Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوائے حرفِ خموش......ظفر کلیم

Updated: July 09, 2025, 1:53 PM IST | Dr. Agha Ghiyasur Rehman | Mumbai

ظفرکلیم ناگپور ہی نہیں مہاراشٹر کے ایک معتبر اور معروف شاعر ہیں۔ اپنے شعری اسلوب اور شعر پڑھنے کے مخصوص انداز سے بہت مقبول اور پسندیدہ ہیں۔

Zafar Kaleem, a famous poet from Vidarbha. Photo: INN
ودربھ کے معروف شاعر ظفر کلیم۔ تصویر: آئی این این

ظفرکلیم ناگپور ہی نہیں مہاراشٹر کے ایک معتبر اور معروف شاعر ہیں۔ اپنے شعری اسلوب اور شعر پڑھنے کے مخصوص انداز سے بہت مقبول اور پسندیدہ ہیں۔ وہ عوام کے بھی شاعر ہیں اور خواص کے بھی۔ ان کی غزلیں عام جلسوں ، عرس اور قوالی کی محفلوں میں ہندوپاک کے قوالوں اور گلوکاروں نے سازوآواز کے ساتھ گائی ہیں اور ان کا کلام جشن جمہوریہ ہند کے مواقع پر لال قلعہ کے مشاعروں سے بھی نشر ہوا ہے۔ظفر کلیم سے ایک عرصہ سے شناسائی ہے۔ بشیر نصرت جو ادیب ، شاعر اور صحافی بھی تھے، ظفرکلیم کے دوست تھے ۔ بشیر نصرت کو ان سے ایک خاص تعلق خاطر تھا۔ سید مصباح الحسن جوبشیر نصرت کے یارغار رہے ہیں ان دونوں بزرگوں  کے ہمراہ ظفر کلیم سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ اس وقت ظفرکلیم بشیر نصرت کے مکان کے بالکل مدمقابل ایک مکان میں کرایہ سے رہتے تھے۔ اس ملاقات میں ان کےخلوص اوران کے انداز گفتگو سے میں بہت متاثر ہوا۔ اس وقت وہ اسلامیہ مڈل اسکول میں مدرس کے عہدہ پر فائز تھے۔اس کے بعد ظفر کلیم سے گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
ظفر کلیم اپنے والدین کے اکلوتے تھے۔ جب تک والد زندہ رہے ان کی پرورش بڑے  نازونعم سے ہوئی اوران کی ابتدائی زندگی بڑی خوش حال اور عیش ومسرت میں بسر ہوئی۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے حالات بدل گئے۔ اس کے بعد کا دور ظفر کلیم کے لئے بڑی پریشانیوں اور ابتلا کا دور تھا۔ اہلیہ ، اس کے بعد نوجوان بیٹا اورکئی رشتہ دار تھوڑے ہی عرصہ میں داغ مفارقت دے گئے۔ ظفر کلیم نے بڑی ہمت، صبر اور جوانمردی سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ ان کی نوجوانی کا زمانہ اپنے حالات کو سنبھالنے میں ہی بیت گیا۔ ان کا یہ شعر ان کے انہی حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔
بڑھاپا آگیا بچپن کے بعد ہی اس پر 
ہمارے ساتھ کا بچہ جوان تک نہ ہوا
ظفر کلیم کی زندگی مسلسل جدوجہد ، کشمکش کا شکار رہی۔ اسی وجہ سے وہ اپنی ملازمت پربھی قائم نہیں رہے۔ لائف انشورنس ایجنٹ کی حیثیت سے کام کیا، پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا۔ بلڈر بنے ، اپارٹمنٹ تعمیر کروائے لیکن ان میں آرام وآسائش کے ساتھ رہنا ان کی تقدیر میں نہیں تھا۔جس زمانہ میں ظفر کلیم کی شاعری کی ابتدا ہوئی اس زمانہ میں ناگپور کا شعری ماحول اپنے عروج پر تھا۔ پیرمغان خم خانہ سخن مولانا ابوالحسن ناطق گلاؤٹھوی یہاں موجود تھے۔ جو نہ صرف ناگپور بلکہ پوری اردو دنیا کے مشہورومعروف استاد شاعر تسلیم کئے جاتے تھے۔ ناگپور کو اس بات پر فخر ہے کہ مولانا ناگپور سے وابستگی رکھتے ہیں۔ ظفر کلیم بھی ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ انہوںنے بڑے ہی فخریہ انداز میں کہا ہے کہ : 
یہ شہر ناگپور ہے ناطقؔ کا شہر ہے
کم بولئے جناب ذہانت کے باوجود
 دوسری جانب سیماب اسکول کے ایک استاد شاعر ضمیرالشعراء امین الفن حضرت طرفہ قریشی بھی یہاں موجود تھے۔ انہوںنے شاعری میں’ استاد شاگردی ‘کی روایت کو زندہ رکھا۔ انہی کے ہم عصر اور ساتھی صوفی شاعر، ترجمان فطرت حضرت ڈاکٹر عبدالحمید خاں آذر بھی تھے۔ شاعری کے علاوہ وہ ایک بلند پایہ ادیب بھی تھے۔ انہوںنے کئی نوجوان شعراء کی رہنمائی فرمائی۔ ظفر کلیم نے شاعری میں عبدالحمید خاں آذر سے شرف تلمیذ حاصل کیا اور استاد نے بھی اپنے شاگرد کی خوب خوب  تربیت فرمائی۔
اس وقت ان تینوں استاد شعراء اور ان کے شاگردوں کی وجہ سے ناگپور کا شعری ماحول ہمیشہ گرمایا رہتا تھا۔ آئے دن شعر وشاعری کے چرچے ہوتے۔ مشاعرے منعقد ہوتے ۔ شاعروں میں نوک جھونک بھی چلتی، مشاعرے  سننے ، داددینے ، فقرے کسنے اور ہوٹنگ کرنے کا اس زمانہ میں لطف ہی کچھ اور تھا۔ اب وہ ماحول نہیں رہا، وہ لطف بھی جاتا رہا۔ اس زمانہ میں یہا ںکی شاعری عام طور پر روایتی اقدار کی پاسدارہی رہی ۔  ابتدا ء میں ظفر کلیم بھی شاعری کے قدیم روایتی انداز کے پابند رہے۔حسن وعشق ، راز ونیاز، انتظارِ یاروغیرہ ان کی شاعری کے موضوعات رہے لیکن بہت جلد ان کا انداز شاعری  تبدیل ہوا۔ ضیاء انصاری اور شاہد کبیر جیسے جدید شعر وادب کے حامی شعراء اوراس کے بعد مدحت الاختر، غیور جعفری ، عبدالرحیم نشتر  اور شریف احمد شریف  سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ علاقہ کے دیگر شعراء اقبال اشہر ، محبوب راہی سے روابط قائم ہوئے اور یہا ں کی شاعری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 
ظفرکلیم اپنے ہم عصروں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ان کا شعری اسلوب سب سے جداگانہ اور منفر دہے۔ انہوں نے شاعری میں نئی نئی راہیں اورجہتیں نکالی ہیں۔ نئی علامتوں اور استعاروں سے اپنے اشعار میں زوراور نیا پن پیدا کیا ۔ ان کے اشعار سے جداگانہ نئے تاثرکا احساس ہوتا ہے۔ انہوںنے اپنی شاعری کے متعلق لکھا ہے کہ : ’’شاعری میرا پیشہ نہیں لیکن میرے مشاہدات ، تجربات، احساسات اور فطری جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔‘‘
جہاں تک شعری اصناف کا تعلق ہے انہوںنے تمام اصناف میں شعر کہے ہیں لیکن غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے بلکہ لفظ ’ غزل ‘ سے ہی انہیں والہانہ لگاؤ اور تعلق ہے۔ اہل علم وادب نے بھی انہیں ’’وقار غزل‘‘ اور ’’آبروئے غزل‘‘ جیسے توصیفی القاب سے نوازا ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعہ کا نام ’’ طلسم غزل ‘‘ رکھا۔ اتنا ہی نہیں انہوںنے اپنے لئے چھاؤنی میں جو اپارٹمنٹ تعمیر کروایا اس کا نام بھی ’’غزل اپارٹمنٹ ‘‘ رکھا۔  
ظفرکلیم کو اس بات کا بھی فخر حاصل ہے کہ وہ ناگپور کے شعراء کی فہرست میں سب سے کم عمر شاعر مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ۱۵؍ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا اور ظرف کے تخلص سے ان کی پہلی غزل بشیر نصرت کے ادبی رسالہ ’’ پیام نو‘‘ میں شائع ہوئی۔ ’’طلسم غزل ‘‘ ظفر کلیم کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا ۔ اس کا اجراء وکیل پرویز کے ذریعہ عمل میں آیا۔ اس موقع پر ایک  شاندار کل ہند مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا جس میں ملک کے مشہور شعراء نے شرکت کی۔ ’’نوائے حرف خموش‘‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۰۷ء میں منظر عام پر آیا۔ اس موقع پر ایک ذولسانی سوینیئر ’’سوغات‘‘ اردو ہندی میں شائع ہوا۔ اس موقع پر بھی ایک شاندار مشاعرہ منعقد کیا گیا اور بہت تزک واحتشام سے اس کا اجراء عمل میں آیا۔ اپنے شعری مجموعے کو ظفرکلیم نے اپنے بیٹے سروش کلیم سے منسوب کیا ہے جو عین نوجوانی کے عالم میں انہیں داغ مفارقت دے گیا۔ اس مجموعہ کو انہوںنے اپنے استاد صوفی حمیداللہ خاں آذرسیمابی اوراپنی اہلیہ کی نذر بھی کیا ہے۔ شعری مجموعہ ظفر کلیم نے خود اپنے روپیوں سے شائع کروایا ہے ۔ صفحہ ۲؍ پر انہوںنے ایک عبارت شائع کی ہے کہ ’’یہ شعری تصنیف کسی بھی اکیڈیمی کی مالی امداد کے بغیر شائع کی گئی ‘‘ اسے پڑھ کر قاری کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور آجاتی ہے۔
ظفرکلیم ایک اچھے آرٹسٹ بھی رہے چنانچہ مجموعہ کے صفحہ ۳؍ پر اپنے دادا استاد سیماب اکبر آبادی کی ایک نظم ’’مزدور‘‘ کے چند اشعار سے متاثر ہوکر انہوںنے ایک خیالی تصویر بنائی تھی وہ بھی مجموعہ کی زینت ہے۔ اسی طرح شکیل اعجاز کی بنائی ہوئی ان کے استاد حضرت ڈاکٹر صوفی حمید اللہ خاں آذرسیمابی کی قلمی تصویر بھی اس مجموعہ میں شامل ہے۔ اسی مجموعے میں ظفر کلیم نے شاعری سے اپنے استاد کا سلسلہ اساتذہ دیا ہے جو سیماب اکبر آبادی، داغ دہلوی ، ذوق ، شاہ نصیرالدین ، نظام الدین ممنون ، قمرالدین منت ، قائم چاند پوری سے ہوتا ہوا سوداؔ تک پہنچتا ہے۔ یہ نئی تحقیق ظفرکلیم کی ہے جسے قاری دلچسپی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ان کے کچھ شعر ملاحظہ کریں:
اسی کے نام سے اپنا سخن منسوب کرتا ہوں
زباں گونگوں نے پائی جس کے اعجاز تکلم سے 
شفاف راستوں پہ کہاں نقش پائے دوست
جس رہگذر میں دھول نہ ہو اس پہ کیا چلیں
(ماہنامہ قرطاس کے ظفر کلیم نمبر سے ماخوذ) 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK