اے مرے دل کہیں اور چل جیسےمتعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والےگلوکار واداکارطلعت محمود ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 12:16 PM IST | Agency | Mumbai
اے مرے دل کہیں اور چل جیسےمتعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والےگلوکار واداکارطلعت محمود ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
اے مرے دل کہیں اور چل جیسےمتعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والےگلوکار واداکارطلعت محمود ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور۱۵؍سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا۔
ان کے والد بھی گلوکار تھے۔ ان کے والداپنی آواز کو اللہ کا دیا ہوا گلا کہہ کر اللہ کو ہی وقف کرنےکی تمنا رکھتے تھے۔ وہ صرف نعت گانے کیلئے مشہور تھے۔ بچپن میں طلعت نے اپنے والد کی آوازکی نقل کرنے ی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ ان کی خالہ ان کی سریلی آواز سنتی تھیں اوران کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نےہی اپنی ضد پرطلعت کو موسیقی سکھانے کیلئےکالج میں داخل بھی کروایا۔ ۱۶؍ سال کی عمرمیں طلعت کو کمل داس گپتاکاگیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘گانے کا موقع ملا اوریہ نغمہ لکھنؤمیں کافی مشہور ہوا۔ تقریباً ایک سال بعد معروف ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی کی ٹیم کلکتہ سےلکھنؤ پہنچی اور پہلے ان کے دو گانے ریکارڈ کئے۔ پھر اس کے بعد طلعت کے چار اور گانوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے:شاہ رخ خان کی ’’کنگ‘‘ میں دپیکا پڈوکون نظر آئیں گی، سچن جگر موسیقی ترتیب دیں گے
لیجنڈگلوکارطلعت محمود نے بطوراداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کےجوہر بھی دکھائے۔ بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں ‘، ’جلتے ہیں جس کے لیے‘، ’اے غمِ دل کیا کروں ‘، ’پھر وہی شام وہی غم‘، ’شامِ غم کی قسم‘، ’حسن والوں کو‘، ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ‘، ’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘، ’تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی‘، ’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘، ’اے میرے دل کہیں اور چل‘، ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان‘، ’اتنا نہ مجھ سے تو پیاربڑھا‘، ’راہی متوالے ‘، ’زندگی دینے والے سُن‘، ’دیکھ لی تیری خدائی‘، ’ہم درد کے ماروں کا‘، ’اندھے جہان کے اندھے راستے‘، ’کوئی نہیں میرا اس دنیامیں ‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا‘، ’دلِ ناداں تجھے ہواکیاہے‘، ’بے چین نظر بے تاب جگر‘، ’آئی جھومتی بہار‘، ’ہوکے مجبورمجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران پلے بیک سنگنگ کا ابتدائی دور تھا۔ اس سے قبل بیشتر اداکار اپنے گانےخود ہی گاتے تھے۔ کندن لال سہگل کی شہرت سےتحریک پاکر طلعت بھی گلوکار-اداکار بننے کے لئے کولکتہ پہنچے جو اس وقت ان سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ کولکتہ میں طلعت کی شروعات ایک بنگلہ گیت سے ہوئی۔ ریکارڈنگ کمپنی نے گلوکار کے طور پر ان کو تپن کمارکے نام سے ان کے گانے ریکارڈ کئے۔ تپن کمار کےگائے ہوئے سو سے زائد نغمے ریکارڈوں میں آئے۔ طلعت محمود کو ۱۹۹۲ءمیں فلم فیئرایوارڈ بھی ملا اور حکومت ہند نےپدم بھوشن ایوارڈ سےبھی نوازا۔ ۹؍مئی۱۹۹۸ءکوممبئی میں طلعت محمود کا انتقال ہوا، تاہم آج بھی ان کےنغمے دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔