Inquilab Logo

۲۰۰؍ سال قبل تحریر کی گئیں مختصر کہانیوں کی معنویت و مطابقت آج بھی برقرار ہے

Updated: February 11, 2024, 12:11 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

۱۹؍ ویں اور ۲۰؍ ویں صدی کے اوائل میں تحریر کی گئیں دلچسپ، جامع اور سبق آموز کہانیاں آج کے دور میں لکھنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ ان کہانیوں کی اپنی دنیا ہے اور اُس دُنیا کے اپنے حالات ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

۱۹؍ ویں اور ۲۰؍ ویں صدی کے اوائل میں تحریر کی گئیں دلچسپ، جامع اور سبق آموز کہانیاں آج کے دور میں لکھنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ ان کہانیوں کی اپنی دنیا ہے اور اُس دُنیا کے اپنے حالات ہیں۔ اِن میں بھی انسان ہیں، جاندار ہیں، فطرت ہے، فطرت کا حسن ہے، مذہب ہے، نفسیات ہے، محبت ہے، دوستی ہے، وفاداری ہے، احترام ہے اور غیرمرئی طاقتیں ہیں مگراُس دور کے سیاق و سباق میں یہ کہانیاں اُن آفاقی مسلّمات کا احاطہ کرتی ہیں جن کے سبب ان کی معنویت اور مطابقت میں آج بھی کمی نہیں آئی ہے۔ اُس دور کی (بطورخاص ۱۸۱۵ء تا ۱۹۱۵ء) کہانیاں صرف دلچسپی کا سامان نہیں تھیں بلکہ ان میں تہذیب و ثقافت، عالمی حالات، سرحدوں میں قید حکومتوں، حکمرانوں اور عوام کو درپیش مسائل کو ایسے حسن اور حساسیت کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا گیا ہے کہ پڑھنے والا نہ صرف ان سے لطف اندوز ہوتا بلکہ غور و فکر پر بھی مجبور ہوجاتا تھا۔ 
 اس عہد کے مشہور ادباء میں ہینس کرسچین اینڈرسن، ٹی ایس آرتھر، لیو ٹالسٹائی، فرینک اسٹاکٹن، ایمبروس بیئرس، گی دی موپاساں، آسکر وائلڈ، انتون چیخوف، او ہنری، ہیکٹر ہیو منرو (ساکی) اور اسٹیفن کرین کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ عظیم ادباء ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبانوں میں اپنے ممالک کے حالات کا احاطہ مختصر کہانیوں کے ذریعے کیا۔ آج ۲۰۰؍ سال گزر جانے کے بعد بھی، خاص طور پر جب دنیا کے تقریباً سبھی ممالک نے جمہوری طرز حکومت اپنا لیا ہے، دنیا کےحالات تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ آمریت، بادشاہت اور جمہوریت؛ حکومت کا انداز بدلا لیکن دنیا کے حالات اور ان حالات کا جبر بڑی حد تک ویسا ہی ہے۔ اکثر یہ سوال قائم کیا جاتا ہے کہ کیا ۲۰۰۔ ۱۰۰؍ سال پہلے لکھی گئی کہانیاں آج کی دنیا سے مطابقت رکھتی ہیں ؟ کیا آج کی دنیا میں، خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے نزدیک، ان کی کوئی حیثیت رہ گئی ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں برآمد ہوتا ہے۔ 
 یہی وجہ ہے کہ جب ان کہانیوں کا مطالعہ آج کے نوعمر اور نوجوان کرتے ہیں تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے کیونکہ آج کا نوجوان جب اپنے اطراف نگاہ دوڑاتا ہے اور غور وفکر کرتا ہے تو اپنے آپ کو انہی حالات میں گھرا پاتا ہے جو آج سے ایک صدی قبل تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ضرور ہوئی ہے لیکن ایک بہتر دنیا، مستحکم معاشرہ اور یکساں حقوق والی دنیا سے محرومی جو کل تھی، آج بھی ہے۔ آج اعدادوشمار کی بنیاد پر بیشتر رپورٹیں دنیا کی مثبت حقیقت بیان کرتی ہیں۔ ایک صدی قبل یہ شعبہ اتنا منظم نہیں تھا کہ ان باتوں کو سمجھ پاتا، خوشیوں کی پیمائش کرپاتا، بھکمری کو جانچ سکتا، شخصی آزادی کی تشخیص کرسکتا، یا، اپنے معیار زندگی کی پیمائش کرپاتا۔ اگر اُس دور میں بھی آج کی طرح سروے کئے جاتے تو کم و بیش وہی نتائج برآمد ہوتے جو آج ہوتے ہیں۔ اُس دور میں مصنفین اور ان کی تخلیقات ہی تھیں جن کی بنیاد پر ان کے ملک کے حالات کا اندازہ لگانا ممکن تھا۔ آئیے چند کہانیوں کا سرسری ذکر کرلیں :

ہینس کرسچین اینڈرسن (۱۸۰۵۔ ۱۸۷۵) کی کہانی ’’دی لٹل میچ گرل‘‘ پڑھیں تو آپ کو ۱۹؍ ویں صدی کے اوائل کی دنیا نظر آئے گی جس میں بتایا گیا ہے کہ کس قدر نفسانفسی کا عالم ہے کہ لوگ ایک لاچار اور مجبور لڑکی سے ماچس کی ایک ڈبیہ بھی نہیں خرید رہے ہیں۔ کرسمس کی شام ہے، لڑکی بھوکی ہے، پاؤں سخت سردی سے جمے جارہے ہیں لیکن وہ گرم پکوانوں کا خواب آنکھوں میں سجائے ماچس فروخت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے مگر اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ اس کیلئے ماچس بیچنااس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ گھر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اسی لئے ایک ایک تیلی جلا کر سخت سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر تابکے؟ آخر کار دم توڑ دیتی ہے۔ کیا آج کی دنیا میں ایسے حالات نہیں ہیں جب انسان کودو وقت کی روٹی کیلئے اتنے ہی اور ایسے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں ؟ 
 ہینس اینڈرسن ہی کی کہانی ’’دی لاسٹ ڈریم آف اولڈ اوک‘‘ میں شاہ بلوط کا ۳۰۰؍ سال زیادہ پرانا درخت، جس نے نہ جانے کتنے ہی زمانے دیکھے اور کتنے ہی سخت موسم جھیلے، آخری خواب دیکھتا ہے کہ وہ تنہا مضبوط نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کی کوشش سے آس پاس کے چھوٹے اور کمزور پودے بھی مضبوطی حاصل کررہے ہیں تاکہ وہ سبھی ایک ساتھ طویل عرصہ تک جی سکیں۔ یہ خواب درخت کا تھا۔ ایسا خواب دیکھنے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو طاقت بخشنے کا خواب آج کے دور میں بھی کم لوگ دیکھتے ہیں اور آج کے دور میں بھی بے شمار انسان ہیں جنہیں کسی کی مدد کی ضرورت ہے، مل جائے تو ان میں بھی مضبوطی آجائے!


 

آسکر وائلڈ (۱۸۵۴۔ ۱۹۰۰) کی کہانی ’’دی ہیپی پرنس‘‘ میں آپ کے سامنے ایسے ملک کے حالات ہیں جس کے امراء نہایت پُرتعیش اور غریب عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہی حالات میں ایک شہزادے کا مجسمہ ایک ابابیل کی مدد سے اپنے ملک کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ آج کے حالات میں شہزادہ اور ابابیل کون ہیں، یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے مگر کیا آج کی دنیا کے حالات ایسے نہیں ہیں ؟ آسکر وائلڈ ہی کی کہانی ’’ دی نائٹ اینگل اینڈ دی روز‘‘ میں ایک بلبل ایک لڑکے کی مدد کررہی ہے کہ وہ اپنے معشوق سے اظہارِ محبت کرے۔ سرخ گلاب بنانے میں بلبل اپنی جان دے دیتی ہے۔ سرخ گلاب کس مشکل سے تیار ہوا، یہ جاننے کی پروا نہ لڑکے کو ہے نہ لڑکی کو۔ ان کیلئے گلاب صرف ایک پھول ہے جسے شاخ سے توڑ لیا گیا اور مطلب نکلتے ہی پھینک دیا گیا۔ یہ کہانی جس حساسیت کا سبق دیتی ہے اُس سے ہم نے خود کو بھی محروم کرلیا ہے۔ 

او ہنری (۱۸۶۲۔ ۱۹۱۰) کی ’’دی لاسٹ لیف‘‘ پڑھیں تو ایک ایسی بیمار لڑکی کا نقشہ کھنچ جاتا ہے جو زندگی سے مایوس ہوچکی ہے اور بستر مرگ پر ہے مگر ایک پتہ ہے جو اُس کے اور موت کے درمیان حائل ہے، وہ محسوس کرتی ہے کہ پتہ جب تک شاخ پر ہے، تب تک وہ زندہ رہے گی، جس دن پتہ ٹوٹ کر گر جائیگا وہ بھی موت کی آغوش میں پہنچ جائیگی۔ آج کی دنیا میں بھی کروڑوں انسان اس امید پر زندہ ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ بھی خوشی سے ہمکنار ہوں گے۔ 

گیبریئل گارسیا مارکیز (۱۹۲۷۔ ۲۰۱۴) کی ’’اے ویری اولڈ مین وتھ اِنارمس ونگز‘‘ ایسے معاشرہ کو پیش کرتی ہے جہاں انسان خواہشات کا غلام ہے۔ اسے تفریح سے غرض ہے جس کیلئے وہ کسی کو بھی ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس کے دل میں ہمدردی بس چند پل کیلئے رہتی ہے اور پھر خواہشات پوری ہوجانےپر وہ فرشتے کو بھی حاشئے پر لگا سکتا ہے۔ کیا آج کی دنیا میں ایسے انسان نہیں ہیں ؟ 

ایمبروس بیئرس کی ’’دی مون لائٹ روڈ‘‘ ایک ایسے خاندان کی حقیقت بیان کرتی ہے جہاں شک کا بیج پڑگیا ہے اور انسان اپنے عزیز کا بھی قتل کرسکتا ہے۔اس قتل کا بوجھ اس کے ذہن پر اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ وہ پاگل  ہوجاتا ہے۔ کیا آج کی دنیا میں ایسے خاندان نہیں ہیں؟یا ایسے افراد نہیں ہیں جنہیں اعصابی سکون کیلئے دواؤں کا سہارا لینا پڑتا ہے؟ کیا آج قتل و غارت گری ختم ہوچکی ہے؟

جیمس ہرسٹ کی ’’دی اسکارلیٹ آئبیس‘‘ دو بھائیوں کی کہانی ہے جس میں بڑا بھائی چھوٹے سے حسد کرتا ہے اور اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے ساتھ زیادتیاں کرتا ہے۔ آخر میں سنگدلی پر اُتر آتا ہے۔ اسے آج کے پس منظر میں دیکھئے تو محسوس ہوگا کہ حالات بالکل نہیں بدلے۔ 


ٹی ایس آرتھر کی کہانی ’’این اینجل اِن ڈزگائز‘‘ ایک ایسی یتیم و یسیر معذور بچی کی ہے جسے گاؤں کا کوئی بھی شخص اپنانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسے مصیبت سمجھ کر سب آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔ سوچئے، کیا آج کی دُنیا ایسے غیر حساس اور سنگدل انسانوں سے خالی ہوسکی ہے؟ گاؤں کا سب سے سخت نظر آنے والا شخص اس بچی کو اپناتا ہے۔ یہ کہانی امید کی کرن ظاہر کرتی ہے کہ سیکڑوں افراد میں کم از کم ایک شخص دردمند دل رکھتا ہے۔

اسٹیفن کرین کی ’’دی ویٹیرین‘‘ آج بھی سبق دیتی ہے کہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے زندہ رہنے کا نام زندگی ہے۔ بلاشبہ، ہر انسان کیلئے اپنا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن مشکلات اور مصیبت میں اپنے عزیزوں اور دوستوں  کا ساتھ نہ چھوڑنا بھی زندگی ہے۔ بے زبان جانوروں کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا بہادری ہے۔

انتون چیخوف کی کہانی ’’دی شو میکر اینڈ دی ڈیول‘‘ ظاہر کرتی ہے کہ خدا نے امیری اور غریبی کا فرق کیوں بنایا ہے اور دنیاوی نظام کیلئے یہ کیوں ضروری ہے!


فرینک اسٹاکٹن کی کہانی ’’دی لیڈی اور دی ٹائیگر‘‘ قاری کو ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں انسان وحشیانہ انداز میں فیصلہ کرتا ہے۔ اس کہانی کا اختتام ایسے موڑ پر ہوتا ہے جہاں قاری کو سوچنا پڑتا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیا فلمی مداح آج ایسی ہی فلموں کو پسند نہیں کررہے ہیں جہاں تشدد ہو اور فلم ’’اوپن اینڈیڈ‘‘ ہو؟

ساکی کی کہانیاں ’’کھلی کھڑکی‘‘، ’’ دی انٹرلوپرس‘‘ اور ’’دی میوزک آن دی ہل‘‘ تینوں ہی دلچسپ ہیں مگر ان میں موجود منفی عناصر انہیں منفرد بناتے ہیں، اور اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ انسان اچھا یا برا ہو، اس کے عادات و اطوار ہی اس کے اچھے یا برے انجام کی وجہ بنتے ہیں۔ مکافاتِ عمل سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ 

گی دی موپاساں کی  ’’دی نیکلیس‘‘ احساس کمتری میں مبتلا ایک غریب خاتون کی کہانی بیان کرتی ہے جو ایک تقریب میں اچھی نظر آنے کیلئے سہیلی سے قیمتی ہار ادھار لیتی ہے مگر ہار کھوجاتا ہے اور پھر اس کی ساری زندگی قرض ادا کرنے میں ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے نہ کریں ورنہ آپ ایک کے بعد دوسری پریشانیوں میں گھر سکتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا کا پورا نظام ہی قرض اور سود پر نہیں چل رہا ہے؟ کیا سوشل میڈیا نے ’’موازنہ‘‘ کو طاقت نہیں بخشی ہے؟
 ان ادیبوں نے کئی مختصر کہانیاں لکھیں اور سبھی کے ذریعے سبق دینے کی کوشش کی۔ ہر کہانی اپنے اندر کوئی نہ کوئی سبق لئے ہوئے ہیں،  صرف اس پر غور و فکر اور تجزیہ کرنے والا دماغ چاہئے۔ مشہور مصنفہ ایلزبیتھ گرنر کہتی ہیں کہ ’’ہر عمر کے افراد کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا ماضی یا اس دور کے حالات جاننے کیلئے وہاں کی کہانیاں پڑھیں۔‘‘ ماضی سے جڑنے اور حال کے بارے میں جاننے کیلئے دورِ قدیم کی کہانیوں کا مطالعہ اور ان کا عصر حاضر سے موازنہ ازحد ضروری ہے، تب ہی احساس ہوگا کہ ۲۰۰؍ سال پہلے لکھی گئی کہانی آج کے حالات پر بھی بالکل صادق آتی ہے۔ یہ کہانیاں آج کی دنیا سے بالکل میل کھاتی ہیں اور ان میں شامل مختلف کردار، حالات اور عناصر اپنے اندر اس قدر دلچسپی سموئے ہوئے ہیں کہ اگر ایک مرتبہ نوجوان کوئی کہانی پڑھنا شروع کریں تو اسے مکمل کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ 
ستمبر ۲۰۲۳ء میں دی نیویارک ٹائمز نے ایک سروے کیا تھا جس میں صرف ان افراد کو حصہ لینے کی اجازت تھی جن کی پیدائش ۲۰۰۰ء میں یا اس کے بعد ہوئی ہو، اور ان کی عمریں ۱۴؍ سال کے آس پاس  ہوں۔ سوال پوچھا گیا تھا کہ پرانی نسل، موجودہ نسل کو کیوں ناپسند کرتی ہے؟ کئی متبادل دیئے گئے تھے مگر نتیجے میں جن ۴؍ آپشن کو سب سے زیادہ منتخب کیا گیا، وہ تھے: دوستی، محبت، وفاداری اور عزتِ نفس۔ یعنی ان محاذوں پر موجودہ نسل کمزور ہے۔ انہیں ان جذبوں کی قدر نہیں ہے۔ وہ ’’مطلب پرست‘‘ اور ’’مادیت پسند‘‘ ہوگئے ہیں۔ دوستی، محبت، وفاداری اور عزتِ نفس ، وہ جذبات ہیں جو آج سے ۲۰۰؍ سال پہلے لکھی جانے والی کہانیوں میں جابجا نظر آتے ہیں اور انسان کو اپنے ساتھیوں کے تئیں حساس بناتے ہیں۔ 
 متذکرہ ادیبوں نے مختصر کہانیوں اور اپنے کرداروں کے ذریعہ دُنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ نسل ہو، یا اس کے بعد آنے والی نسلیں، یہ کہانیاں ہر نسل کیلئے کارآمد ثابت ہوں گی اور ان کے ذہنوں کو مثبت انداز میں بدلنے کی طاقت رکھیں گی۔ سروے کے اختتام میں ’’بے بی بومرز‘‘ ( ۱۹۴۶ء تا ۱۹۶۴ء  پیدا ہونے والے افراد) نے بھی یہی کہا کہ ان جذبات کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے موجودہ نسل کو پرانی کہانیاں ضرور پڑھنا چاہئے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK