خریدے گئے اے سی کے ساتھ وہ نہ صرف گرمی سے لڑنے نکلا تھا، بلکہ پورے محلے کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ’’ہم بھی کچھ کم نہیں !‘‘ چوتھے فلور پر ایک کمرے کے فلیٹ میں اس نے اے سی فٹ کروایا، دیوار پر نئے کیل ٹھونکے، اور دل میں اُمید کے چراغ جلائے۔
جیسے ہی سونُو نے فخر سے ریموٹ کا بٹن دبایا — ’ٹن‘... اور ساتھ ہی پوری بجلی ٹن کر گئی۔ پورا محلہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ ایسا سناٹا کہ اگر کوئی چھینک بھی مارتا تو گونج تین گلی دور سنائی دیتی۔ سونُو کی ماں نے دعا کا ہاتھ اٹھایا، دادی نے چپل سنبھالی، ابو نے موبائل کا ٹارچ جلا کر کمرے میں جھانکا، اور سونُو کے چہرے پر لکھا تھا’’آسمان سے گرا، بجلی میں اٹکا!‘‘
سونُو نے فوراً بجلی کمپنی کو فون کیا۔ وہاں سے جواب آیا’’آپ کا علاقہ فہرست میں ہے، جلد کچھ کیا جائے گا۔ ‘‘سونُو بولا، ’’فہرست میں تو ہم اسکول سے ہیں، کب نکالنے کا ارادہ ہے؟‘‘
جواب میں صرف خاموشی ملی۔ — شاید کال سینٹر کی لائن بھی اُسی بجلی سے چلتی ہو جو غائب تھی۔ محلے میں گرمی کا یہ عالم تھا کہ نل سے پانی نہیں، بھاپ نکل رہی تھی۔ عورتیں پسینے میں بھیگی بالٹیوں کو گھور رہی تھیں اور بچے کپڑے سکھانے کی جگہ خود ہی چھت پر لیٹے گرمی سے خشک ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں محلے کے بچوں نے کھیل بنا لیا۔ ’’بجلی کب آئے گی؟‘‘شرطیں لگنے لگیں۔ کوئی بولا: ’’اگر شام تک آئی، تو میں خالی ٹنکی بھر لاؤں گا۔ ‘‘ دوسرا بولا: ’’میں برف کے ساتھ نہاؤں گا۔ ‘‘ سونُو، جو اندر ہی اندر `اُبلتے دودھ کی طرح گرمی سے کھول رہا تھا، جھنجھلا کر بولا’’اب کی بار بجلی آئی، تو گلاب جامن بانٹوں گا!‘‘
یہ سنتے ہی بچوں نے بغیر تاخیر کے لائن لگا دی، جیسے کہیں ریلیف کیمپ لگا ہو۔ ایک بچہ بولا: ’’سونُو بھائی، جھوٹ بولنا گناہ ہے سونُو ہنسالیکن اُس کی ہنسی میں وہ درد چھپا تھا جو صرف وہ جانتا تھا — ’’نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم، ’’ نہ اے سی چلا، نہ ٹھنڈک ملی‘‘
تبھی محلے کی خالہ نے کہا’’بیٹا، تمہارا اے سی بھی لگتا ہے `اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ جب لائٹ ہی نہیں، تو مشین بھی شرمندہ‘‘ بزرگ اماں جن کے پاس ہر درد کی کہاوت تھی، پان چباتے ہوئے بولیں۔ ’’بجلی بھی وہی دلہن ہے جو سسرال آتے ہی میکے بھاگ جائے۔ ‘‘اور ایک دم سے سب ہنسنے لگے، جیسے یہ ہنسی اُن کے پسینے کا علاج ہو۔ بالآخر شام کے اندھیرے میں، ایک لمحہ ایسا آیا جب ٹیوب لائٹ جھپکی پنکھا ذرا سا ہلا اور اے سی نے ایک ہلکی سی سانس لی۔ محلے میں شور مچ گیا، جیسے کسی میچ میں آخری گیند پر چھکا لگ گیا ہو۔ سونُو نے دوبارہ ریموٹ دبایا، اے سی نے ’’بھوں ‘ کی آواز کی اوراور بس وہی اُس کے بعد کچھ نہ ہوا، کیونکہ کمپریسر نے کہہ دیا، ’’بابا! اتنی بار جھٹکے کھائے ہیں کہ اب میں بھی چھٹی پر ہوں !‘‘سونُو نے موبائل ٹارچ بند کیا، پنکھے کے نیچے چارپائی پر لیٹااور ایک لمبی ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’چلو! سانس تو بچی ہے!‘‘ایک بزرگ نے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا’’بیٹا، جہاں بجلی آئے بغیر جائے، وہاں خواب بھی لوڈ شیڈنگ میں ہوتے ہیں !‘‘