Inquilab Logo Happiest Places to Work

’ہارٹ لیمپ‘ خواتین کی زندگی، جدوجہد اور خوابوں کو پیش کرنے والا ادبی کارنامہ

Updated: May 25, 2025, 12:41 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

۲۰۲۵ء کا بُوکر انعام پانے والی کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی کتاب ’’ ہارٹ لیمپ‘‘ کا ایک جائزہ جو اِن دنوں عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ وہ ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن اور پیشے سے وکیل ہیں۔ یہ انعام اُن کی خدمات کا بڑا اعتراف ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

۲۰؍مئی کو کنّڑادیبہ، بانومشتاق کی کتاب Heart Lamp (چراِغ دل)کو ۲۰۲۵ء کے بین الاقوامی بوکر انعام سے نوازا گیا۔ اس خبر نے ہندوستان بھر کے شائقینِ ادب کو خوشی سے سرشار کردیا۔ پچاس ہزار پاونڈ یعنی تقریباً ساڑھے ستاون لاکھ روپوں کی انعامی رقم میں اس کتاب کی انگریزی ترجمہ نگار دیپا بھاشتی بھی برابر کی حقدار ہیں۔ اس باوقار اعزاز کے لئے ہارٹ لیمپ کے نامزد ہونے سے پہلے بانو مشتاق، کرناٹک سے باہرغیر معروف تھیں۔ اب عمر کے ۷۸ ویں سال میں ان کا نام دنیا میں گونج رہا ہے۔ وہ اروندھتی رائے اور گیتانجلی شری جیسی بلند پایہ بھارتی ادیبوں کی صف میں شامل ہو چکی ہیں۔ انہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کنّڑ زبان اور مختصر کہانیوں کے مجموعے کو اس انعام کےلئے منتخب کیا گیا۔ بانو کی تعلیم کا آغاز ضلع ہاسن کی ایک اردو اسکول سے ہوا۔ والد کا تبادلہ شموگہ ہوا تو کنّڑ اسکول میں داخلہ لینا پڑا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ وکالت اور سماجی تحریکوں میں شرکت کرنے لگیں۔ کنّڑ رسائل و جرائد میں لکھنے لگیں۔ ناانصافی پر احتجاج بچپن ہی سے مزاج کا حصہ تھا۔ کنّڑ ادب کی ’بنڈایا‘‘ یعنی باغی تحریک سے وابستہ ہوئیں۔ اس تحریک کے ذریعے، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے لئے سماجی اور اقتصادی انصاف کی آواز اُٹھائی۔ مسلمانوں میں سماجی اصلاحات کیلئے کوششیں کیں۔ مسلم خواتین کے لئے مسجدوں میں جگہ کی وکالت کی تو سن ۲۰۰۰ میں تین ماہ کا سماجی بائیکاٹ جھیلنا پڑا۔ ایک شخص نے چاقو سے حملہ کردیا۔ بانو کے شوہر نے ان کی جان بچائی۔ دو برس قبل کرناٹک کی باحجاب لڑکیوں کے کالج میں حقِ تعلیم کے لئے بھی بانو نے آواز بلند کی۔ 
بانو مشتاق کی کہانیوں میں روزمرہ کی دیہی زندگی، پنچایت کے نظام، گھریلو تشدد، خواتین کی خاموش بغاوت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی جھلک ملتی ہے۔ اسلوب کی سادگی اور علامت نگاری، کمال کا تاثر نقش کرتی ہیں۔ بانو ایک سماجی شعور رکھنے والی جری اور حساس افسانہ نگار ہیں - ہارٹ لیمپ کی کہانیاں مسلم عورتوں کے جذبات و احساسات کو بیان کرتی ہیں۔ بانو باغی ضرور ہیں لیکن لاتعلقی کا اظہار کرکے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے کمیونٹی کو خود احتسابی اور اصلاحِ حال کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ 
بانو نے جس کہانی کے عنوان کو کتاب کا عنوان بنایا یعنی ’’ چراغِ دل‘‘، وہ مہرُن نامی ایک عورت کے گِرد گھومتی ہے۔ اس کا شوہر عنایت اول اول تو مہرن پر فریفتہ رہا۔ مہرن نے اس کی ہر خواہش پوری کی۔ سر تا پا چراغ بن کر جلی اور عنایت کے دل کو منور کیا۔ یکے دیگرے اسے پانچ بچے دیئے۔ اسکے باوجود شادی کے سولہ برس بعد عنایت نے کسی نرس کے ساتھ کے تعلقات بنالئے۔ ایک دن مہرن اپنے شیر خوار بچےکے ساتھ گھر چھوڑ کر میکے چلی آتی ہے جہاں اس کا ساتھ دینے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ بھائی اسے پھر سے شوہر کے گھر چھوڑ آتا ہے۔ اس کی بڑی بیٹی سلمیٰ دسویں کے امتحان کی تیاری مصروف ہے اور کم عمری میں بھی اپنی ماں کے رنج و غم سے واقف ہے۔ اس ذہنی کشمکش میں مہرن خودکشی کا ارادہ کرتی ہے۔ 
اس کہانی میں مہرن کی نفسیاتی کیفیت اور اُسکی سوچ پر حاوی عوامل کی پیچیدگی بڑی سادگی سے بیان کی گئی ہے۔ شوہر کی چالاکی کہ پانچ بچوں کی ماں آخر کیا بگاڑلےگی؟ مہرن کے کسی اقدام کا ایک جوان بیٹی اور دو بن بیاہی بہنوں کیلئے رشتوں کے حصول پر کیا اثر پڑےگا؟ ایک شام جب گھر میں چراغ روشن ہونے لگتے ہیں تو مہرن کے دل کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ وہ مٹی کے تیل کا انتظام کرتی ہے۔ رات جب بچے سو چکے ہوتے ہیں اور پڑھائی کرتے ہوئے سلمیٰ کی آنکھ بھی لگ جاتی ہے تو مہرن اپنے شیر خوار کو ہال میں سلا کر کمرے میں آتی ہے اور اپنے ارادے کی تکمیل کی طرف بڑھتی ہے۔ پھر جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے قارئین کو خود پڑھنا چاہئے۔ 
ہارٹ لیمپ کی کہانیوں کے مرکزی کردار مسلمان ہیں۔ ہر افسانے میں معاشرے کی عادات و اطوار پر گہری چوٹ بھی کی گئی ہے۔ ان کے کردار آئینہ دکھاتے ہیں۔ تو کیا وہ مسلم معاشرے پر اسکے مسلم ہونے کی وجہ سے تنقید کرتی ہیں ؟ دیپا بھاشتی کہتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ بانو نے ان سے کہا کہ یہ کسی ایک کمیونٹی کا معاملہ نہیں۔ شکل و صورت کی تبدیلی کے ساتھ مسائل ہر جگہ یکساں شدت سے قائم ہیں اور وہ انہیں مسائل پر لکھتی ہیں ۔ 
’’کالے ناگ‘‘ ایک مظلوم عورت اشرف کی کہانی ہے۔ تین بیٹیاں ہونے کی وجہ شوہر نے اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ وہ کسی گھر میں کام کی خاطر جاتی ہے جہاں اس کی ملاقات زلیخا بیگم نامی ایک خاتون سے ہوتی ہے جو ہمیشہ مطالعے میں مگن رہتی ہے۔ زلیخا، اشرف کو تفصیل سے بتاتی ہے کہ اﷲ اور رسول نے اس کے حقوق متعین کر رکھے ہیں اور اسکو ان پر اصرار کرنا چاہئے۔ وہ مظلوم عورت انصاف کی خاطر اپنی بیٹیوں کے ساتھ مسجد کے صحن میں جاکر بیٹھ جاتی ہے۔ کہانی کا اختتام بڑا دردناک لیکن متاثر کن ہے۔ خصوصاً متولّی کے بروقت مداخلت نہ کرنے پر گاؤں کی عورتوں کے لعن طعن کا منفردانداز۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کہانی نہیں پڑھ رہے بلکہ کسی پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے اس میں کھو گئے ہوں ۔ 
کہانی ’’بارانِ آتش‘‘ میں مسجد کے متولّی سے اُن کی شادی شدہ چھوٹی بہن جمیلہ، والد کی وراثت میں اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہے۔ متولّی عثمان صاحب کی بیوى عارفہ اس بات کے حق میں ہے بہنوں کو اُن کا حصہ ادا کردیا جائے۔ متولی کے ذہن میں کوے کائیں کائیں کرنے لگتے ہیں۔ کہانی بیحد دلچسپ ہے۔ متولّی مقامی مسلم لیڈرشپ (یا ڈیلرشپ جو بھی کہئے) کے منصب پر فائز ہے۔ پولیس کے ذریعے ایک لاوارث لاش کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنے پرمتولّی احتجاجی تحریک برپا کردیتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں، وراثت میں حصہ طلب کرنے والی جمیلہ اپنے حق سے دستبرداری کیلئے تیار ہوجاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے دل میں، اپنے بھائی سے حق طلب کرنے کی خواہش نہیں تھی۔ وہ اپنے شوہرکے دباؤ میں ایسا کر رہی تھی۔ کیا یہ کہانی کا کمزور پہلو نہیں ؟ گویا عورت اپنے حق کے لئے بھی اس وقت اٹھے جب اسے مرد اُکسائے !
راقم نے خود سے سوال کیا کہ ایسے حالات میں جب دنیا کی فکری روِش فیمینِزم کے پلڑے میں وزن کے سارے پاٹ رکھنا چاہتی ہے تو اس رو میں جو کچھ تخلیقی کام ہورہا ہے وہ مصنوعیت کا ایک عنصر لئے ہوئے نہیں ہے کیا؟ جواب تھا کہ ہاں ایسا ہے۔ یعنی یہ کہ ادیب کے پاس، معاشرے کی ہیئت اور تقسیم کار کے متعلق ایک سکہ بند نکتۂ نظر موجود ہو، پھر وہ کرداروں کی تلاش کرکے پلاٹ پر چسپاں کرے اور ایک افسانہ تیار کردے تو اس ادب کو کیا کہا جائے ؟ جواب تھا کہ یہ اعتراض قابل اعتنا ضرور ہے لیکن ادب کے نقاد یہ طے کریں کہ ہارٹ لیمپ اس لحاظ سے کس پوزیشن پر نظر آتا ہے۔ راقم تو دونوں کانوں کو ہاتھ سے چھو کر یہ کہے گا کہ فکشن پر تنقید کرنے کی اُسکی حیثیت نہیں۔ ہاں اُسے اُن کہانیوں میں معاشرے کا عکس نظر آیا۔ 
اس کتاب کی مترجمہ دیپا بھاشتی کا کام بھی قابلِ تعریف ہے۔ کتاب کے آخر میں انہوں ایک بصیرت افروز نوٹ لکھا ہے۔ ترجمہ نگاری اپنے اندر ایک کارِدشوار ہے۔ ترجمہ محض ایک زبان کے لفظ کو دوسری کے شبد سے بدلنے کا نام نہیں۔ ہر زبان کے پاس اظہار کے منفرد طور طریقے ہوتے ہیں، اپنے مخصوص محاورے جن میں بڑا عمیق تہذیبی علم پوشیدہ ہوتا ہے۔ مترجم کو ان تمام باریکیوں کا ادراک ہونا لازمی ہے۔ ساتھ ہی اس کام کیلئے درکار ہُنر بھی خاطر خواہ مقدار میں موجود ہو۔ دیپا نے اپنےحسنِ کارکردگی کے ذریعے بانو کے کام کو عالمی منظر نامہ پر لا کر رکھ دیا۔ بانو مشتاق کی اِس شہرت میں دیپا بھاشتی بجا طور پر برابر کی شریک ہیں۔ 
’’ہارٹ لیمپ‘‘ ایک ایسا ادبی کارنامہ ہے جو خواتین کی زندگیوں، ان کی جدوجہد اور ان کے خوابوں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی لحاظ سے اہم ہے بلکہ سماجی شعور بیدار کرنے میں بھی مؤثر ثابت ہوگی۔ یہ کاوش ایک قیمتی اثاثہ ہے، جو ہمیں جنوبی بھارت کی مسلم خواتین کی دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ بوکر جیسے باوقار انعام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مقام، مرتبے اور شہرت کے لئے بانو مشتاق اور دیپا بھاشتی کو مبارکباد- کتاب خریدئیے اور ضرورپڑھئے۔ ہارٹ لیمپ کے کردار آپ کو اپنے اطراف چلتے پھرتے نظر آجائینگے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK