دنیا بھر میں ہر سال ۳۰؍ستمبر کو ’’عالمی یوم ترجمہ‘‘ منایا جاتا ہےجس کا مقصد زبان کے اُن ماہرین اور پیشہ ور مترجمین کے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک موقع ہے جو قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے، بات چیت، افہام و تفہیم اور تعاون کو آسان بنانے، ترقی اور عالمی امن و سلامتی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال ۳۰؍ستمبر کو ’’عالمی یوم ترجمہ‘‘ منایا جاتا ہےجس کا مقصد زبان کے اُن ماہرین اور پیشہ ور مترجمین کے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک موقع ہے جو قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے، بات چیت، افہام و تفہیم اور تعاون کو آسان بنانے، ترقی اور عالمی امن و سلامتی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کسی ادبی یا سائنسی کام کی منتقلی، بشمول تکنیکی کام، ایک زبان سے دوسری زبان میں پیشہ ورانہ ترجمہ اور اصطلاحات، بین الاقوامی عوامی گفتگو اور باہمی رابطے میں وضاحت، مثبت ماحول اور نتیجہ خیزی کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہے چنانچہ ۲۴؍مئی ۲۰۱۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قوموں کو جوڑنے اور امن، افہام و تفہیم اور ترقی کو فروغ دینے میں زبان کے پیشہ ور افراد کے کردار کے بارے میں ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے ۳۰؍ ستمبر کو عالمی یوم ترجمہ قرار دیا تھا۔
۳۰؍ ستمبر کی تاریخ طے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسیحی عالم دین اور مؤرخ سینٹ جیروم کی وفات اسی دن ہوئی تھی جن کی شہرت کا سب سے اہم سبب ان کا اناجیل (انجیل کی جمع) کے اکثر حصہ کو لاطینی زبان میں ترجمہ کرنا ہے۔
زبانیں، شناخت، مواصلات، سماجی انضمام، تعلیم اور ترقی کیلئے اپنے پیچیدہ مضمرات کے ساتھ، لوگوں اور کرۂ ارض کیلئے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے کہ ثقافتی تنوع اور بین الثقافتی مکالمے کو یقینی بنانے، سب کیلئے معیاری تعلیم کے حصول اور تعاون کو مضبوط بنانے، جامع علمی معاشروں کی تعمیر اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ نیز سیاسی ارادے کو بروئے کار لانے میں زبانیں ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
عالمی یوم ترجمہ کتنا اہم ہے یہ جاننے کیلئے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ترجمہ کتنا اہم ہے۔ ترجمہ شدہ تخلیقات کا ذوق رکھنے والے قارئین جانتے ہیں کہ ترجمہ کا کتنا فائدہ ہے۔ ترجمہ یعنی ٹرانسلیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ظ انصاری لکھتے ہیں: ’’نئی زبانیں قدیم زبانوں کی انگلی تھام کر چلنا سیکھتی ہیں اور قدیم و جدید زبانیں زیادہ دولتمند ہم عصر زبانوں کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ عمل تاریخ ِتمدن کے ایک باب کی طرح ہمیشہ سے جاری ہے اور ترجمہ ہمارا سب سے اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت یہ عمل آج تک جاری ہے ۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے اور کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے۔ ترجمے ہی کے ذریعے ایک مخصوص ملک، ایک جغرافیائی علاقے اور ایک خاص قوم کی تحقیقات، اس کے علوم و فنون تمام انسانیت کی ملکیت بنتے ہیں۔ اس لحاظ سے ترجمہ کی ذمہ داری کم از کم اتنی اہم ہے جتنی کسی کیمیاوی یا معدنی قوت کو ایک روپ سے دوسرے روپ میں ڈھالنے کی ہوتی ہے۔ سقراط ’’وی مقراطیس‘‘ اور افلاطون کی دو ہزار سال سے زیادہ پرانی کاویشں روما اور یونان کے قدیم کھنڈروں میں دب دبا کر رہ گئی تھیں اگر عربی زبان کے ذی علم مترجم انہیں وہاں سے نکال کر یورپ اور ایشیا کی آخری سرحدوں تک کھلی ہوا میں نہ لے گئے ہوتے۔ بوعلی سینا، ابن رشد اور ابونصر فارابی کے کارنامے یروشلم، غرناطہ اور بغداد کے محاصرے میں دم توڑ چکے ہوتے اگر بعد کی لاطینی زبانوں نے انہیں اپنے یہاں منتقل کرکے تاریخ و فلسفے کے اگلے ورق کے لئے محفوظ نہ کرلیا ہوتا۔ ترجمہ بجائے خود ایک مستقل فن ہے اور اس علم یا فن میں اضافہ بھی ہے جس کی تصنیف کا ترجمہ کیا جائے۔ لیکن اسی کے ساتھ ترجمے کی بدولت اور اس کی خاطر اکثر اضافے کئے گئے ہیں ۔ ہر زبان میں ترجموں کے ذریعے نئے الفاظ، محاوروں، کہاوتوں، ضرب الامثال اور اصلاحات کا اضافہ کرنا پڑتا ہے جو اول اول اکھڑے معلوم ہوتے ہیں، رفتہ رفتہ زبان پر رواں ہونے لگتے ہیں۔ ‘‘