• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قوت بیانیہ کے زوال کا سب سے بڑا اور مہلک سبب ہمارا افلاس ہے

Updated: November 16, 2025, 1:44 PM IST | Litrature Desk | Mumbai

پریم چند کا یہ مضمون (جو ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا تھا) پڑھئے اور بیانیہ کی صورت ِ حال دیکھئے، کیا کوئی تبدیلی نظر آتی ہے؟

Gardens are now not only found in big cities but also in small cities. People go to them for recreation. But how many of us can name more than a dozen flowers? Isn`t this our poverty? Photo: INN
باغیچے اب بڑے ہی نہیں چھوٹے شہروں میں بھی موجود ہیں۔ ان میں لوگ تفنن طبع کے لئے جاتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے آدمی ایسے ہیں جو ایک درجن سے زائد پھولوں کا نام بتا سکیں؟ کیا یہ ہمارا افلاس نہیں؟؟ تصویر:آئی این این

اس میں شاید ہی کسی کو کلام ہوگا کہ ہماری قوت بیان میں اب وہ رنگینی اور رنگ آمیزی نہیں رہی جو پہلے تھی، یا جو فارسی زبان کی خصوصیت ہوگئی ہے۔ کسی فارسی کتاب کو اٹھا کر دیکھ لیجئے زور بیان کا جلوہ اول سے آخر تک نظر آئے گا۔ جہاں جنگ کا تذکرہ آیا ہے وہاں صفحوں کے صفحے مردانہ اشعار سے مزین ہیں۔ اگر حسن و عشق کا ذکر چھڑ گیا تو اس پر زور انشا صرف کیا گیا ہے، اور صفت و ثنا تو گویا ان پر ختم تھی۔ ایک باغیچہ کی تعریف میں وہ کتاب کی کتاب دلچسپی سے لبریز اور نادر جذبات سے معمور لکھ سکتے تھے۔ آج وہ زور بیان کہیں نظر نہیں آتا۔خیر فارسی تورہی نہیں مگر فارسی کے جانشین اردو میں بھی وہ بات نہیں ملتی۔ ابتدا میں بیشک اس نے بھی وہی رنگ اختیار کیا تھا مگر چونکہ ابتدائی مشق تھی، اس لئے بہت اچھی نہیں تھی۔ اگر مشق جاری رہتی تو شاید وہی خوبیاں پختہ ہوجاتیں۔ مگرمشق جاری کیوں کر رہتی۔ زمانہ نے رنگ بدلا اور زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی اپنا رنگ بدل ڈالا۔ اب ہم سلاست اور اختصار کے دلدادہ ہیں۔ ہماری کتابیں خواہ وہ مبتدیوں کے لئے لکھی جائیں خواہ مہینتوں کے لئے، سلیس ہونی چاہئیں اور اس میں رنگ آمیزی کی ضرورت نہیں۔ اول تو رنگ آمیزی کے مسالے ہی نہیں باقی رہے اور اگر مانگے تانگے کے خیالات سے تھوڑی بہت رنگینی پیدا بھی کی جا سکتی تھی وہ ان قیود کی وجہ سے رک گئی۔ آج ناول، تاریخ اور تذکرے اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں مگران کے واقعات کی تحقیق اور سلاست زبان کی چاہے جتنی تعریف کیجئے، انشا پردازی کے لحاظ سے وہ سب کے سب قریباً صفر کے برابر ہیں۔ چنانچہ ہماری زبان کا روز مرہ تو صاف ہوتا جاتا ہے اور اس کے علمی پہلو کی بھی، تھوڑی بہت ترقی ہو رہی ہے مگر ادبی پہلو روز بروز زوال پذیر ہے۔
اس قوت بیان کے زوال کا سب سے بڑا اور مہلک سبب ہمارا افلاس ہے۔ پرانے زمانہ کے مصنفین شاہی درباروں میں امیرانہ شان و شکوہ کے جلوے دیکھتے تھے۔ بلکہ اکثر اوقات بادشاہوں اور امیروں کے دربار میں بالانشینی کا رتبہ رکھتے تھے۔ شیشہ وآلات نادرہ، ہیرے جواہرات، ظروف بیش بہا، جلوس شاہانہ، فوجوں کا طمطراق اور تزک و احتشام اور خدا جانے کتنی ہی اور باتیں جوان کی نظروں کے سامنے روزمرہ گزرا کرتی تھیں، ان کاآج ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آج کے مصنفین میں ایسے بہت کم ہوں گے جنہوں نے ہیرے جواہرات کی صورت دیکھی ہو۔  خدا جانے مغرق (جگمگاتا ہوا، سونے چاندی سے مزین)  عماریاں (ہاتھی کا ہودا، ہودج) کیسی ہوتی تھیں۔ ظروف بیش بہا کا ہے کو کسی نے دیکھے ہوں گے اور فوجی شوکت اور دلیرانہ جانبازیاں تو گویا ہمارے لئے افسانے ہوگئے۔ یہی سب قوت بیانہ کو اٹھانے والے اسباب تھے۔جب مصنف کو نت نئے جلوے نظر آتے تھے تو زبان میں خود بخود روانی پیدا ہوتی تھی، اور خیالات نکل آتے تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم تاریخوں یا قصہ کہانیوں میں بادشاہ کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ یا اگر ذکر کیا تو بس اتنا کہ وہ ایسا مالدار تھا اور اتنی فوج رکھتا تھا، بس اس سے آگے قدم رکھنے کی ہم کو ہمت ہی نہیں ہوتی۔ شاید کسی اردو ناول میں آج تک کسی مصنف نے شاہی دربار کا نقشہ نہیں کھینچا اور نہ کسی بادشاہ یا ملکہ کو ہیروئن بنایا۔ جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ بادشاہوں کے لئے عیش و عشرت اور کروفر کے کیا کیا لوازمات ہیں، تب تک ہم اسے ہیرو کیونکر بنا سکتے ہیں۔ یا اگر کسی نے ایسا کیا تواس کے بادشاہ ہیرو اور سوداگر ہیرو میں کوئی نمایاں فرق نہ نظر آئے گا۔ اسی لئے ہمارے ناولوں کی ہیروئن اور ہیرو سیدھے سادے معمولی اوقات کے لوگ ہوتے ہیں تاکہ ان کی زندگی کامرقع کھینچنے میں ہمیں ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔اردو ہی میں پہلے فن موسیقی، فن شکاربازی گری، فن شہسواری وغیرہ کی صدہا اصطلاحیں ہر خاص و عام کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ اب ان فنون کے زوال کے ساتھ ساتھ وہ اصطلاحیں بھی فراموش ہوتی جاتی ہیں۔ کچھ دنوں میں ہم بجز کتابی زبان کے اور کسی زبان سے اس کو نہ سن سکیں گے۔ قومی افلاس کا اثر جس قدر زبان پر پڑتا ہے اتنا شاید اور کسی چیز پر نہیں پڑ سکتا۔
دوسرا سبب اس زوال کا جسے ہم شاید افلاس ہی سے منسوب کر سکیں، ہماری بدشوقی ہے۔ ہم میں اب بھی بفضل خدا ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فراغت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور جنہیں سیر و تفریح کے بہت سے مواقع میسر ہیں۔ مگر ہم کچھ ایسے آرام طلب اور اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہم میں زندہ دلی مفقود ہوگئی ہے اور ہمارے دلوں پر کچھ ایسی اوس پڑ گئی ہے کہ کسی کام سے جس میں غور و خوض اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم جی چراتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تاج محل اور فتح پور سیکری کی عمارتیں دیکھی ہوں گی لیکن اگر ان سے ان عمارتوں کے ایک ایک جزو کا نام پوچھا جائے تو وہ شاید بمشکل بتلا سکیں۔فن مہاری کے متعلق بے شمار اصطلاحیں تھیں، اب ایک بھی سننے میں نہیں آتی۔ ہندوستان میں انواع و خوش رنگ طیور نظر آتے ہیں، افلاس نے ہماری آنکھیں تو بند نہیں کردیں، مگر ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایک درجن سے زائد قسموں کے نام بتلا سکیں۔ ہم میں پچھتربلکہ نوے فیصدی لوگ ایسے ہوں گے جو قمری کو نہیں پہچان سکتے۔ بس، طوطا، مینا کوا، چیل یہی دس پانچ نام ہم کو یاد ہیں، زیادہ نہیں، باغیچے اب بھی اکثر بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ ان میں رنگین مزاج لوگ تفنن طبع کے لئے جاتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے آدمی ایسے ہیں جو ایک درجن سے زائد پھولوں کا نام بتا سکیں؟ ان کے خواص وغیرہ کا تو ذکر ہی فضول ہے۔ ہمارے ملک کے پھولوں کے پودوں پر آج باغیچوں میں انگریزی نام کے ٹکٹ چسپاں کئے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے انگریزی نام تو معلوم ہیں مگراردو یا ہندی نہیں۔ جب ہماری طبیعتیں ایسی مردہ و افسردہ ہوگئی ہیں تو بیان کو کیسے فروغ ہو؟ اور وہ رنگ آمیزی کرنے کے لئے کہاں سے مسالے لائے؟ جب آپ صحیفہ ٔ  فطرت کا مطالعہ نہ کریں گے، جب آپ قدرت کی خوبیاں ہی نہ دیکھیں گے، جب آپ آنکھیں بند کئے روٹی کے دھندوں میں لگے رہیں گے تو آپ کہاں سے اشارے و تشبیہات و استعارے لائیں گے، کیوںکر قلم کی جودت دکھلائیں گے؟ اور کیوں کر انشا پردازی اور زور بیان کے کمال تک پہنچ سکیں گے؟ اور اب تو ہم سے پرانے لقمے بھی نہیں چبائے جاتے، نہ ہم انہیں ہضم ہی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں ہم کو مزہ ہی آتا ہے۔ افلاس اور مردہ دلی دو بلائیں تو تھیں ہی، اس پر مزید یہ کہ سستی شہرت پیدا کرنے کی ہوس ہر شخص کو ہے۔ جس نے دو چار کتابیں اردو کی پڑھ لیں وہ لکھاڑا اور نثار بن بیٹھا۔ پہلا مضمون قلم سے نکلا اور اس کے چھپوانے کی کوشش ہونے لگی۔ کچھ نہیں تو ہزار دو ہزار صفحے رنگ لئے جائیں۔ قبل اس کے کہ کسی مضمون یا تصنیف کو شائع کرانے کا خیال پیدا ہو۔چونکہ ہمارے مضامین کسی باقاعدہ مطالعہ یا ریاضت کا نتیجہ نہیں ہوتے، اس لئے ہم کسی ایک شق ادب پر قائم بھی نہیں رہ سکتے۔ جوکچھ خیال میں آیا الٹا سیدھا لکھ دیا۔ آج کوئی قصہ لکھ دیا، کل کسی قرب و جوار کے شہر کا تذکرہ پرسوں ایک تاریخی واقعہ کا ترجمہ اور بعد ازاں کسی طرف جھک گئے۔ اس میں شک نہیں ہر رنگ میں چمکنے کی کوشش کرنا بہت قابل تعریف بات ہے اور ایک ہی رنگ میں محدود ہو جانے سے ہمارا قلم من مانے طرارے سے نہیں بھر سکتا۔ مگر ایسے دماغ جو ہر رنگ میں چمک سکیں، ایسی طبیعتیں جو نظم و نثر کے ہر رنگ پر قادر ہوں، ایسا زمین جو ہمہ گیر ہو، شاذ کسی کو ملتا ہے۔ اگر ہم ایک صیغہ ادب کو لے لیں اور پڑھنے کے لئے جو چاہیں پڑھیں، مگر لکھیں اسی صیغہ کے متعلق جو ہماری زبان کو بہت فائدہ پہنچے۔ اگر ہمارا رجحان تاریخ نگاری کی جانب ہے تو ہم اس شق ادب کو اپنا حصہ بنالیں۔ کوئی فلسفہ کی طرف مخاطب ہو اور اسی شق ادب میں چمکنے کی کوشش کرے، کچھ لوگ زراعت و فلاحت پر مضامین لکھیں۔ غرض اپنے قلم کو کسی ایک میدان میں دوڑائیں تب ہم ایک صنف کے کل الفاظ اور اصطلاحوں پر حاوی ہو جائیں گے اور قوت بیانیہ کے نشوونما میں اس سے بہت زیادہ مدد ملے گی۔
علاوہ بریں جوں جوں پرچے اور رسالے بڑھتے جارہے ہیں، ہم میں زود نویسی کی عادت پڑتی جاتی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگ جو کچھ لکھتے تھے اسے پہلے دس پانچ بار خود کانٹ چھانٹ کر اپنے دوستوں کو دکھاتے تھے۔ اب آج کل تیزنگاری کا دور ہے، ایک بار لکھ کر اسے دہرانا مذموم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اصل مسودہ کو دوبارہ صاف کرنے کی محنت بھی نہیں کی جاتی۔ ایسی حالت میں زور بیان یا کمالات انشا پردازی کا دکھانا غیرممکن ہی نہیں امید از قیاس ہے، اور اس تیزنگاری کی شکایت کچھ اسی ملک میں نہیں ، انگلستان وغیرہ میں بھی لٹریچر کے ادبی پہلو کے زوال کی شکایت سننے میں آتی ہے۔
اس زوال کیلئے ہمارے طرز تمدن کا انقلاب بھی ایک حد تک جوابدہ ہے۔ اب نہ پرانے مراسم آداب رہے، نہ وہ عیش وعشرت کے سامان، نہ امرا اور رؤسا میں وہ شوق۔ بجائے چوگان بازی کے اب کرکٹ اور پولو کا زور شور ہے، بجائے رنگین جلسوں کے اب گارڈن پارٹیاں ہیں۔ معاشرت میں جو ایک دل پزیر تکلف تھا، اس کی جگہ اب تکلیف دہ تصنع ہے۔ ان باتوں کی تفصیل کیلئے نہ ہماری زبان میں الفاظ ہیں اور نہ اصطلاحیں، اگر ہم کسی رئیس کے کمرہ کی آرائش کا بیان کرنا چاہیں تو ہمارے امکان سے باہر ہے اور اس کا تین چوتھائی سامان بالکل انگریزی ہے۔اس میں شک نہیں کہ زور بیان دکھانے میں کس قدر تکلف پیدا ہو جاتا ہے مگر اسے قابل معافی سمجھنا چاہئے کیونکہ فن ادب کیلئے تکلف (مگر تصنع نہیں) کی چاشنی ایک ضروری شئے ہے۔ (بحوالہ: مضامین پریم چند)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK