کچھ موسم آتے ہیں، کچھ چھا جاتے ہیں۔ لیکن گرمی کا موسم ایسا مہمان ہے جو صرف آتا نہیں بلکہ دروازہ توڑ کر آتا ہے، در و دیوار کو جھلساتا ہے اور پھر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے کوئی کرایہ دار بغیر ایڈوانس کے گھر پر قابض ہو گیا ہو۔
EPAPER
Updated: May 19, 2025, 12:52 PM IST | Agency | Mumbai
کچھ موسم آتے ہیں، کچھ چھا جاتے ہیں۔ لیکن گرمی کا موسم ایسا مہمان ہے جو صرف آتا نہیں بلکہ دروازہ توڑ کر آتا ہے، در و دیوار کو جھلساتا ہے اور پھر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے کوئی کرایہ دار بغیر ایڈوانس کے گھر پر قابض ہو گیا ہو۔
کچھ موسم آتے ہیں، کچھ چھا جاتے ہیں۔ لیکن گرمی کا موسم ایسا مہمان ہے جو صرف آتا نہیں بلکہ دروازہ توڑ کر آتا ہے، در و دیوار کو جھلساتا ہے اور پھر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے کوئی کرایہ دار بغیر ایڈوانس کے گھر پر قابض ہو گیا ہو۔ مئی اور جون کے مہینے میں ہمارا حال ایسا ہو جاتا ہے کہ اگر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی گرم تندور سے نکلے ہوں۔ اندر سے بھنے ہوئے اور باہر سے چمک دار پسینے میں ڈھلے ہوئے۔ میری رائے میں گرمی ایک فلسفہ ہے۔ انسان جس طرح محبت میں پگھلتا ہے، اسی طرح گرمی میں بھی پگھلتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ محبت میں شاعری نکلتی ہے اور گرمی میں.....انسان اشرف المخلوقات ہے مگر مئی اورجون کی دوپہر اس ’’اشرافیت‘‘ کو آزمانے کے موسم ہیں۔ جون کی دوپہر تھی، آسمان سے سورج نہیں بلکہ لال سرخ انگیٹھی لٹک رہی تھی، جسے شاید کسی نے ’ہائی‘ پر سیٹ کر رکھا تھا۔ درجہ حرارت جب ۴۵؍ سے اوپر جائے تو انسان انسان نہیں رہتا، بھنا ہوا سیخ کباب بن جاتا ہے۔ ایسے میں ایک سوال ذہن میں بار بار ابھرتا ہے’’ہم آخر انسان ہیں یا آزمائشی مرغیاں؟‘‘ ایئرکنڈیشنڈ دفتروں اور کاروں میں بیٹھے کچھ خوش نصیب جب ہمیں پسینے سے شرابور دیکھتے ہیں تو ہمدردی کے بجائے مشورے دیتے ہیں’’یار! پانی زیادہ پیا کرو!‘‘بھائی! ہم پانی نہیں پی رہے بلکہ اندرونی نظام کو کولر میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گلی میں چلتے ہوئے اگر آپ نے پانی کی بوتل ساتھ نہ رکھی ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بغیر اسلحے کے جنگ میں جا رہے ہوں۔ سورج اتنے جلال میں ہوتا ہے کہ لگتا ہے اُسے ہمارے پچھلے جنم کے قرض واپس لینے ہیں۔ میں خود دوپہر میں گھر سے باہر نکلا تو میرا سایا بھی کہنے لگا: ’’بھائی! تجھے جہاں جانا ہے جا، میں واپس جا رہا ہوں!‘‘عجیب بات یہ ہے کہ ہم گرمی کو برداشت کرنے کے ہزار جتن کرتے ہیں لیکن کامیابی ہمیشہ سورج کی ہی ہوتی ہے۔
ہمارے محلے میں ایک شخص نے کولر کے سامنے چار پنکھے لگا دیے اور کولر کے اندر برف کے ڈبے۔ اگلے دن معلوم ہوا وہ شخص اب بھی پسینے میں شرابور تھا — صرف اتنا فرق پڑا کہ برف جلدی ختم ہو گئی۔ ہماری والدہ محترمہ گرمی میں روحانیت کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ دن بھر وظیفے کرتی رہتی ہیں کہ ’’یا کریم! اے سی کے بغیر زندگی آسان فرما!‘‘ اور ہر وقت یہی کہتی ہیں’’بیٹا! پنکھے کے نیچے بیٹھنے سے گرمی کم نہیں ہوتی، نیت صاف ہونی چاہئے!‘‘
ایک دن سوچا کہ گرمی سے بچنے کا کوئی سائنسی حل ڈھونڈا جائے۔ دوستوں سے مشورہ لیا تو ایک دوست نے کہا’’بھائی! دہی کے ساتھ پیاز کھاؤ، اندر سے ٹھنڈا رکھتاہے!‘‘دوسرے نے کہا’’گھڑے کا پانی پیا کرو!‘‘ تیسرے دوست نے ایک ایپ کی نشاندہی کی جو جسم کا درجہ حرارت بتاتا ہے، — جب ایپ کھولا تو اس نے موبائل بند کر دیا، غالباً وہ بھی گرمی سے تنگ آ چکا تھا۔
پبلک ٹرانسپورٹ گرمیوں میں جہنم کا مفت ٹرائل لگتاہے۔ بس میں چڑھنا گویا بھاپ والے کڑاہے میں چھلانگ لگانا ہے۔ ایک صاحب تو پسینے سے اتنے شرابو ر تھے کہ ان کے کندھے سے میرا ہاتھ پھسل کر نیچے جاگرا۔ اگلے اسٹاپ پر اترتے ہوئے بولے ’’اب کبھی نہاؤں گا تو تمہیں یاد رکھوں گا!‘‘
محلے کی مسجد میں امام صاحب کا پنکھا صرف ان کی کرسی کی طرف چلتا ہے۔ نمازی اگر پنکھے کے نیچے آ جائیں تو امام صاحب کی نگاہ ایسی ہو جاتی ہے جیسے کوئی رقیب سامنے بیٹھا ہو۔ ایک بار پنکھے کے آگے بیٹھنے کی جسارت کی تو خطبہ شروع ہوا ’’آج کے دور میں کچھ لوگ دین کے ساتھ ساتھ پنکھا بھی لینا چاہتے ہیں!‘‘گرمی کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچاننے لگتا ہے۔ آئینے میں چہرہ دیکھ کر سوال کرتا ہے ’’کیا واقعی میں یہی ہوں؟ یا یہ پسینے کا کوئی ورژن ٹو ہے؟‘‘ اور گرمی میں جو نیند آتی ہے، وہ نیند نہیں، بلکہ تھکن کا بیہوشی سے دوستانہ معاہدہ ہے۔ ایک مرتبہ پنکھا خراب ہوگیا۔ سب اہلِ خانہ ہڑتال پر اُتر آئے۔ بچے گرمی سے بلبلاتے رہے، بیگم نے کولر کو طلاق دینے کی دھمکی دی اور میں چھت پر جا کر تاروں کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا مل جائے۔ مگر وہاں بھی گرمی تھی۔
اب رہی بات سوشل میڈیا کی تو وہاں سب لوگ گرمی کو شاعری میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’دھوپ نے آج پھر جلایا، ہمیںیاد آیا کہ اے سی تھا پچھلے مہینے قسط پر‘‘اور کچھ لوگ گرمی میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ جیسے وہ جو ریموٹ کے ساتھ اے سی کے نیچے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہمیں تصاویر بھیج کر کہتے ہیں’’یار، آج تو موسم بڑا پیارا ہے‘‘پطرس بخاری ہوتے تو شاید فرماتے’’یہ گرمی نہیں، انسانیت کا امتحان ہے اور ہم میں سے اکثر فیل ہو چکے ہیں۔ ‘‘آخر میں اتنا کہوں گا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، مگر گرمی اس کی سالانہ سزا ہے —تاکہ’’ اشرافیت‘‘ کا غرور تھوڑا سا پسینے میں دھل جائے۔