Inquilab Logo Happiest Places to Work

اَدب کا مقصد زندگی کو سنوارنا ہے، اس سے نظریں چُرانا نہیں

Updated: May 04, 2025, 12:10 PM IST | Sayed Mohammad Aqeel | Mumbai

ماحول اور سماج ادب کی جان اور ادیب کا دماغ ہیں۔ سماج اور ماحول میں خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں، خرابیاں بھی۔

If we try to understand art in its broader sense, not just literature or poetry, it is important to keep an eye on the context and occasion in which the word art is used. Photo: INN.
فن کو صرف ادب، صرف شاعری نہ سمجھ کر اگر اس کے وسیع معنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ لفظ فن کا استعمال کس ضمن میں اور کس موقع پر ہوا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ادب کے سلسلے میں جب فن کا سوال آتا ہے تو بہت سے دھوکے پیدا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ فن کا مقصد صرف الفاظ کی تراش خراش، لفظوں کی بندش، بحر، ردیف قافیہ کا التزام سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ نثر میں بھی فنکاری کا تقاضا کرتے ہیں۔ کچھ نثر کو فن کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ فن ان کے نزدیک صرف شاعری میں ہی مل سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فن، نثر نظم سب میں ہوتا ہے صرف مقررہ اصول ہی نہیں ، بلکہ وہ روح و جذبہ بھی کام کرتا رہتا ہے جو ہر فن کی جان ہے۔ شاعری کے سلسلے میں فن، الفاظ کے انتخاب، ردیف، قافیہ، بحر، موسیقیت اور سب سے زیادہ اس مواد میں ہوتا ہے جو پیش کیا گیا ہے اور طرز پیشکش جس میں مواد ڈھالا گیاہے۔ مقالات اور مضامین میں فن اس مقصد کے اتمام میں پوشیدہ ہوتا ہے جس کے لئے وہ لکھا جارہا ہے اور وہ طرزِ ادا جس کے ساتھ وہ پیش کیا گیاہے۔ ناول اور مختصر افسانوں میں فن، کردار نگاری، پلاٹ، ارتقاء، منتہا، اختتام اور مواد و طرز پیشکش میں مخفی ہے، ایسا مواد جو مادی ہو، جسے انسانی حیات سے علاقہ ہو اور اس بات کا اطلاق پورے ادب پر ہوتا ہے اس لئے کہ ادب کا تعلق جتنا براہِ راست زندگی سے ہے اتنا تعلق کسی دوسرے فن لطیف کا نہیں ہے۔ 
ایک محدود طبقہ کے نزدیک ادبی فن اور ادبی محاسن کے معنی ہی بالکل مختلف ہیں۔ ادب کا مطلب اول تو اس طبقہ کے نزدیک صرف شعرخوانی ہوتا ہے جس میں فن صرف لفظی بازیگری، ردیف قافیہ کا کھٹکا، صنعت لفظی، بندش وغیرہ ہوتا ہے۔ مگر یہ خیال صرف متشاعر اور چند ادیب نما لوگوں کا ہے جو ادب کا اصل مفہوم نہ سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب نہ صرف شعر و شاعری ہے اور فن سے مراد صرف ردیف، قافیہ، الفاظ کی تراش خراش اور صنایع لفظی ہیں۔ ادب میں ناول، افسانہ نگاری، داستان، نثر سبھی کچھ شامل ہے اور ان سب چیزوں میں فنکاری موجود ہوتی ہے مگر ادب کے لئے پہلی اور سب سے ضروری چیز مواد ہے جس کی بنیاد کسی مادی خیال پر رکھی گئی ہو ، باقی چیزیں صرف مشاطگی کا کام کرتی ہیں۔ انسانوں کا ادب انسانی زندگی کا عکس ہے اور اس لئے اس ادب کا مواد انسانی سماج ہی اکٹھا کرتا ہے اور پھر اس کو فنکاری کی سان پر چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ماحول اور سماج ادب کی جان اور ادیب کا دماغ ہیں۔ سماج اور ماحول میں خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں، خرابیاں بھی۔ ادب کا مقصد زندگی کو سنوارنا ہے، اس سے آنکھیں چرانا نہیں۔ اس لئے خوبیاں، خرابیاں سبھی کچھ پیش کی جاتی ہیں مگر دیانتداری شرط ہے۔ خرابی پیش کرنے یا اس کا مذاق اڑانے میں اگر اصلاح مقصود ہے تو ایسی خرابی کے بیان کرنے میں چنداں ہرج نہیں مگر جب اس خرابی کو اور گندگی بنا کر محض ذہنی تعیش کے لئے پیش کیا جاتا ہے تب وہ یقیناً تخریبی ہوجاتی ہے جس کا مقصد محض شرارت اور بدنفسی کے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ غلطی خواہ کسی بھی دبستان کے ماننے والے سے سرزد ہو۔ 
ادب کی فنی خصوصی کا ایک پہلو حقیقت نگاری بھی ہے مگر صرف دو اور دو چار والی حقیقت، سائنسی ہوجائے گی اگر فنکار اس کو اپنے تخیل کے سحر میں غرق نہیں کرتا۔ فنکار کے لئے ادب میں سب سے بڑی مشکل یہیں آپڑتی ہے۔ اسے حقیقت سے بھی کنارہ کش نہ ہونا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ پیشکش ایسی ہو جس نے تخیل و محسوسات کی مدد تو لی ہو مگر ہوا میں معلق نہ ہوگئی ہو۔ فلسفہ اور سائنس حقیقت کلی پر یقین رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی دنیا میں ادبی فن کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کو حقیقت سے گریزاں اور بے عمل کہا جاتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں رات صرف ایک مقررہ وقت کے بعد غروب آفتاب ہونے پر جب تاریکی پھیل جائے اس کا نام ہے مگر ادب کی دنیا میں فنکار کی رات اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے، اس سے میخانے میں چلنے کو کہتی ہے، کسی لالہ رخ کے کاشانے کی طرف اس کا دامن کھینچتی ہے۔ اب یہ واقعہ حقیقت سے دور بھی نہیں ہے۔ انسانی دماغ میں بعض اوقات یہ خواہش پیدا ہو تی ہے ، لطف تو یہ ہے کہ سائنس بھی فن ہے اور ادب بھی اور یہ دونوں فن بھی ایک دوسرے میں اس طرح سموئے ہوئے ہیں کہ الگ نہیں کئے جاسکتے۔ ادب کو سائنٹفک ہونا چاہئے جبکہ سائنس پر ادب کے بھی اصول قائم کئے جاتے ہیں۔ 
فن کو صرف ادب، صرف شاعری نہ سمجھ کر اگر اس کے وسیع معنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ لفظ فن کا استعمال کس ضمن میں اور کس موقع پر ہوا ہے۔ اگر ’فن‘ موسیقی کے سلسلہ میں آیا ہے تو وہاں اس سے مراد آواز، سر، تال، نغمہ، راگ، راگنی وغیرہ کا اتار چڑھاؤ اور پھر وہ گیت ہے جس پر موسیقی کے ان لوازمات کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر گیت میں وہ جذبہ جو کسی گیت یا نغمہ کو مؤثر بناتا ہے۔ اگر حقیقت بیں نظروں سے دیکھا جائے تو موسیقی کی روح وہی جذبہ ہے جو کسی گیت میں سمویا ہوا ہے اور جو موسیقی کے ساز پر لوازمات کے ساتھ مل کر دل پر ایک چوٹ مارتا ہے۔ 
اسی طرح رقص صرف آگے بڑھنے، پیچھے ہٹنے، جسم کی گردش، اعصاب کی مختلف جنبشوں کا نام نہیں بلکہ رقص کی روح، رقاصہ یا رقاص کا وجود اور اس کے جذبات ہیں۔ کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتا کہ رقص کا ہیولیٰ اور رقاصہ کی حرکات و سکنات ہی کافی ہوتے تو کٹھ پتلی یا کسی بھی میکانکی رقص میں زیادہ دلفریبی ہوتی اور اگر رقاصہ یا رقاص کی جاذبیت رقص پر اثرانداز نہ ہوتی تو ہر آدمی تھوڑے سے اصول سیکھ کر رقص کرسکتا تھا۔ ادا یا طرز ادا، جس کا نام ہے وہ کٹھ پتلی میں پیدا ہوسکتی ہے نہ اصول رقص میں۔ 
صرف ظاہری فن کہیں بھی کام نہیں دیتا اگر مواد موجود نہ ہو، ایسا مواد جس میں مادی لطافتیں موجود ہوں۔ فن اور مواد ایک دوسرے کے لئے ہر میدان عمل میں لازم و ملزوم ہیں۔ 
(بحوالہ: نئی فکریں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK