رٹائر منٹ کے بعد والد صاحب خود کو مصروف رکھنے کے لئے چھوٹا موٹا کاروبار کیا کرتے تھے جوموسم کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا تھا۔
رٹائر منٹ کے بعد والد صاحب خود کو مصروف رکھنے کے لئے چھوٹا موٹا کاروبار کیا کرتے تھے جوموسم کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ نومبر دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا سردی اپنے عروج پر تھی... اس کی مناسبت سے سردی کے لوازمات کی تجارت کا کام جاری تھا ... میں بھی وقتاً فوقتاً دکان پر ڈیوٹی دیا کرتا تھا۔ دکان پر طرح طرح کے گاہکوں سے سابقہ پڑتا ۔ کوئی گاہک خوب مول بھاؤ کرنے کے بعد بھی سامان نہ خریدتا تو کوئی بغیر کسی لیت و لعل کے فوراً اپنی ضرورت کا سامان لے کر روانہ ہو جاتا۔ کبھی کوئی معذور آتا اپنی بپتا سناتا اور کم سے کم دام کا مطالبہ کرتا۔ گداگر بھی آتے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے اور اپنی پسند کا سامان مناسب داموں پر لے جاتے۔
ایک رات سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے میں دکان بند کرنے کی تیاری کر رہا تھا اسی وقت ایک خاتون جو بوسیدہ نقاب لگائے، ہاتھ میں چھڑی لئے گلی کوچوں میں پھرتی نظر آتی تھی ـ جسے لوگ نیم پاگل کہا کرتے تھے ۔ـ اسے اکثر بچے اور نوعمر لڑکے تنگ کیا کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو بڑی عمر کے سمجھ دار افراد بھی ان میں شامل ہو جایا کرتے تھے لیکن وہ اللہ کی بندی کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی۔ ـ لوگوں کی تلخ و تُرش باتوں کو خاموشی سے سنتی۔ ان کی شرارتوں پر کسی رد عمل کا اظہار کئے بغیر اپنی راہ لیتی۔ اگر کوئی بہت زیادہ ہی تنگ کرتا تو خود ہی رو دھوکر خاموش ہوجاتی۔ وہی خاتون دکان پر وارد ہوئی۔بوسیدہ نقاب ، دبلی پتلی، بکھرے ہوئے بال، بے رونق مگر پُراسرار آنکھیں... جذبات سے عاری سپاٹ لیکن شاداب چہرہ.. کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کی خاموشی بھی بہت سارے مقررین کی لچھے دار تقاریر سے بہتر اور پراثر ہوتی ہے ـ ۔
آج اس کے سر پر نقاب کے اوپر کی چھتری یعنی اسکارف نہیں تھا۔ ـ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ آج چھتری شریر لڑکوں کی شرارت کی نذر ہوگئی ہے ـ اس لئے اس نے دوپٹے کا، اپنے کانوں کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کے طور پر استعمال کیا تھا ۔ـ چونکہ میں جلدی میں تھا اس لئے میں نے نہایت بے رخی سے پوچھا کیا بات ہے؟ تو اس نے کان پٹی کی طرف اشارہ کیا... میں نے سوچا کہ یہ بے چاری تو قیمت دینے سے رہی۔ اس لئے اسے بلا قیمت ہی دینا پڑے گا ـ میں جب کان پٹی نکال کر اسے دینے کے لئے مڑا تو اس کے سپاٹ چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ رقص کررہی تھی ـ جس میں ہزار طرح کے رنگ تھےـ جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔ ـ میرے ہاتھ سے اس نے سامان لیا، الٹ پلٹ کر دیکھا،ـ دوپٹے کے اوپر سے ہی کان پٹی لپیٹ لی ـ پھر یہ کان پٹی اس کی شخصیت کا ایک جزو لاینفک بن گئی۔ ـ برقعے میں ہونے کے بعد بھی اسکارف کے اوپر سے کان پٹی باندھے رہتی تھی۔ ـ اس نے دکان پر ایک نظر ڈالی گویا ساری دکان کا جائزہ لے رہی ہو ـ اس کے بعد ٹیبل پر چند سکے رکھے اور چلی گئی۔میں نے اُن سکوں کو گنا، نہ نفع ہوا نہ نقصان۔
پندرہ دن بعد سردی مزید بڑھ گئی ، کام اچھا چل رہا تھا۔ وہ دوبارہ آئی۔ وہی پہلے کی سی حالت۔ سردی کی زیادتی کے اثرات اس کے چہرے سے عیاں تھے۔ اس بار اس نے موزوں کا مطالبہ کیا۔کام کی زیادتی کے باوجود میں نے اسے مختلف موزے دکھائے۔ اس نے ایک موزہ پسند کیا۔ کچھ دیر بیٹھی سوچتی رہی۔جیب سے مٹھی بھر ریزگاری نکال کر میرے حوالے کی اور چلتی بنی۔پچھلا واقعہ مجھے یاد تھا۔میں نے ریزگاری گنی۔ نہ نفع نہ نقصان... میں سوچ میں پڑ گیا۔ پہلا واقعہ اتفاقی ہو سکتا ہے لیکن اس مرتبہ ؟ میں ہفتوں اس کے متعلق سوچتا رہا۔ غور کرتا رہا اور اس کا انتظار کرتا رہا۔ ذہن اس کی پر اسرار شخصیت کی گتھی سلجھانے میں لگا رہا جو مزید الجھتی جا رہی تھی.....
جاڑے کا موسم قریب الختم تھا.... اس لئے سردی عروج پر تھی جس طرح چراغ کی لو بجھنے سے پہلے زور سے بھڑکتی ہے، سردی بھی جاتے جاتے سب کو رلا رہی تھی... میں اس کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا... ایک شام سردی بہت تھی، ہر طرف کہرا چھایا ہوا تھاجس کی وجہ سے سڑک پر آمد ورفت بہت کم تھی۔ وہی خاتون دکان کے سامنے سے گزری۔ موزہ اور اسکارف ندارد۔ میں نے نوکر کو بھیج کر اسے بلایا۔ وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ پیروں میں چپل بھی نہیں تھی ـ میں نے دریافت کیا تو کہنے لگی کہ لڑکوں نے چپل چھپا دی ہے اور بچوں نے کان پٹی پھاڑ دی۔میں نے اسے سردی سے بچنے کے لوازمات دینا چاہے۔وہ انکار کرتی رہی۔میرے اصرار پر اس نے تمام سامان لے لیا... میں منتظر تھا کہ آج وہ ان کی قیمت کے متعلق کیا اقدام کرتی ہے؟دیکھوں... اس نے معنی خیز نظروں سے میری جانب دیکھا گویا میرے دل کی بات جان گئی ہو... اور بغیر دام دیئے ، تمام چیزیں لے کر چلی گئی ...میں نے اس کے تمام سامان کی اصل قیمت کا دل ہی دل میں اندازہ کرلیا تھا ... ارادہ تھا کہ جب وہ قیمت ادا کرے گی اس سے بات کروں گا... مگر اس مرتبہ وہ چکمہ دے گئی... میں نے قیمت اپنی ڈائری میں نوٹ کرلی....
میں بدظن ہو گیا۔ پچھلے تمام خیالات ذہن سے جھٹک دئیے کہ یہ بھی عام سی پاگل خاتون ہے۔ میں خواہ مخواہ اس کے پیچھے سر کھپاتا رہا۔ جب بھی اس کے متعلق سوچتا ہنسی آجاتی۔ زندگی کی رنگینیوں میں یہ واقعہ بھی کہیں کھو گیا اور میں اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث اس حماقت کو بھی بھول گیا ۔ایک دن جب میں دکان پر پہنچا تو ملازم نے مجھے کچھ رقم دی... میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہی نیم پاگل خاتون دے گئی ہے اور تاخیر کے لئے معذرت کر گئی ہے... میرا جذبۂ اشتیاق عروج پر تھا میں نے رقم گنی... ڈائری نکال کر چیک کیا.... میری حیرت کی انتہا نہ رہی...اس مرتبہ بھی نفع و نقصان کا پلڑا برابر تھا۔