• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اردو ادب کی نایاب شخصیت سکندر احمد

Updated: November 23, 2025, 4:53 PM IST | Dr Humayun Ahmad

انہوں نے ادب کے اَدق معاملات کو زیر بحث لاکر اردو کے اعلیٰ حلقوں میں اس وقت تپش اور توانائی کی لہر دوڑا ئی جب ایسے ٹیڑھے مسائل پر قلم اٹھانے والے بمشکل انگلیوں پر گِنے جاتے تھے۔

There are many shining examples of scholarly debate in the writings of Sikandar Ahmed. Photo: INN
سکندر احمد کی تحریروں میں علمی معرکہ آرائی کی درخشاں مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ تصویر:آئی این این
سکندر احمد نے اردو کو  دعوت مقابلہ والے مزاج کا حسن بخشا ہے۔  ادب کے اعلیٰ حلقوں میں حرارت پیدا کرنے والے سکندر احمد زندہ ہوتے تو آج ان کی عمر سرسٹھ سال ہو تی۔  ادب کے عظیم نکتہ داں کی حیثیت سے سکندر احمد (۲۷؍نومبر ۱۹۵۸۔ ۵؍مئی ۲۰۱۳) کو عرصہ دراز تک  یاد کیاجائے گا۔ ان کے مضامین کو اردو زبان کے کلاسیک یا اَدبُ العالیہ کا مقام حاصل ہے۔ انہوں نے  رمز آمیز تحریر کو قابل فہم عبارت میں سرایت کرنے کا استثنائی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ فکشن، تنقید، عروض، لسانیات و صوتیات جیسے مشکل موضوعات پر ہلچل پیدا کردینے والے مثالی مضامین لکھ کر سکندر احمد اردو زبان کی شناختی علامت (Icon) بن چکے ہیں۔ جہاں ذوق جستجو ہوگا وہاں نئی دریافت بھی ہو گی۔
یہ سکندر احمد ہی ہیں جنہیں اردو عروض کی پہلی کتاب کی دریافت کا شرف حاصل ہے۔ (ص:۳۶۴، نئے تنقیدی زاویے )۔ یہی سبب ہے کہ سکندر احمد کو اردو ادب میں ندرت کا مقام حاصل ہے۔ بین اللسانی حوالہ جات کا عظیم الشان ذخیرہ اور عین وقت ضرورت ان کا لائق ِ ذکر استعمال سکندر احمد کی شانِ خط میں شامل ہے۔ مشقت طلب اور مہارت طلب ادق ادبی معاملات میں اپنی سالم اور کامل طبع زاد  رائے کے لئے وہ ہمیشہ یاد کئے جائینگے۔ 
سکندر احمد اردو ادب کی دنیا میں ذرادیر سے آئے اور جلد رخصت بھی ہو گئے۔ ظاہر سی بات ہے ان کی ادبی خدمات کا وقت مختصر رہا۔ مگر کم وقت میں اردو داں حلقوں میں  جیسی حرارت اور جتنی توانائی انہوں نے تزریق (Infuse) کی ہے اسے ایک سخن شناس کی زبان میں ادبی انقلاب کہاجائے گا۔ تنقید کے فطری تقاضے کے عین مطابق سکندر احمد کی تحریروں میں علمی معرکہ آرائی کی درخشاں مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اسلوب کو دیکھیں تو ان کی زبان سہل تھی مگر تیز جملوں اور تیکھے الفاظ کے لئے پہچانے جاتے ہیں۔ اپنے اُسلوب کی قوت کشش سے سکندر احمد نے خشک موضوعات میں بھی تازگی بھری ہے  باوجودیکہ مطمئن کرنے والے ان کے کمال تحقیق اور زورِ استدلال سے سنجیدہ متن  ذہن میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ 
سکندر احمد کی تحریروں کی اشاعت کے شروعاتی ادوار کا جائزہ لیاجانا چاہئے ۔ گزشتہ صدی کی آخری اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی کو ہم سکندر احمد کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ انہوںنے ادب کے اَدق معاملات کو زیر بحث لاکر اُردو کے اعلیٰ حلقوں میں اس وقت تپش اور توانائی کی لہر دوڑا ئی جب ایسے ٹیڑھے مسائل پر قلم اٹھانے والے بمشکل انگلیوں میں گِنے جاتے تھے۔ ہاں، یہ اور بات ہے جب گنگا ایک بار بہہ نکلی تو بنارس سے لے کے پٹنہ تک ڈبکی لگانے والوں کی قطار لمبی ہونے لگی ۔ آج کل فکشن ، لسانیات، تنقید ، افسانویت ،عروض وغیرہ پر تحریریں کافی نظر آنے لگی ہیں۔ 
سکندر احمد کی جداگانہ خصوصیات توجہ کو مائل کرتی ہیں۔ ذرا غور کریں،سائنس کا طالب علم، کیمسٹری آنرس میںبی ایس سی اور دلّی یونیورسٹی سے لاء گریجویٹ کی ڈگری، اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں ڈپٹی جنرل منیجر کا عہدہ اور گزر جانے کے بعد عالمِ ادب میں ماتم کی لہر!  ان باتوں کا آپس میں میل نہ ہونا ان کی ادبی ذہانت کو مزید غیر معمولی بنا دیتا ہے۔ ادب کی جانب ان کی حدِ انتہا کی کشش کی خاص بڑی وجہ خاندانی وراثت تھی۔ سکندر احمد کے والد ڈاکٹر طاہر حسین دیالپوری ایک سرکاری ہسپتال میں معالج کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ایک مشہور مصنف بھی تھے۔
۵۲۔۱۹۵۱ءمیں طاہر دیالپوری کے نام سے ان کے دو ناول ’’نیلام ‘‘ اور ’’کشمکش ‘‘ نسیم پریس، لاٹوش روڈ، لکھنؤ سے شائع ہوئے تھے۔  علاوہ ازیں پچاس کی دہائی میں اس وقت کے مشہور رسالوں  مثلاً  ماہنامہ حریم لکھنؤ،  ماہنامہ کرن گیا،  فروغ اردو لکھنؤ،  ماہنامہ اشارہ وغیرہ میں طاہر دیالپوری کے افسانے تسلسل اور تواتر کے ساتھ آتے رہتے تھے۔ 
عالم نقوی کا  ’’اردو کے بے غرض مجاہد: سکندر احمد ‘‘  کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا۔ (تفہیم کتابی سلسلہ ۱۴۔ سکندر احمد نمبر  راجوری جموںکشمیر، صفحہ ۱۵) اسلام آباد پاکستان کے محمد حمید شاہد رقم طراز ہیں: ’’سکندر احمد نے خشونت سنگھ کے ایک مضمون کے جواب میں اردو زبان اور رسم الخط کا کامیاب دفاع کیا ہے جس میں خشونت سنگھ نے اردو والوں کو اپنا رسم الخط چھوڑ کر دیوناگری لیپی اپنالینے کا مشورہ دیا تھا۔‘‘ (نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۱۲) محمد حمید شاہد کی فراہم کردہ معلومات سے ایسا لگا کوئی عالم نقوی والے عنوان کے حق میں گواہی دے رہا ہے۔ سکندر احمد کا یہ عالمانہ مضمون ’’اردو رسم الخط: مسائل اور امکانات ‘‘معاصر رسالہ اردو ادب۔  نئی دہلی (جولائی ۔ اگست ۔ ستمبر ۲۰۰۷) میں موجود ہے جس میں انہوں نے پُر مغز طریقے سے سائنٹفک وجوہات کی بنا پر بھی اردو رسم الخط کی افادیت کا لوہا منوا یا ہے ۔ 
طلسمات عروض اردو ادب کی پونجی میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ اسد ثنائی کے الانصار پبلی کیشنز حیدر آباد سے سکندر احمد کے تیرہ عروضی مضامین پر مشتمل یہ کتاب ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی۔ بار بار پڑھنے کے لائق سکندر احمد کے قلم کا ایک ایک مضمون ناقابلِ یقین حد تک غیر معمولی ہے، مثلاً وقفہ اور عروضی وقفہ،  قافیہ ، کچھ ردیف کے بارے میں،  رباعی کا وزن،  اردو عروض: تواتر و تغیر  وغیرہ۔ اردو کی تمام بڑی ہستیاں علم عروض کے معاملے میں بڑے انہماک سے سکندر احمد کو بالاترین تسلیم کرتی ہیں۔ مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں جب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قلم سے یہ بات نکل آئے: ’’ ان جیسا ذی علم و ادراک ماہر عروض ہمارے یہاں اب شاید ہی پیدا ہو۔‘‘ (طلسماتِ عروض صفحہ ۲۰) 
ادب کے مشکل مسائل کے بنیادی نکات سے روگردانی کی روش کو سکندر احمد نے روکنے کاکام کیا ہے۔ ان کے مطبوعہ  مضامین کی اولین اشاعت کے ادوار پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے ایک وقت عروض کی پیچیدہ باریکیوں تک عدم رسائی کی مجبوری میں انہیں غیر ضروری قرار دینے کا فیشن عام ہو گیا تھا۔ بے حسی کے خشک موسم میں سکندر احمد نے عروض کی تشنہ فریاد کو محسوس کیا۔ یوں ان کی بروقت آبیاری سے علم عروض میں نئی جان آئی۔ 
لسانیات کی طرف رخ موڑیں تو مذکر مؤنث کے تعین کا قضیہ ادب کی دنیا میں پانی پت کامیدان رہا ہے ۔ ’’ الفاظ کی تذکیرو تانیث‘‘ کے عنوان سے اٹھائیس صفحوں پر مشتمل نئے تنقیدی زاویے میں ان کا وسیع اور جامع مضمون موزوں اور حتمی نتیجے کے اعتبار سے اردو والوں کے لئے روشنی کا مینار ہے ۔ اردو میں ہمزہ (ء ) ایک ایسا حرف تہجی ہے جس کے لکھنے بولنے اور استعمال کے طریقے پر الجھن اور اختلاف رہا ہے۔ اس علمی تنازع پر سکندر احمد کا ایک اعلیٰ معیاری تفصیلی مضمون ’’ہمزہ اپنے اصل کے تناظر میں ‘‘  شب خون، دسمبر ۱۹۹۹ء میں پہلے شائع ہوا جو اَب نئے تنقیدی زاویے میں بھی شامل ہے۔ از روئے لسانیات تحقیق و دلائل کی بنیاد پر مستند نتیجوں تک پہنچنے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔
لسانیاتی گہرائی کی تہہ میں جاکر سکندر احمد کا یہ گرہ کھولنا ’’…غالب کو صوتی اور نحوی معاملات میں مستند نہیں کہہ سکتے‘‘ (نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۸۴) ذہن کو متحرک کرتا ہے۔ سکندر احمد کے اخذ کردہ ایسے فیصلہ کن نتائج نہ صرف لائق فکر ہیں بلکہ دعوت فکر کے ماخذ بھی ہیں۔ علم اصوات یا صوتیات (Phonetics) کے موضوع پر اردو میں لکھنے والوں کی بڑی قلت ہے۔ کسی خاص زبان کی گفتاری آوازوں کے نظام والے اس میدان میں بھی سکندر احمد نے حیرت انگیز معلومات سے ذہنوں کو منور کیا ہے۔ اُن کا مضمون ’’اردو صوتیات: اصل کا تناظر‘‘ (جامعہ ۲۰۰۴ء جنوری، فروری، مارچ اور ساتھ میں نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۱۹) کو آواز کی جنبش اور تلفظ کی ادائیگی پر کڑی نظررکھنے والے ذرا غور سے پڑھیں اور پڑھ کر غور کریں۔ ہوش اڑا دینے والی ان کی علمی ذہانت کو دیکھ کر ذہن حیران ہوجاتا ہے۔
(اس طویل مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK