Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : آخری خط

Updated: August 18, 2025, 2:53 PM IST | Fazil Shahnawaz Alam

کمرے میں مدھم سی روشنی تھی۔ دیوار پر آویزاں گھڑی کی ٹک ٹک اس کی دھڑکن سی محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے میز پر سفید کاغذ و قلم رکھا تھا۔ وہ کافی دیر سے یونہی بیٹھا تھا لیکن کچھ لکھ نہیں رہا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

کمرے میں مدھم سی روشنی تھی۔ دیوار پر آویزاں گھڑی کی ٹک ٹک اس کی دھڑکن سی محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے میز پر سفید کاغذ و قلم رکھا تھا۔ وہ کافی دیر سے یونہی بیٹھا تھا لیکن کچھ لکھ نہیں رہا تھا۔
 وہ شخص جس نے دنیا دیکھی، نام کمایا، شہرت و عزت کمائی، دولت کمائی مگر سچ کو ہمیشہ ایک کونے میں دھکیل دیا۔ اور جب سچائی اس کے سامنے بے نقاب کھڑی تھی۔
 مَیں نے کیا کچھ نہیں پایا سوائے سکون کے، لوگوں کو مناتا رہا تجھے بھلا کر۔ اور جب سب سے تھک گیا ہوں.... تو تیرے در پر آیا ہوں۔
 اے اللہ!
 آنکھیں اشکبار تھیں۔ دل بے تحاشہ لرز رہا تھا اور ہاتھ بے ساختہ کانپ رہا تھا۔ لیکن پھر اُس نے قلم اُٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔
 اے میرے مولا! مَیں تجھ سے نادم و شرمندہ ہوں۔ یہ زندگی تیرے بغیر بہت خوبصورت لگی تھی مگر دراصل حقیقت میں خالی تھی۔ میں نے تیری نافرمانیوں کو آزادی سمجھی۔ اور جب ہر دروازہ مجھ پر بے رحمی سے بند ہوا۔ تو تیرا در کھلا محسوس ہوا۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں نے دیر کر دی۔ لیکن تو ہی ہے جو پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔ تو ہی ہے جو اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ تو ہی ہے وہ جو اپنے بندے کے دُکھ درد میں اُس کے زخموں کو اپنی رحمت و شفقت سے بھرتا ہے۔
 اے اللہ....! میری بھی پکار سن لے....! آخری بار....
 کاغذ پر لفظوں کا بوجھ جیسے اُس کے دل کی صدیوں کی تھکن اُتار رہا تھا۔ قلم چلتا رہا۔ اور ہر لفظ میں درد رِستا جا رہا تھا جسے وہ برسوں سے چھپا رہا تھا۔ سچ کتنا عجیب ہوتا ہے، جب ہم دنیا سے کہتے ہیں تو دنیا ہنستی ہے۔ اور جب رب سے کہتے ہیں تو سنتا ہے سمجھتا ہے اور معاف کر دیتا ہے۔
 اے میرے رب! تجھے پتہ ہے مَیں نے کتنا جھوٹ بولا صرف اس جھوٹی دنیا کے لئے۔ خود کو لوگوں کے سامنے اچھا ظاہر کیا۔ اور، کتنا غلیظ، کتنا ٹوٹا ہوا اور کتنا منافق تھا۔ مَیں نے ہر وہ کام کیا جو تجھے ناگوار گزرے جس سے تو ناراض ہوتا ہے۔ اور ہر وہ لمحہ برباد کیا جو تیری یاد، تسبیح و اذکار میں گزار سکتا تھا۔ مگر!
 اے رب! آج مَیں تجھ سے کچھ مانگنے نہیں بلکہ صرف اپنی سچائی تیرے قدموں میں رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا آخری خط ہے۔ اگر تو قبول کر لے تو، میری زندگی کچھ آسان ہوسکتی ہے۔
 کمرے میں خاموشی تھی مگر اُس کے دل میں نور اُترنے لگا۔ اُسے احساس ہوا وہ تنہا نہیں ہے۔ کوئی موجود ہے، جو بہت قریب، بہت مہربان ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں انسان اپنی اکڑ و غرور اور انا میں ہار جاتا ہے۔ اور وہا رب شفقت و نرمی سے اپنے بندے کو جیت لیتا ہے۔ کا غذ کے نیچے اُس نے صرف تین لفظ لکھے:
 مَیں لوٹ آیا!
 اور لفظ تھم گے قلم گر گیا۔ لکھی تحریر کو لب بوس کیا اور سینے سے لگا کر میز پر رکھ دیا۔
 وہ سو گیا۔ مگر ایسا لگا جیسے اُس کی روح بیدار ہوگئی۔ رات گہری ہوچکی تھی.... وہ سوتا رہا لیکن اُس کی پیشانی پر عجب سی روشنی جھلک رہی تھی۔ وہی پیشانی جس نے برسوں سجدے نہیں کئے۔ آج نیند میں بھی جھکی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ تاریک شب کی خاموشی کمرے میں بھی تھی۔ مگر اس کے دل میں کوئی مقدس صدا گونج رہی تھی۔
 ’’مَیں نے تیرے خط کو پڑھ لیا.... اور مَیں تیرے قریب ہوں، شہ رگ سے بھی قریب....‘‘
 اُس نے خواب میں دیکھا ایک کھلا میدان ہے دور ایک سفید روشنی ہے جو اُسے تاریکی سے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ وہ روشنی نہ دھوپ تھی، نہ آگ بلکہ رحمت کا ہالہ تھا۔ وہ روشنی کی جانب بڑھتا رہا اور ہلکا ہو رہا تھا۔ جیسے دنیا کی تمام تھکن ،گناہ، دُکھ، فریب سب اُترتے جا رہے ہو۔
 صبح جب اُس کے بیٹے نے دروازہ کھولا تو وہ اُسے سکون سے سوتا ہوا پایا۔ چہرے پر ایک خاموش مسکراہٹ تھی۔ میز پر وہی خط تھا جس پر شروع اور آخر میں لکھا تھا:
 یا اللہ!
 جب زندگی نے سب کچھ چھین لیا، تب مَیں نے جانا کہ اصل عطا تیری قربت ہے۔
 یہ ’آخری خط‘ شاید میری پہلی سچائی ہے جو مَیں نے خود تحرير کی ہے۔
 یا اللہ!
 اگر تو نے میرے ’آخری خط‘ کے بولتے لفظوں کی صدا سن لی تو میں کامیاب رہا ورنہ میں تو ازل سے ابد تک تیرا ہی محتاج ہوں۔

 ’’کبھی کبھی ایک خط ہزار سجدوں سے زیادہ سچا ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ خط خالص دل سے لکھا گیا ہو اور خدا کی طرف بھیجا گیا ہو۔ سچ ہمیشہ خدا تک پہنچتا ہے پھر چاہے وہ ’آخری خط‘ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اُس کے بیٹے نے شفقت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھ کر کہا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK