Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ’رثائی اَدب‘ صارفیت کی زد پر ہے؟

Updated: July 06, 2025, 11:59 AM IST | Sayed Mohammad Aqeel | Mumbai

نئی نسل کے قارئین کیلئے بتا دیں کہ ’’رثائی‘‘ بنا ہے ’’رثا‘‘ سے جس کا معنی ہے مرثیہ بالخصوص شہدائے کربلا کا مرثیہ۔ اس موضوع پر لکھا گیا ادب رثائی ادب کہلاتا ہے۔ زیر نظر مضمون ایک افسوسناک رجحان کا احاطہ کرتا ہے جس کا تعلق بے توجہی اور شہرت پسندی سے ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں تو صورتحال اور بھی مختلف ہوگئی ہے۔

Now, audiences pay more attention to the inflections of the voice, the melody, the lay, and the physical makeup than to the narration of events and the art of poetry. Photo: INN.
اب سامعین، بیان ِ واقعہ اور جملہ فنون شاعری سے زیادہ آواز کے اتار چڑھاؤ، دھن، لَے اور ظاہری میک اَپ پر دھیان دیتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

رثائی ادب پر صارفیت (کنزیومرازم) کا اثر شروع ہوچکا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ سماجی ڈھانچے کے ساتھ، غم حسینؓ کا ادراک بھی اس نئی سوسائٹی میں بدلے گا بلکہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ اظہار غم اور غم کی پیشکش کے طریقے بھی یہ نئی سوسائٹی اپنے طور پر بنا رہی ہے جس میں رثائی ادب کی غرض و غایت، اس کا تاثر، تاثر دینے کا طریقہ اور بیان سب کچھ بدل رہا ہے۔ یہ صورت ۱۹۵۲ء کے بعد سے رونما ہوئی ہے جب سے ہندوستان میں زمینداریاں اور رجواڑے ختم ہوئے ہیں۔ غم حسینؓ صرف مڈل کلاس اور نئے دولت مند طبقے کے طور طریقوں سے منائے جانے کا متقاضی نظر آتا ہے۔ یہ نئے طبقے اپنے بنائے ہوئے طریقے تقریباً Dictates کی طرح رائج کررہے ہیں جو بڑی خاموشی سے ماتم حسین اور رثائی ادب میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان میں دو ایک صورتیں بہت واضح ہیں۔ مثال کے طور پر دولت کا پھوہڑ اظہار اور اظہار غم والے ادب کا ان صورتوں سے بنتا ہوا نیا ماحول اور موڈ۔ اب غم حسین میں حزن اور جانکاہی کے مقصد کے بجائے، فضائل اور مدحیہ صورتیں فوکس ہوکر داخل ہورہی ہیں کہ اظہار دولت میں ’اظہاریت‘ پر ہی زور ہوا کرتا ہے ضرورت اور اہمیت پر نہیں۔ رثائی واقعات اور ادب کا Culmination تو نہیں بدلے گا کیونکہ پھر تو ساری سٹنگ ہی بے معنی ہوجائے گی۔ اگر امام کے مصائب کربلا اور محرم کو رثائی ادب سے الگ کردیا جائے تو پھر ساری پیشکش محض محفل فضائل میں بدل جائے گی۔ اس لئے ’تحسین‘ کی نئی صورت جو پیدا ہوئی ہے اس میں مرثیے اور نوحے، مُبکی ہونے سے زیادہ سلام اور ہدیۂ عقیدت کے طور پر پروان پا رہے ہیں اور اس طرح رثائی ادب غم کی گہرائی اور چوٹ کو چھو ڑ کر لائٹ موڈ کی فضا میں جارہا ہے جہاں غم کی چاشنی بہت ہلکی ہے اور تحسین و آفریں کی صورتیں گہری (کہ آخر دولت خرچ کرنے والا لوگوں کو یہ خرچ دکھا کر تعریف بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، وہی صارفیت والا مزاج اور قانون)۔ 
نوحے یوں بھی غزل کے فارم میں ہوتے ہیں مگر اب ان میں آہ و شیون کے بجائے شعراء ایسے بیانات شامل کررہے ہیں جہاں شعراء کی تعریف و تحسین کے مواقع زیادہ آئیں۔ یہ بھی شاید اُسی دولت کے پھوہڑ پن والے اظہار کا ادبی رخ ہے۔ (جب مطمح نظر غم حسین سے زیادہ بعض صورتوں میں صرف دکھاوا ہو تو شاعرو ادیب اس سماجی ماحول سے کیونکر متاثر نہ ہوں ؟) نتیجہ یہ ہے کہ رثائی شعری ادب سے اب ’تاثیر‘ غائب ہورہی ہے خصوصاً غم و الم کا اثر۔ جہاں پہلے، حالات اور واقعات پر گریہ اور بکا ہوا کرتا تھا، مصائب ِ امام سن کر عوام الناس روتے تھے وہاں اب ’’واہ واہ‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ زیادہ تر نوحوں اور سلاموں میں صرف ِ الفاظ، ردیف و قافیے، تراکیب وغیرہ کا لحاظ نہیں ہوتا کہ فن کے احترام پر نظر نہیں ہے۔ 
اصل یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہی صارفیت والا عمل یہاں بھی اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ مالِ تجارت اور گرمی ٔ بازار پر نظر رکھنے والی رثائی ادب کی نئی سوسائٹی فن و فکر اور شاعری کے اصولوں سے زیادہ اپنے مال کی کھپت کی سماجی فضا یعنی سامعین کی پسند پر نظر رکھتی ہے، اور چونکہ بیشتر سامعین، کم از کم ہندوستان میں، اب اردو ادب، اس کی تہذیب و تحریم اور نیرنگیوں سے بے خبر ہوتے جاتے ہیں، اس لئے انہیں ان صورتوں سے زیادہ غرض بھی نہیں۔ سامعین، بیان ِ واقعہ اور جملہ فنون شاعری سے زیادہ اب آواز کے اتار چڑھاؤ، دھن، لَے اور ظاہری میک اَپ پر دھیان دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ان نوحوں کے کتابچے بھی چھپتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ان نوحوں کو فلاں فلمی گانے یا فلاں قوالی کی دھن پر پڑھا جائے۔ راقم الحروف نے ایسے ددو ایک کتابچے رکھ چھوڑے ہیں جن پر یہ تحریر موجود ہے۔ تو کیا غم ِ حسین کا تصور بدل رہا ہے؟ اور رثائی ادب ایک طرح کی تفریح (انٹرٹینمنٹ) میں تبدیل ہورہا ہے؟
نئے صارفی سماج کے ساتھ اس تصور کا آجانا کوئی عجیب بات نہ ہوگی کیونکہ تقریباً پوری اردو شاعری پر یہ فضا حاوی ہورہی ہے۔ اِدھر جو اردو غزل اور خاص طور سے آل انڈیا مشاعروں کا احیاء ہوا ہے اس میں بھی یہ صورت بہت واضح ہے۔ جو لوگ اردو نہیں سمجھتے وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے مشاعروں میں اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ کچھ تفریح کا سامان مہیا ہو۔ پہلے بھی ایسے لوگ مشاعروں میں آتے تھے مگر ان کا مقصد تفریح نہیں بلکہ اردو تہذیب سے واقفیت حاصل کرنا ہوتاتھا۔ ’’غزل گائیکی‘‘ کی اصطلاح جو بہت نئی ہے، اسے اعتبار حاصل ہورہا ہے۔ رثائی تخلیقات میں اس تبدیلی کا تجزیہ کرنا تو ابھی شاید ممکن نہیں کیونکہ اس میں ٹھہراؤ پیدا نہیں ہوا ہے، یہ ابھی تک محض آتی جاتی لہریں ہیں، مگر اس تبدیلی کو ’’محض چند لڑکوں یا انجمنوں کی دلچسپی‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہر تبدیلی کے اسباب ہوتے ہیں۔ کوئی تبدیلی اچانک وجود میں نہیں آتی جب تک اس کا سماجی مزاج نہ بن جائے، یعنی جب تک اُس کے پسند کرنے والے موجود نہ ہوں۔ یہی نئی سماجی تبدیلی (سوشل چینج) کہی جائے گی۔ عجیب بات ہے کہ اس سلامیہ رثائی تحسینی طریق کی ابتداء بھی اردو کے ایک ادبی مرکز لکھنؤ ہی سے ہوئی۔ آج سے ۳۰۔ ۳۲؍ سال قبل راقم الحروف نے ایک ذاکر شاعر کو مقامی انجمنوں کے ساتھ چلتے اور اپنے ایسے ہی سلامیہ اشعار کی تعریف پر کورنش بجا لاتے دیکھا۔ پھر وہاں کے رثائی شعراء کا یہ دستور سا ہوگیا کہ وہ نوحے اور مرثیے کہہ کر ماتمی انجمنوں کو پڑھنے کے لئے دیتے اور ساتھ ساتھ داد و تحسین سمیٹتے چلتے (شاید آج بھی یہ صورت ہے) چنانچہ اس کی تاسّی (پیروی) معمولی شعراء بھی ہر جگہ کرنے لگے (طریق غم یہ بدلا کہ امام حسین کی مصیبت پر دھیان دینے کے بجائے سامعین اور ’ماتمیانِ شہ مظلوم‘ شاعر کی طرف متوجہ ہونے لگے اور غم حسین کو لمحاتی طور پر بھول گئے)۔ ذرا اردو کی جملہ مذہبی اور اخلاقی شاعری پر نظر ڈالئے تو کم و بیش اس کی تاریخ میں بھی یہی صورتیں نظر آئیں گی۔ صوفیاء کی محفلوں اور محافل سماع میں قول قلبانہ شروع ہوا تو اس کے سامعین، ثقہ قسم کے لوگ تھے جو تصوف کے جملہ رموز و نکات سے باخبر تھے۔ اس لئے شاعر مقامات، عرفان شہود و وجود کے نکات، اشاروں میں بھی اپنے اشعار میں بیان کردیتا تھا مگر جب رفتہ رفتہ خانقاہوں میں صرف ظاہرداریاں داخل ہوئیں اور ’’مسند ارشاد‘‘ محض ’’میراث‘‘ میں حاصل ہونے لگی تو قول و قلبانہ کی شاعری بھی اپنا معیار کھونے لگی۔ تصوف کے رموز و نکات، ترک و فنا، بقا اور بقائے دوام، چلہ کشی، ریاضت، پیران طریقت کے لئے سب دور کی چیزیں ہوتی گئیں اور مرید بھی ’’اہل دنیا‘‘ بننے اور ’’کارِ دنیا‘‘ انجام دینے میں ایسا منہمک ہوئے کہ دقیقہ رسی ان کے بس کی بات نہ رہ گئی۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ محافل سماع اور صومعہ سب بقول اقبالؔ ’’کمالِ رزاقی‘‘ ہوکر رہ گئے۔ 
یہی صورت رثائی ادب اور رثائی سماج کی بھی ہورہی ہے۔ یہ اعتراض نہیں بلکہ بدلتے ہوئے سماج میں رثائی ادب کی قبولیت کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے کہ یہ صورتیں روز بروز بڑھتی جائیں گی اور رثائی ادب کا تمام مال، تاجرانہ ڈیمانڈ کے لحاظ سے آئے گا۔ ان حالات میں اب رثائی ادب اس ادبی اور فکری بلندی کو تو نہیں پہنچ سکتا جو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے ابتدائی دَور میں اسے حاصل تھی۔ 
(’’مرثیے کی سماجیات‘‘ میں شامل مضمون ’’صارفیت اور کربلا‘‘سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK