• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک دور تھا جب راجکمار کی شخصیت کو سامنے رکھ کر فلمی کردار لکھے جاتے تھے

Updated: November 16, 2025, 3:23 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

فلموں میں اُن کی آمد اتفاقاً ہوئی تھی، جن دنوں وہ ممبئی میں بطور پولیس افسر تعینات تھے، ہدایتکارنجم نقوی کو ایک ایکسیڈنٹ کیس میں تھانے آنا پڑا اور پھر انہوں نے اپنی فلم کیلئے سائن کرلیا۔

Raajkumar had his own unique style which he used in his films as well as in his normal life. Photo: INN
راج کمار کا اپنا ایک خاص انداز تھا جس کااستعمال وہ عام زندگی کے ساتھ ہی فلموں میں بھی کرتے تھے۔ تصویر:آئی این این
۸؍اکتوبر ۱۹۲۷ء کو لاہورمیں ایک کشمیری برہمن جاگیشور ناتھ پنڈت کے گھر میں ایک لڑکے کا جنم ہوا۔ ماں باپ نے اس کا نام رکھا کل بھوشن ناتھ سکند۔ نو بہن بھائیوں میں کل بھوشن کا نمبر پانچواں تھا۔ اُس وقت اس لڑکے کے ماں باپ یا خاندان والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بڑا ہوکر یہ لڑکا واقعی اپنے کل کا بھوشن بنے گا یعنی خاندان کے نام میں چار چاند لگانے والا، خاندان کا نام روشن کرنے والا۔ بڑا ہوکر وہی لڑکا ہندوستانی فلمی دنیا میں راجکمار کے نام سے پہچانا گیا  اور وہ لگ بھگ ۴۵؍برسوں تک اپنے خاندان کا نام روشن کرتا رہا۔
راجکمار نے اپنی گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پولیس میں ملازمت کر لی اور سب انسپکٹر بن گئے۔ راجکمار کو فلمیں دیکھنے اور ان میں کام کرنے کا شوق تو تھا مگر ان کی شکل وصورت عام روایتی ہیرو جیسی نہ تھی لہٰذا نہ تو ان کو فلموں میں کوئی کام دیتا تھا اور نہ ہی وہ خود ایسی کوئی کوشش کر سکے جس سے فلموں میں ان کا داخلہ ہو سکتا۔فلموں میں ان کا داخلہ کیسے ہوا، اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ اُن دنوں نجم نقوی نام کے ایک فلمساز وہدایتکار ہوا کرتے تھے، جنہوںنے ’پنّا، کنگن، ایکٹریس اورسمراٹ‘ جیسی کئی کامیاب فلمیں بنائی تھیں۔ نجم نقوی اترپردیش کے مردم خیز شہر امروہہ کے رہنے والے تھے اور نہایت دلچسپ انسان تھے۔ ان دنوں نجم نقوی فلم ’رنگیلی‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ فلم کی ہیروئن کیلئے مشہور اداکارہ ریحانہ کا انتخاب ہو چکا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے، ایک دن نجم نقوی کی کار کا ایکسیڈینٹ ہو گیا اور اُن کا کیس راجکمار کے پاس پہنچ گیا۔ راجکمار ان دنوں ماہم (ممبئی) کے ایک تھانے میں تعینات تھے۔ نجم نقوی ایک مشہور اور مصروف فلمساز وہدایتکار تھے ،اسلئے ایکسیڈینٹ کے سلسلے میں کورٹ کچہری کے معاملے سے دور ہی رہنا چاہتے تھے، لہٰذا تفتیش کے دوران نقوی صاحب نے راجکمار سے کہا کہ ’’میاں کیا آپ فلموں میں کام کرنا پسند کریںگے؟‘‘
ان کی بات سن کر راجکمار نے شکایتاً کہا کہ کہتے تو سب ہیں مگر کام کوئی نہیں دیتا۔ نقوی نے نہایت سنجیدگی سے راجکمار کو اگلے دن اپنے اسٹوڈیو آنے کی دعوت دی۔ وہ  ان کی آواز اور ان کے بولنے کے انداز سے متاثر ہو چکے تھے اور اپنا کیس بھی نپٹانا چاہتے تھے لہٰذا ایسا ہی ہوا۔ اگلے دن راجکمار جب نجم نقوی  کے اسٹوڈیو پہنچے تو  انہوں نے فلم ’رنگیلی‘کیلئے ریحانہ کے مقابل ہیرو کے رول کیلئے راجکمار کو سائن کر لیا۔ یہ اتنا بڑا آفر تھا راجکمار کیلئے کہ وہ حیران تھے۔ اس فلم میں ان کا کردار بھی پولس انسپکٹر کا ہی تھا۔ اس طرح راجکمار فلموں سے وابستہ ہو گئے اور نجم نقوی صاحب کا کیس بھی رفع دفع ہو گیا۔
۱۹۵۲ء میں فلم ’رنگیلی‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی اور فلم کی کامیابی کے ساتھ ہی راجکمار کو پہچان بھی مل گئی۔ اس کے بعد اسی سال راجکمار کی ایک اور فلم ’لاکھوں میں ایک‘ کی نمائش ہوئی جو ناکام  رہی۔ اس کے بعد راجکمار کی اگلی دو فلمیں بھی ناکام ہو گئیں اور اس طرح ان کو اپنا فلمی مستقبل اندھیروں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا مگر بھلا ہو دلیپ کمار کا کہ انہوںنے فلم ’مدرانڈیا‘ میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ دراصل محبوب خان ’مدرانڈیا‘ میں نرگس کے شوہر کا رول دلیپ کمار کو دینا چاہتے تھے۔ دلیپ کمار کے انکار کے بعد انہوںنے یہ کردار راجکمار کو سونپ دیا۔ حالانکہ فلم میں یہ کردار بہت چھوٹا تھا مگر راجکمار نے اپنی اداکاری اور محبوب خان نے اپنی ہدایتکاری سے اس کردار میں جان ڈال دی۔ اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور اس کے ساتھ ہی راجکمار کی شہرت اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
’مدر انڈیا‘ کے بعد راجکمار کئی فلموں جیسے ’نوشیرروان عادل، نیل منی، شاہی بازار اوردلہن‘ میں پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے مگر ان میں سے کچھ ہی فلموں کو تھوڑی بہت کامیابی ملی۔ اس کے بعد ۱۹۵۹ء میں جیمنی کی فلم ’پیغام‘ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ یہ فلم ایس ایس واسن کی ہدایت میں بنی تھی اور اس کے ہیرو تھے شہنشاہ جذبات دلیپ کمار۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور راجکمار کی جوڑی کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور راجکمار ایک بار پھر شہرت کے آسمان پر چمکنے لگے۔ 
کمال امروہوی کی فلم ’دل اپنا پریت پرائی‘ کی نمائش ۱۹۶۰ء میں ہوئی تھی جس میں مینا کماری، نادرہ کے ساتھ راجکمار کو بھی پسند کیا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۶۱ء میں ’گھرانہ‘، ۱۹۶۳ء میں ’دل ایک مندر‘، ۱۹۶۴ء میں رامانند ساگر کی ’زندگی‘ اور ۱۹۶۵ء میں مینا کماری کے ساتھ فلم ’کاجل‘ میں راجکمار کو پسند کیا گیا اور یہ فلمیں کامیاب ہوئیں۔بی آر چوپڑہ کی فلم ’وقت‘ ۱۹۶۵ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے راجکمار کو ایسی شہرت عطا کی جو بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس فلم کے دو مکالمے جو راجکمار نے ادا کئے تھے، عوام میں بے حد مقبول ہوئے اور لوگ سڑکوں پر اِن مکالموں کو دہراتے ہوئے دیکھے گئے۔ اس فلم کی کامیابی سے راجکمار صف اول کے اداکار بن گئے۔ اب فلموں میں راجکمار کی شخصیت کو سامنے رکھ کر کردار لکھے جانے لگے اور اُن کے مکالموں کی ادائیگی کے مخصوص انداز کی طرز پر مکالمے لکھے جانے لگے۔ اب راجکمار کی کامیاب فلموں کا دور شروع ہوا تو ’ہمراز، میرے حضور، ہیر رانجھا اورنیل کمل‘ جیسی فلموں نے راجکمار کی شخصیت، شہرت اور مقبولیت کو چار چاند لگا دئے۔
۱۹۷۲ء میں کمال امروہوی کی فلم ’پاکیزہ‘ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ اس فلم نے ملک اور بیرون ملک کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ اس فلم کے ہیرو تھے راجکمار۔ان کی مخصوص مکالمہ ادائیگی نے اس فلم کے کردار میں جان ڈال دی تھی۔ فلم ’پاکیزہ‘ کے بعد راجکمار کی جو فلمیں آئیں ان میں ایک الگ ہی قسم کے راجکمار نظر آئے۔ انہوںنے وقت کے تقاضوں کو محسوس کر لیا تھا اور اس درمیان فلم بینوں کے مزاج میں جو تبدیلیاں آئی تھیں، ان کے مطابق اپنے کردار کا انتخاب کرنے لگے تھے۔ ’دل کا راجہ، ہندوستان کی قسم، ایک سے بڑھ کر ایک، کرم یوگی، بلندی، قدرت، مرتے دم تک، جاں باز، گلیوں کا بادشاہ‘ وغیرہ ایسی ہی فلمیں تھیں جن میں راجکمار نے اپنی امیج کو بدلا تھا۔فلم ’پیغام‘ کے بعد کئی لوگوں نے اس بات کی کوشش کی کہ دلیپ کمار اور راجکمار کو پھر کسی فلم میں یکجا کیا جائے مگر یہ موقع آیا لگ بھگ ۳۲؍برس بعد فلم ’سوداگر‘ کے فلمساز وہدایتکار سبھاش گھئی کے نصیب میں۔ فلم بینوں کی برسوں سے دلی خواہش کی تکمیل جب ’سوداگر‘ کے روپ میں ہوئی تو اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔’سوداگر‘ کے بعد راجکمار کی فلموں ’پولیس مجرم‘ اور ’ترنگا‘ نے بھی کامیابی حاصل کی اور اس طرح  وہ لگ بھگ ۴۵؍برسوں تک فلمی دنیا سے جڑے رہے اور فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتے رہے۔
فلمی پردے پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے والے اس شہرت یافتہ اداکار کی نجی زندگی پر ہمیشہ ایک دبیز پردہ پڑا رہا۔ دراصل انہوںنے کبھی فلمی زندگی کو اپنی نجی زندگی میں گڈمڈ نہیں ہونے دیا۔ وہ فلمی پارٹیوں سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔ عام طور پر ایک سنکی اور بددماغ اداکار کے طور پر اُن کی پہچان بن گئی تھی مگر  وہ ایک دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ کرنا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ انہیں کتے پالنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ راجکمار کا تکیہ کلام تھا ’جانی‘۔ نہ صرف نجی محفلوں میں بلکہ فلموں کے مکالموں میں بھی وہ اپنے اس پسندیدہ لفظ ’جانی‘ کا استعمال کر لیا کرتے تھے۔ ان کے موڈ کا آسانی سے پتہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ کب کس کو کیا کہہ دیں، اور کس طرح پیش آئیں، اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل تھا۔ ایک بار ایک محفل میں مشہور اداکارہ زینت امان سے راجکمار نے کہا کہ ’’خوبصورت ہو، فلموں میں کام کیوں نہیں کرتیں، ہم سفارش کر دیںگے۔‘‘
راجکمار کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے۔ ایک بار پرکاش مہرہ کی ایک فلم میں انہوںنے صرف اسلئے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ بقول ان کے پرکاش مہرہ کے بالوں سے ایک خاص قسم کے تیل کی بو محسوس ہوتی تھی۔ راجکمار سگریٹ پینے کے بہت شوقین تھے۔ حالانکہ آخری دنوں میں بیماری کی وجہ سے اور ڈاکٹروں کی صلاح پر انہوںنے سگریٹ پینا لگ بھگ ترک کر دیا تھا۔ گولف کھیلنا اور سفید پینٹ شرٹ پر سفید جوتے پہننا بھی راجکمار کوبہت پسند تھا۔
چند برس پہلے کی بات ہے کہ فلمساز میہول کمار اپنی فلم ’مرتے دم تک‘کیلئے راجکمار کی موت کا ایک سین فلمبند کرنے میں مصروف تھے۔ شوٹنگ کیلئے لمبے چوڑے انتظامات کو دیکھ کر راجکمار نے میہول کمار کو پاس بلاکر اپنے مخصوص انداز میں کہا۔ ’’جانی، موت کیلئے اتنی تیاری کیوں؟ جب ہم دنیا سے جائیں گے تو کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی۔‘‘ اس طرح انہوںنے اپنے الفاظ کو حقیقت میں ۳؍جولائی ۱۹۹۶ء کو کر دکھایاکیونکہ ان کی موت کی خبر ان کے آخری رسومات کے بعد ہی  دنیا کو معلوم ہوئی۔ اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے والے راجکمار نے اپنی موت کا انداز بھی اپنی مرضی ہی سے طے کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK