Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو اسکولوں میں ہندی اور مراٹھی کا کوئی تنازع نہیں

Updated: July 14, 2025, 1:16 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اہل اردو کو اپنے اسکولوں پر فخر ہونا چاہئےکہ وہ زبان کی سیاست میں پڑے بغیر طلبہ کو پوری تندہی کیساتھ ہندی اور مراٹھی دونوں پڑھارہے ہیں۔

Urdu medium schools can emerge as centers for learning more languages. Photo: INN
اردو میڈیم اسکول زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کے مرکز کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

مغربی سماج میں عمر رسیدہ افراد میں الزائمر اور ڈیمنشیا (نسیان) ایک وبائی شکل اختیار کرچکی ہے۔ وہاں اسے مؤخر کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن بہت سے افراد اس بیماری سے بچے ہوئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہ ایک سے زائد زبانیں جانتے ہیں۔ الزائمر اور نسیان کو روکنے کے سلسلے میں ہزاروں ریسرچ پیپرس شائع ہوچکے ہیں جن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دماغی صحت کو برقرار رکھنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ذہن کو مسلسل چیلنج کیا جائے اور اس کی وسعت میں اضافہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے سب سے مؤثر اور کامیاب طریقوں میں سے ایک ہے نئی زبان سیکھنا۔ نئی زبان سیکھنے کے دوران ہمیں اپنی ذہنی صلاحیتوں جیسے توجہ، یادداشت اور استدلال کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ الفاظ یاد رکھنا، قواعد زبان (گرامر) کو سمجھنا اور ایک اجنبی زبان میں بات چیت کرنا ہمارے دماغی افعال کو مجموعی طور پر بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ زبان ایک طاقتور ذریعہ ہے جو نہ صرف ہمارے سوچنے اور اظہار کے انداز کو تشکیل دیتی ہے بلکہ ہماری یادداشت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے یاد رکھنے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ہمارے تجربات کو دیکھنے اور سمجھنے کے انداز کو بھی بدل سکتے ہیں۔ مختلف تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک سے زائد زبانیں بولنے والے افراد میں الزائمر اور دیگر یادداشت کی بیماریوں کی علامات ’یک زبانی‘ افراد کے مقابلے میں تقریباً ۶؍ سال بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ اتنی طویل تمہید باندھنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ اہل اردو کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اس طرح کی بیماریوں اور سماجی و سیاسی حالات سے متاثر نہیں ہو سکتےکیوں کہ ان کے اردو میڈیم اسکولوں میں ان کے بچے ایک نہیں دو نہیں بلکہ کم از کم ۴؍ زبانیں پڑھتے ہیں اور چاروں ہی زبانوں کی بہت اچھی سمجھ بوجھ حاصل کرلیتے ہیں۔ اہل اردو کو اس بات پر فخر ہو نا چاہئے۔ 
 اب آتے ہیں زبان پر ہونے والی سیاست کی جانب۔ مہاراشٹر، تمل ناڈو اور دیگر ریاستوں میں ہندی کو تھوپنے اور اسے لازمی بنانے کے خلاف پھر سے تحریکیں شروع ہو گئی ہیں۔ ہر ریاست میں اپنی زبان کو فروغ دینے اور اسے بچانے کے نام پر پرتشدد کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں ۔ ہم اس کی قطعی حمایت نہیں کرسکتے کیوں کہ زبانیں تو جوڑنے کا کام کرتی ہیں، ان کی وجہ سے نفرت نہیں بڑھ سکتی بلکہ یہ ایک دوسرے کی تہذیب کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ مہاراشٹر اور ممبئی میں سیاسی طور پر ہندی کی مخالفت میں پرزور مہم چلائی جارہی ہے لیکن اسی ممبئی اور مہاراشٹر میں اردو میڈیم کے سیکڑوں اسکول ایسے ہیں جہاں ہندی اور مراٹھی نہ صرف بہت اطمینان سے پڑھائی جارہی ہیں بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ زبانوں کا آپس میں کوئی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک دوسرے کے ساتھ مثالی تعاون کرتی ہیں۔ اردو میڈیم کے اسکول اس معاملے میں مثالی کہے جاسکتے ہیں کہ ملک کے کسی بھی دیگر میڈیم کے اسکول میں اتنی زبانیں نہیں پڑھائی جاتی ہوں گی۔ اردو میڈیم کے طلبہ اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کہ وہ دیگر کسی بھی میڈیم کے طلبہ کے مقابلے میں ایک زبان زیادہ ہی جانتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا ان کے لئے عمر رسیدگی کی بیماریوں سے مقابلہ محض اس وجہ سے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے اردو میڈیم اسکولوں میں ہندی اور مراٹھی پڑھانے والے کچھ اساتذہ سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ زبانوں پر جاری سیاست سے قطع نظر ہندی اور مراٹھی کی تدریس کیسے ہوتی ہے اور اس کا طلبہ کی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے؟


’’انجمن اسلام کرلا بوائز ہائی اسکول میں مراٹھی پڑھانے والے معلم شیخ سلیم محی الدین نے بتایا کہ ’’اردو میڈیم اسکولوں میں پانچویں سے دسویں جماعت تک یعنی لگاتار ۶؍ سال تک انگریزی اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور مراٹھی لازماً پڑھائی جاتی ہے۔ یہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کا بہترین عرصہ ہوتا ہے۔ اس میں طلبہ بہت بہتر انداز میں ان زبانوں کو سیکھ لیتے ہیں جو ان کی عملی زندگی میں بہت کام آتی ہیں۔ ‘‘ سلیم سر نے بتایا کہ صرف انجمن اسلام کرلا بوائز ہائی اسکول میں پانچویں سے دسویں کے درمیان تقریباً ایک ہزار طلباء ہوں گے جو روزانہ یہ زبانیں پڑھتے ہیں ۔ سلیم سر کے مطابق جہاں تک طلبہ کی شخصیت پر پڑنے والے اثر کی بات ہے تو یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں ایک زبان زیادہ جاننے کا فائدہ ملتا ہے۔ ساتھ ہی ہندی اور مراٹھی دونوں ساتھ میں پڑھنے کا ان کا تجربہ انہیں سماج کا ذمہ دار شہری بناتا ہے۔ 


’’انجمن خیر الاسلام ہائی اسکول تھانے کے معلم تنویر عالم شیخ نے بتایا کہ ’’ دیگر میڈیم کے اسکولوں کے مقابلے میں اردو میڈیم اسکولوں میں مراٹھی اور ہندی پرکافی محنت کی جاتی ہے۔ خود ہماری اسکول میں ہم درسی کتب سے پڑھانے کے ساتھ ساتھ آڈیوویژوئل ذرائع کا بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ بچوں کو زبان کے ساتھ ساتھ تلفظ کی ادائیگی بھی سمجھ آئے اور کون سا لفظ کہاں کیا معنی دیتا ہے وہ بھی طلبہ کے ذہن میں بیٹھ جائے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ طلبہ کو مراٹھی بولنے کی مشق کروانے کے لئے ہر سنیچر کو دو پیریڈ اسی لئے مختص کئے جاتے ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندی اور مراٹھی سکھانے کے معاملے میں اردو میڈیم کے اسکول مثالی ہیں۔ 


’’ ادارۂ انجمن اسلام سے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے معلم سلیم حسن شیخ نے بتایا کہ ’’ اردو اسکولوں میں روزانہ ہندی یا مراٹھی کا ایک پیریڈ ہوتا ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہندی یا مراٹھی والے خود اپنی زبان پڑھانے پر اتنی محنت نہیں کرتے ہوں گے جتنی محنت اردو اسکولوں میں ان زبانوں بلکہ کسی بھی زبان کو پڑھانے کے تعلق سے ہوتی ہے۔ ہمارا پورا زور ان دونوں زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ بڑھانے پر ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کیلئےاس کا ذخیرہ الفاظ انتہائی اہم ہے۔ ‘‘ سلیم حسن، جو وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوشی کے بعد کچھ سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی طلبہ کو مراٹھی پڑھائی ہے، کہتے ہیں کہ اردو میڈیم کے طلبہ کے ذہن بہت زرخیز ہوتے ہیں ۔ عملی زندگی میں وہ نہایت کامیاب بھی ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں ایک سے زائد زبانیں پڑھنے کو ملتی ہیں اور اس بات پر ہم سبھی کو فخر ہونا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK