ہندی کے معروف ادباء و شعراء کے مطابق ہندی ادب میں موضوعات کا فقدان نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: June 16, 2025, 4:47 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
ہندی کے معروف ادباء و شعراء کے مطابق ہندی ادب میں موضوعات کا فقدان نہیں ہے۔
مختلف زبانوں کے ادب کے موضوعات کا تقابل نہ صرف ادبی رجحانات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ مختلف زبانوں کی تہذیبی، سماجی اور فکری صورت حال کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ہندی ادب کو منتخب کیا جو ہماری ملکی زبان میں لکھا جانے والا ادب ہے۔ اس کے موضوعات کیا ہیں ؟ کون سے موضوعات پر موجودہ حالات میں زیادہ دھیان دیا جارہا ہے اور تخلیق کار کیا سوچتے ہیں، ان سبھی باتوں کا احاطہ کیا گیا تو یہ واضح ہوا کہ ہندی ادب میں سب سے اہم موضوع سیاست اور سماج کے باہمی تعلقات ہیں۔ موجودہ دور میں ادیب صرف تخیل کی دنیا میں مقید نہیں بلکہ وہ زمینی حقیقتوں سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت، انتخابی سیاست، میڈیا کا کردار اور جمہوری قدروں کے زوال جیسے موضوعات پر کئی ناول اور افسانے آئے ہیں۔ خواتین قلمکاروں کی تخلیقات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ عورت کی آزادی، خانگی و بیرونی مسائل اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر کھل کر لکھا جا رہا ہے۔ ان تحریروں میں صرف شکایت نہیں بلکہ مزاحمت، سوال اور تبدیلی کا عزم بھی جھلکتا ہے۔ اس کے علاوہ دلت ادب نے بھی اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔ ماحولیات کا موضوع بھی گزشتہ کچھ برسوں میں ہندی ادب میں خاصی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، پانی کی قلت، جنگلات کی کٹائی اور آلودگی جیسے مسائل شاعری، کہانی اور ناولوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ انسان کی تنہائی، بے مقصدیت اور مشینی زندگی کے خلاف ایک وجودی احتجاج بھی ہندی ادب میں ابھر کر آیا ہے۔
ہندی کے معروف شاعر اور ادیب راس بہاری پانڈےکہتے ہیں کہ’’ شاعری کے مقابلے میں نثر میں کچھ بہتر لکھا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر نئے دور کے نئے موضوعات جیسے ’لیو اِن ریلیشن شپ ‘، شہری زندگی اور اس کے مسائل و مصائب، ماحولیات، خواتین کے موضوعات اور سیاسی و سماجی موضوعات پر ہندی افسانوں، کہانیوں اور ناولوں میں کافی کچھ لکھا گیا ہے۔ سفر نامے بھی کافی اچھے اچھے سامنے آئے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کویتا (شاعری) کے ذیل میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا ہے۔ ‘‘ راس بہاری پانڈے جو ہندی کوی سمیلن کے گرتے ہوئے معیار کے ناقدین میں سے ایک ہیں، کہتے ہیں کہ ہندی کویتا میں آزاد نظموں نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس میں ہر کوئی شاعری کررہا ہے لیکن اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ شاعری نہیں ہے۔ اصل نظم یا غزل کی جانب کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔ ایسے میں جب کسی خیال میں یا بات میں گہرائی نہ ہو تو وہ بہت دیر پا ثابت نہیں ہوتی۔ ہندی کویتا کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔
دیومنی پانڈے۔ تصویر: آئی این این
معروف گیت کار اور شاعر دیو منی پانڈے کہتے ہیں کہ ’’ پورا ملک سوشل میڈیا سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی شاعری سے لے کر نثر تک پر سوشل میڈیا کہیں نہ کہیں چھایا ہوا ہے۔ شاعری میں کچھ نئے موضوعات پر تجربات ہوئے ہیں لیکن اس وقت یہ اتنے قابل ذکر نہیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندی کا نثری ادب بہت عمدہ طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ‘‘ دیومنی پانڈے کے مطابق حال ہی میں ہندی میں کئی اچھی اچھی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں ممبئی کے سینئر شاعر وجے کمار کی ایک کتاب ہے جس میں ممبئی کے بدلتے ادبی، سماجی و سیاسی منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مدھو کانکریا کی کتاب ’ میری ڈھاکہ ڈائری ‘ بھی کافی پسند کی جارہی ہے۔ جتیندر بھاٹیہ نے پوری دنیا کے مشور رائٹرس کی کہانیوں کا ہندی میں ترجمہ کیا ہے جس کا عنوان ہے ’ سوچو ساتھ کیا جائے گا ؟ ‘‘، اس کے علاوہ انہوں نے شمال مشرقی ہندوستان، نیپال، بھوٹان کے سفر ناموں پر مشتمل ایک کتاب بھی تحریر کی ہےجو خاصی پسند کی جارہی ہے۔
اوم پرکاش تیواری۔تصویر: آئی این این
معروف صحافی، شاعر و مصنف اوم پرکاش تیواری کے مطابق ’’ہندی میں موضوعات کی کبھی کمی نہیں رہی ہے اور آج بھی نہیں ہے۔ ہندی ادب کے موضوعات زمانے کی بدلتی قدروں سے ہم آہنگ ہیں۔ لکھا تو بہت کچھ جارہا ہے لیکن اس دوران آزاد نظموں کا زور اور دَور کچھ کم ہوا ہے جبکہ ہندی غزلوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سب سے زیادہ ’نو گیت ‘ لکھے جارہے ہیں جو قارئین پسند بھی کرتے ہیں۔ ‘‘ اوم پرکاش تیواری جو خود ’نو گیت‘ لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہندی کوی سمیلن کے معیار میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ اب وہاں شاعری کم اور چٹکلے بازی زیادہ ہو رہی ہے۔ شاعر اسٹینڈ اَپ کامیڈین بن گیا ہے۔ حالانکہ شاعری کے لئے موضوعات اب بھی کافی اچھے مل سکتے ہیں ۔ ہر چند کہ سماجی موضوعات پر شاعری ہو رہی ہے لیکن ان میں وہ گہرائی نہیں ہے جس کی امید کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کہانیوں کے موضوعات سوشل ہو گئے ہیں جبکہ سفر نامے اور سوانح بھی بہت اچھے سامنے آرہے ہیں۔