بہت سی تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو دل کو چھو جاتی ہیں۔مصنفہ الفت ریاض سندیلوی کا تعلق ہردوئی (یوپی) سے ہے۔ انقلاب میں اس سے قبل کئی قسط وار افسانے شائع کئے جاچکے ہیں جنہیں قارئین نے توقع سے زیادہ پسند کیا۔ اُمید کہ اس سلسلے کو بھی خاص طور پر پسند کیا جائیگا۔ (مرتّبہ)
نومبر کا آخری ہفتہ چل رہا تھا یعنی لمبی لمبی تاریک راتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ساتھ ہی بن موسم برسات اور برفیلی ہوائیں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔
وہ اسپتال کے پلنگ پر بیٹھی کھڑکی کے شیشے سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ہلکی ہلکی بارش موسم کی دلکشی میں اضافہ کر رہی تھی۔ درختوں کے پتے وقفے وقفے سے جھومتے اور پھر رک جاتے۔ اس نے آہستہ سے کھڑکی کا ایک پٹ کھولا، تیز ہوا اس کے گالوں کو چھوتی ہوئی گزر گئی اور پانی کی پھوار سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈائری کے صفحات بھیگنے لگے، اس نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی اور ان زرد صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ کچھ مہینے پہلے جب وہ اپنے کمرے کی صفائی کر رہی تھی تو اسے ایک پرانے ٹرنک میں ایک جزدان ملا تھا۔ اِس میں کچھ دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ دو ڈائریاں بھی رکھی ہوئی تھیں، ان میں سے ایک ڈائری اس کی امی کی تھی جس میں انہوں نے اپنی شادی سے لے کر اس کی پیدائش تک کے تمام واقعات قلمبند کئے تھے۔ دوسری وہ تھی جو اس وقت اس کے ہاتھ میں تھی۔ درحقیقت یہ ڈائری نہیں تھی بلکہ فون نمبر لکھنے والی ایک پاکٹ سائز فون بک تھی جس میں فون نمبر تو نہیں تھے البتہ کچھ اہم تاریخیں درج تھیں۔ درمیان کے چند صفحات کو چھوڑ کر باقی تمام صفحے خالی پڑے تھے۔ اس نے اس صفحے کو کھولا جس پر بہت سی تاریخیں درج تھیں۔ انہی تاریخوں میں اس کی پیدائش کی تاریخ (۲۹؍ نومبر) بھی لکھی ہوئی تھی۔ اس نے نہ تو کبھی اپنی سالگرہ منائی تھی نہ ہی کسی نے اسے سالگرہ پر مبارکباد پیش کی یا تحفہ دیا تھا بلکہ کچھ روز پہلے تک تو اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کی پیدائش کا اصل دن کیا ہے جس چیز کا اسے ہمیشہ ملال رہا لیکن آج جبکہ وہ جانتی تھی کہ آج ہی اس کی سالگرہ ہے تو یہ ملال مزید گہرا ہوگیا۔
سرد آہ بھرتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنے قریب ہی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنی ماں پر ڈالی۔ نحیف سا جسم، دھنسی ہوئی آنکھیں اور گردن کی ابھری ہوئی ہڈیوں کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ۸۰۔۸۵؍ سال کی دکھنے والی اس عورت نے زندگی کی ابھی صرف چالیس بہاریں ہی دیکھی ہیں۔ وقت کی بے رحم آندھیوں نے اس کا سارا حسن چھین کر عمر سے پہلے ہی اسے معمر بنادیا تھا....
’’کتنا اچھا ہوتا جو مَیں اس دنیا میں ہی نہ آئی ہوتی، ماں کی کوکھ میں میرا وجود ہی نہ پنپتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ تب شاید میری ماں کو اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ میرے آنے سے ہی اس کی پر سکون زندگی میں تباہی آگئی تھی، میری پیدائش ہوتے ہی اس کا شوہر اس سے الگ ہوگیا اور میری وجہ سے ہی وہ کبھی دوسری شادی نہیں کرسکی۔ وہ مَیں ہی تھی جس کیلئے اس نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین سال اپنی جوانی کے دن، در در کی ٹھوکریں کھانے اور لوگوں کے کپڑے سلنے اور ان کے گھروں کا کام کاج کرنے میں ضائع کر دیئے۔ بہت منحوس ہو تم، بہت منحوس۔‘‘
وہ آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اپنے وجود پر لعنت بھیج رہی تھی۔ وہ آج شاید اسی طرح خود کو کوستی رہتی اگر بیپ (Beep) کی آواز نے اس کی سوچوں میں خلل نہ ڈالا ہوتا۔ اس نے پاس رکھے ہوئے موبائل کو اٹھا کر دیکھا، ’’ اس وقت ای میل؟ رات کے ایک بجے ای میل کس نے کی ہوگی؟‘‘ اس نے فوراً میل کھول کر دیکھا، لکھا تھا: ’’السلام علیکم، امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی، حالانکہ میرا دل یہ ماننے کو تیار نہیں ہے، میرا دل کہتا ہے کہ آپ ضرور کسی مشکل میں ہیں۔ ابھی جب میں یہ میل لکھ رہا ہوں تو میری عقل مجھ سے کہہ رہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مجھے آپ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملے گا۔ لیکن دل نہ جانے کیوں مجھے بار بار اکساتا ہے کہ آپ کا حال پوچھوں.... مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ قدم کیوں اٹھا یا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر آپ کسی بات کے سبب پریشان ہیں یا کسی مشکل میں ہیں تو مجھ سے کہہ سکتی ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خوش رہیں۔شکریہ، آپ کا خیر خواہ، ابن آدم! ‘‘
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھا جب اسے اس طرح کی میل آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنی دفعہ اس کو اس نام سے ایسے کئی برقی پیغامات آچکے تھے جس کا اس نے کبھی بھی جواب نہیں دیا تھا۔ پہلی بات تو اسے ان انجان خیر خواہوں کی دل سوز باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی اور دوسری یہ کہ وہ اپنی زندگی میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اس کے پاس ایسے پیغامات کا جواب دینے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ ایک دو بار جواب نہ ملنے سے خود بخود میل آنا بند ہو جائیں گے مگر دو تین ماہ سے مسلسل یہ سلسلہ جاری تھا۔ اب وہ اس سلسلے کو ختم کر دینا چاہتی تھی سو اس روز اس نے پہلی اور آخری بار میل کا جواب لکھا اور فوراً بعد اپنی آئی ڈی ڈلیٹ کر دی۔ اس نے لکھا: ’’وعلیکم السلام، مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون ہیں اور نہ ہی مَیں جاننا چاہتی ہوں، میں کیسی ہوں، کس حال میں ہوں اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، مَیں بہت منحوس ہوں اتنی کہ آج اپنی سالگرہ والے دن اپنی ماں کو موت زندگی سے لڑتا ہوا دیکھ رہی ہوں، سو براہِ کرم میرے لئے پریشان ہونا چھوڑ دیجئے، اسی میں آپ کی بھلائی ہے۔ خدا حافظ!‘‘
آج کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ پچھلی رات کی تیز بارش اور برفیلی ہواؤں نے ٹھنڈ میں اضافہ کر دیا تھا۔ جب وہ صبح اٹھی تھی اس وقت بھی بادل چھائے ہوئے تھے لیکن اس نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ تیار ہوگئی اور معمول کے مطابق وقت سے پہلے ہی آفس پہنچ گئی۔ ابھی وہاں اس کے اور چھوٹو کے علاوہ تیسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ چھوٹو سے چائے کا کہہ کر وہ سیدھا اپنے کیبن میں چلی گئی۔ چونکہ آج اسے ایک بہت اہم آرٹیکل کو مکمل کرنا تھا سو فوراً اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور مکمل توجہ کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگلے ایک گھنٹے میں کام ہو جائیگا۔ ابھی اس نے چند سطریں ہی ٹائپ کی ہوں گی کہ نازمین تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے کیبن میں آدھمکی۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور وہ بہت پریشان نظر آرہی تھی،’’تمہیں کچھ معلوم ہوا سمیرا؟‘‘ بغیر دعا سلام اس نے آتے ہی یہ سوال کر دیا۔
’’جب آپ بتائیں گی ہی نہیں محترمہ تو معلوم کیسے ہوگا؟‘‘ سمیرا نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’ارے وہ جو لکھتی تھی کیا نام تھا اس کا ہاں بنت ِحوا۔ ہاں اس کا ناول نہیں تھا....‘‘ ابھی یہ جملہ ادھورا ہی تھا کہ سمیرا زور زور سے ہنسنے لگی۔ اس کو سو فیصد یقین تھا کہ ضرور بالضرور اسی ناول کی ہیروئن کے ساتھ پھر کوئی سانحہ پیش آیا ہو گا جس کو نازمین ان دنوں بڑے چاؤ سے پڑھ رہی تھی اور جس کی ہیروئن سے اس کو دلی رغبت ہوگئی تھی۔ اس کو کچھ بھی ہوتا تو وہ رونے لگ جاتی تھی۔ سمیرا نے محسوس کیا کہ نازمین کو اس کا ہنسنا ناگوار گزرا ہے۔ اس نے اپنی ہنسی روکی اور پوری توجہ کے ساتھ پوچھا جو اس کو ہنستا دیکھ بالکل خاموش ہوگئی تھی، ’’ارے نازمین بتاؤ نا کیا ہوا ہے، پھر سے کچھ ہوا کیا تمہاری ہیروئن کے ساتھ؟‘‘
’’اس کے ساتھ کیا ہوا یہ تو پتا ہی نہیں چل سکا مگر بنت ِ حوا کے ساتھ ضرور کچھ ہوا ہے۔‘‘
’’خیریت تو.... ایسا کیوں کہہ رہی ہو تم؟‘‘
’’ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں.... اس کے ساتھ ضرور کچھ برا ہوا ہے تبھی اس نے ناول کو نامکمل چھوڑ دیا۔ اب وہ آگے نہیں لکھے گی۔‘‘ نازمین نے اداس چہرے کے ساتھ جواب دیا۔ ’’سچ بتاؤ....‘‘ اس کی اس بات پر سمیرا بھی چونک پڑی تھی۔ ’’مجھے لگا تم کو معلوم ہوا....‘‘
’’نہیں یار مجھے کیوں معلوم ہوگا، تم کو تو پتہ ہی ہے کہ مجھے ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
’’ویسے تم تو کہہ رہی تھیں بہت اچھا ناول ہے۔ لوگ دیوانے ہو رہے ہیں۔ تو پھر ایک بات بتاؤ کہ یہ اچانک اخبار نے اس کی اشاعت کیوں روک دی؟‘‘
’’وہی تو بات ہے۔ اشاعت اخبار والوں نے روکی ہے نہ ہی کسی اور نے بلکہ خود بنت ِحوا نے آئندہ کی قسطوں کو لکھنے اور شائع کروانے سے منع کر دیا ہے اور اس کیلئے معذرت بھی کی ہے۔‘‘ ’’ارے! تب تو تمہارا بڑا نقصان ہوگیا؟ اب تک کی ساری محنت ضائع ہو گئی....‘‘ اب کے چونکنے کی باری سمیرا کی تھی۔
’’وہ چھوڑو، مَیں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ عین وقت پر ادھورا چھوڑ دیا....‘‘
’’ممم.... یہ بات تو واقعی قابل غور ہے !‘‘
’’ مجھے تو بڑی فکر ہو رہی ہے جب سے مجھے یہ پتہ چلا۔ اب پتہ نہیں اس بے چاری کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟ اب وہ کہاں جائے گی؟‘‘
’’ارے اپنے گھر میں رہے گی اور کہاں جائے گی اور ضروری تو نہیں کہ کچھ ہوا ہی ہو، ویسے ایک بات کہوں۔‘‘
’’ہاں، کہو!‘‘
’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے آگے وہ سمجھ ہی نہ پا رہی ہو کہ کیا لکھے!‘‘
’’اوفوہ سمیرا.... مَیں بنت حوا کی نہیں، آمنہ کی بات کررہی ہوں۔‘‘ ’’اب یہ کون ہے؟‘‘ اس نے شانے اچکاتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں بتایا تو تھا۔ وہی آمنہ جس نے....‘‘
’’اچھا اچھا، یاد آگیا، تمہاری مظلوم ہیروئن۔ بس بھی کرو یار نازمین اب کام پر بھی دھیان دو۔ مجھے یہ آرٹیکل اگلے ایک گھنٹے میں دینا ہے۔ آؤ میری مدد کرو۔‘‘ سمیرا نے اپنے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جانے دو کوئی فائدہ نہیں تم سے بات کرنے کا۔ اور مجھ سے تو آج بالکل کام نہیں ہوگا۔ مَیں ’سِک لیو‘ لے رہی ہوں۔ تم خود ہی کر لو یہ۔ تم ویسے بھی پتھر دل ہو۔‘‘ اس نے مدد تو نہیں کی الٹا سنا دیا۔
’’مَیں پتھر دل نہیں، حقیقت پسند ہوں بس۔ ‘‘ سمیرا نے جان بوجھ کر تیز آواز میں کہا تھا تاکہ کیبن سے باہر جاتی ہوئی نازمین سن سکے اور وہی ہوا۔ اتنا سنتے ہی وہ جاتے جاتے رک گئی اور اس کی طرف مڑ کر کہا، ’’ناولوں میں بھی حقیقت ہی ہوتی ہے سمیرا۔‘‘
’’بالکل نہیں، یہ ساری کی ساری کہانیاں اور یہ ناول سب فرضی اور من گھڑت ہوتے ہیں۔ آج کل کے قلم کار لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے اس طرح کی حساس کہانیاں لکھتے ہیں۔‘‘
’’ایسا بالکل بھی نہیں ہے، یہ فرضی کہانیاں بھی حقیقت ہی سے ماخوذ ہوتی ہیں اور ان کے لکھے جانے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا نہیں بلکہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوتا ہے۔‘‘
’’نازمین اب تم جذباتی ہو رہی ہو۔ بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، ایسی خبریں میری نظروں سے روز گزرتی ہیں، اب ان کو دل سے لگا کر تو نہیں بیٹھ سکتی نا۔‘‘
’’مَیں تم کو کل اخبار کے تراشے لا کر دوں گی، ان کو پڑھنا پھر بتانا۔‘‘ وہ اسے چیلنج کرکے جاچکی تھی۔
’’ اوکے!‘‘ سمیرا نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
سمیرا ایک تعلیم یافتہ اور خود مختار لڑکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر نا کامی کو مات دیتی ہوئی آئی تھی۔ ایک پُر امید اور حوصلہ مند لڑکی ہونے کے سبب وہ محنت مشقت سے بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اب تک زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرتی آرہی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنی خواہش سے لندن جا کر جرنلزم اور ماس کمیونی کیشن میں بیچلر اور ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی تھی اور سخت محنت اور جدو جہد سے اب اس نے صحافت کی دنیا میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ اس کے پیشے کا اس کی شخصیت سے گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی، خیالی اور تصوراتی چیزوں کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کو بات بات پر مظلومیت اور لاچاری کا اظہار کرنے والی خواتین بالکل پسند نہیں تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر انسان چاہے تو اپنی تقدیر بدلنے پر بھی قادر ہے۔
سمیرا نے اپنی زندگی میں کسی بھی چیز کو اپنے لئے باعث غم نہیں بننے دیا تھا۔ حالانکہ وہ ماں جیسی عظیم نعمت سے محروم تھی لیکن اس غم کو بھی اس نے کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس کے نزدیک مایوسی و نا اُمیدی، یاس و حسرت کامیابی کی راہ میں حائل ہونیوالے وہ روڑے ہیں جو انسان کو مسلسل پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ اس کو اس کے منہ پر ہی پتھر دل کہہ دیتے تھے مگر اس سے اس کی طبیعت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ابھی بھی نازمین کی تمام باتوں کو بھول کر وہ آرٹیکل لکھنے میں مگن تھی۔
لمبے قد، دمکتی رنگت، مخمور آنکھیں اور بھرے بدن والا فاخر آج سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ اور سفید ٹراؤزر میں بالوں کو جیل کی مدد سے سلیقے سے سیٹ کئے ہوئے بے حد اسمارٹ لگ رہا تھا۔ آفس میں لڑکیوں کی نگاہیں نہ چاہتے ہوئے بھی گھوم پھر کر فاخر پر ہی ٹھہر رہی تھیں۔ دراصل آج احمد انڈسٹریز کی ایک اہم میٹنگ تھی جس میں بیرون ملک سے کئی بڑے بزنس مین آنے والے تھے۔ اب چونکہ اس کے باس یعنی احمد صاحب کے نزدیک فاخر سے زیادہ قابل اعتبار اور وفادار کوئی دوسرا نہیں تھا اس لئے ان سے ملاقات کے لئے انہوں نے پورے آفس میں اسی کا انتخاب کیا تھا۔
’’جی سَر.... جی مَیں اب پہنچ چکا ہوں، جی فائل مجھے مل گئی ہے۔ جی آپ بالکل فکر نہ کریں مَیں نے اس کو اچھی طرح لاک کر دیا ہے، سَر آپ بے فکر رہیں میں ۱۰؍ منٹ کے اندر اندر آفس پہنچ جاؤں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے موبائل ٹراؤزر کی جیب میں رکھا اور تیز قدموں سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ ابھی دو ہی سیڑھیاں اترا ہوگا کہ اس کے قدم پھر رک گئے، ’’ایک مرتبہ پھر چیک کر لیتا ہوں، حرج ہی کیا ہے؟‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور ٹراؤزر کی جیب سے چابی نکال کر دروازے کے لاک میں لگا دی۔
احمد وِلا کی دوسری منزل پر سب سے کونے میں بنا ہوا وہ چھوٹا سا تاریک کمرہ احمد انڈسٹریز کے مالک احمد صاحب کا اسٹڈی روم تھا۔ جہاں جانے کی اجازت ان کی اکلوتی بیٹی کو بھی نہیں تھی لیکن آج میٹنگ کیلئے کچھ بہت اہم کاغذات فوراً درکار ہونے پر انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی مجبورا ًیہ قدم اٹھانا پڑا۔ چونکہ اس وقت ان کا آفس میں رہنا بھی ضروری تھا سو فاخر کو وہاں بھیجنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ فوراً اندر گیا اور وقت ضائع کئے بغیر اُس الماری کے سامنے پہنچا جس کو ٹھیک سے بند کرنے کی اس کے باس بار بار تاکید کررہے تھے۔
اس نے ایک دوسری چابی نکال کر الماری میں لگا کر چیک کرنا چاہا کہ ٹھیک طرح سے لاک ہے یا نہیں۔ چابی لگانے سے لاک کھل گیا۔ وہ دوبارہ بند کرنے ہی والا تھا کہ اوپر کی دراز میں رکھی ہوئی ایک کتاب اس کے ہاتھ سے سرکتے ہوئے نیچے جا گری اور ایک لفافہ نکل کر باہر آ گیا۔ اس نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اندر ایک خط تھا جس کی زرد رنگت اس بات کی دلیل تھی کہ وہ آج یا کل کا نہیں کافی پراناہے۔ اسے تجسس تو ہوا لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس کو پڑھتا۔ ’’لیکن نہ پڑھا تو یہ تجسس بڑھتا ہی جائے گا اور بے چینی کی شکل اختیار کر لے گا اور پھر دوبارہ یہاں آنے کا موقع بھی تو نہیں ملے گا۔‘‘ وہ کتاب اور کاغذ ہاتھ میں پکڑے ہوئے خود سے ہی باتیں کئے جا رہا تھا۔ پھر اس نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے لفافہ ٹراؤزر کی جیب میں ڈالا اور کتاب واپس اپنی جگہ پر رکھ کر الماری بند کر دی۔ ایک لمبا سانس لیتے ہوئے فوراً وہاں سے باہر نکلا۔ جیسے ہی وہ دروازہ بند کرکے گھوما وہ اس کے بالکل سامنے کھڑی تھی۔ نیلی جینز اور گھٹنوں تک آتی سفید شرٹ پر بالوں کو اونچی پونی کی شکل میں باندھے وہ بے حد پُر اعتماد لگ رہی تھی۔
ایک دوسرے کو اس طرح اچانک آمنے سامنے دیکھ کر دونوں ہی ششدر رہ گئے تھے۔
’’آپ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘ فاخر نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ میرا گھر ہے جناب! مَیں جب چاہوں یہاں آجا سکتی ہوں۔ یہ سوال آپ کو مجھ سے نہیں بلکہ مجھے آپ سے کرنا چاہئے کہ آپ یہاں اس وقت ڈیڈی کی اسٹڈی روم میں کیا کر رہے ہیں....‘‘ اس نے فاخر پر نظریں جماتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
سمیرا کے اس سوال پر وہ مزید گھبرا گیا تھا۔
چند سیکنڈز کے بعد خود کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’جی مَیں.... مَیں تو یہاں چوری کے ارادے سے آیا تھا مگر افسوس کہ اتنے عالیشان گھر میں مجھے چرانے لائق کچھ ملا ہی نہیں۔ پتہ ہے کیوں....؟‘‘
’’واٹ؟‘‘ اس نے اچنبھے سے شانے اچکائے۔
’’جی.... پتا ہے کیوں؟ کیونکہ جو اس گھر میں سب سے زیادہ قیمتی ہے، جب مَیں آیا تو وہ گھر میں موجود ہی نہیں تھا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے ایک دو تین ہوگیا۔
سمیرا کو ایک منٹ بھی نہیں لگا تھا یہ سمجھنے میں کہ فاخر کا اشارہ کہیں اور نہیں بلکہ خود اس کی طرف تھا۔ فاخر نے پہلی مرتبہ اس طرح کی گفتگو صرف اور صرف اپنی جان بچانے کے لئے کی تھی اور سمیرا نے اسے کچھ اور ہی سمجھ لیا تھا۔ اس کے لبوں پر ایک گہری مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
فاخر سمیرا کے والد یعنی احمد صاحب کی کمپنی میں گزشتہ چار برسوں سے منیجر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
احد صاحب اور فاخر کے ابو جی کے پہلے سے ہی کافی اچھے تعلقات تھے پھر جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو کہیں اور جانے کے بجائے اپنے والد کے کہنے پر احمد صاحب کی کمپنی میں لگ گیا۔ وہ اس کی جفاکش طبیعت اور وفاداری دیکھ کر اس سے کافی متاثر ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے لڑکا تلاش کرنا شروع کیا تو ان کی نظر انتخاب سب سے پہلے فاخر پر گئی۔ وہ اس رشتے سے کافی مطمئن تھے مگر اس سے پہلے انہوں نے ان دونوں کی مرضی جاننا بھی ضروری سمجھا۔ پہلے وہ سمیرا کی مرضی جاننا چاہتے تھے۔ عموماً یہ کام مائیں کرتی ہیں اب چونکہ سمیرا کی زندگی میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا اس لئے اب تک کے تمام فرائض کی طرح یہ فرض بھی انہیں خود ہی ادا کرنا تھا۔
پچھلی رات ہی کھانا کھانے کے بعد انہوں سمیرا کو اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ وہ بہت پیار سے اس سے گویا ہوئے، ’’سمیرا بیٹا مَیں نے اس وقت تم کو یہاں اس لئے بلایا ہے کیونکہ بیٹا مَیں کافی دنوں سے تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’جی ڈیڈی! پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ۔‘‘ اس نے بڑے ادب سے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو بیٹا! دنیا کا کوئی بھی باپ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو خود سے جدا کرے لیکن ہمارے معاشرے میں روز اول سے ہی ایک رسم چلی آرہی ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب ہم باپ دل پر پتھر رکھ کر اپنی جان سے زیادہ عزیز بیٹیوں کو دوسروں کے حوالے کرتے ہیں جسے عرف عام میں شادی کہتے ہیں۔ بیٹا اب وہ وقت قریب ہی ہے جب مجھے بھی بحیثیت ایک باپ اپنا آخری فرض ادا کرنے کے لئے اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ حالانکہ یہ لمحہ ہمارے لئے کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ بات صرف ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔ سمیرا بیٹا جب تمہاری امی کا انتقال ہوا تو اس وقت تم صرف دو سال کی تھی تب سے لے کر آج تک میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ تم کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے مَیں نے ہمیشہ ہر چیز میں تمہاری خوشی چاہی جو کہ دراصل میری خوشی ہے اور مَیں اب یہی چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو اور اسی لئے مَیں نے تم کو یہاں بلایا تا کہ اس سلسلے میں اگر تمہارے دل میں کوئی بات ہو جو شاید تم مجھ سے کہنے میں جھجک محسوس کر رہی ہو وہ مَیں جان سکوں.... بیٹا تم اپنے دل کی بات بلا تکلف اپنے باپ سے کہہ سکتی ہو....‘‘
’’ڈیڈی میرے دل میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جو مَیں نے آپ سے نہ کہی ہو۔ مَیں آج تک اپنی ہر بات آپ سے کہتی آرہی ہوں، اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو مَیں اسے بھی آپ سے ضرور ساجھا کرتی۔‘‘ وہ بغیر کسی جھجک براہ راست کہہ رہی تھی۔ اس کی طرف سے یہ جواب سنتے ہی انہوں نے اپنی بات رکھ دی۔
’’بیٹا فاخر تم کو کیسا لگتا ہے؟ اگر مَیں فاخر سے تمہاری شادی کروں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟‘‘
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ڈیڈی۔ میرے حق میں کیا گیا آپ کا ہر فیصلہ میری خوشی کا باعث بنتا ہے سو جو آپ کو بہتر لگے کریں۔‘‘اس کی اس بات پر وہ بیڈ سے اٹھ کر اس کے صوفے کے پاس گئے اور اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’جیتی رہو میری بچی! مجھے تم سے یہی امید تھی۔ مَیں فاخر سے اس کی مرضی پوچھ کر پھر ا س کے والدین سے بات کروں گا۔ مجھے امید ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔‘‘
شام کے سائے ڈھل چکے تھے سمیرا لان میں اکیلی بیٹھی احمد صاحب کا انتظار کر رہی تھی۔ ہر اتوار کی طرح اس اتوار بھی اس کا ارادہ احمد صاحب کے ساتھ کہیں باہر جانے کا تھا مگر انہیں اپنے کسی دوست کی عیادت کے لئے اسپتال جانا تھا اس لئے وہ عصر پڑھ کر اُدھر ہی سے اسپتال چلے گئے۔ وہ کافی دیر سے بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی تھی تو اسے اس ناول کا خیال آیا۔ وہ اندر گئی اور اخبار کی ان کٹگز کو اٹھا لائی جو نازمین نے اسے دو روز پہلے دی تھی۔ نازمین نے انہیں با قاعدہ ایک فائل کی طرح ترتیب وار سنبھال کر رکھا تھا۔ اس نے پہلی قسط اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دیا:
گاؤں کے بیچوں بیچ بنی وہ عالیشان حویلی پرانے زمانے کے بادشاہوں کے محل سے کم نہیں تھی۔ قدرتی سے لے کر مصنوعی تک ہر طرح کی آرائش و زیبائش سے مزین یہ خوبصورت حویلی چودھری ظفر احمد کے پرکھوں کی زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ تھا۔ جس کو بنانے اور سجانے میں انہوں نے اپنی زندگیاں صرف کر دی تھیں اور اب یہ حویلی ظفر احمد کے حصے میں تھی۔ دولت کی اس قدر ریل پیل کے باوجود ظفر احمد ابھی مزید دولت کمانا چاہتے تھے اور اس کے لئے اب وہ شہر میں اپنا بہت بڑا کاروبار شروع کرنے والے تھے۔ اپنے اکلوتے بیٹے کو چار سال ملک سے باہر اپنے سے دور رکھ کر اسے جو تعلیم دلوائی تھی اس کے پیچھے بھی ان کا یہی مقصد تھا۔ غضنفر کو ایم بی اے کی ڈگری دلوا کر وہ پہلی چال میں تو کامیاب ہوگئے تھے اب وہ دوسری چال چلنے والے تھے۔ اب وہ غضنفر کی شادی اپنی رضاعی بیوہ بہن نصرت کی اکلوتی لڑکی آمنہ سے صرف اس لئے کروانا چاہتے تھے تا کہ ان کے باپ شہر میں پڑی جو زمین نصرت کے نام کر گئے ہیں وہ کسی طرح ان کو مل جائے۔ وہ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ اس غریب کے پاس اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کے لئے اس زمین کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی نصرت کو بلوا کر اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تھا۔
’’چودھری صاحب! یہ آپ صحیح نہیں کر رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غضنفر اس رشتے کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کرے گا۔‘‘ ’’بیگم تم خاموش رہو، مَیں نے جو فیصلہ کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور یہ سب کچھ مَیں غضنفر کیلئے ہی کر رہا ہوں۔‘‘’’ہرگز نہیں، یہ سب کچھ آپ اپنے فائدے کے لئے کر رہے ہیں، مَیں اس خاندان کی مفاد پرست طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اگر آپ کو غضنفر کی فکر ہوتی تو آپ آمنہ کو نہیں بلکہ بشریٰ کو اس گھر کی بہو بناتے۔‘‘
’’تم اور تمہارا بیٹا دونوں ناسمجھ ہیں۔ تم لوگ وہ نہیں سوچ سکتے جو مَیں سوچ رہا ہوں اور تمہیں علم نہیں کہ ایک یتیم لڑکی کو اپنے گھر لانے سے اللہ کتنا خوش ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے بہت اچھے سے علم ہے کہ یہ سب کس کی خوشی کی خاطر ہو رہا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ کی چند ایکڑ زمین کی لالچ ہمیں ہماری اولاد سے جدا نہ کروا دے....‘‘ وہ اب بھی سب کچھ روک دینا چاہتی تھیں۔
’’بس اس کے آگے ایک لفظ اور نہیں.... غضنفر کو کیسے راضی کرنا ہے یہ مَیں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور ہاں جب تک شادی نہیں ہوجاتی تم اپنی زبان بند رکھو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ چودھری ظفر احمد نے ہمیشہ کی طرح اپنا فرمان صادر کر دیا تھا۔
بیگم صاحبہ جو حقیقت جانتی تھیں اور اس حویلی کے ہر ایک فرد کی نس نس سے واقف تھیں وہ ایک سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔ لاچاری اور بے بسی کا احساس جو تھا سو تھا مگر اس سے کہیں زیادہ خوف اس بات کا تھا کہ اگر باپ اور بیٹے میں تکرار ہوگئی تو کیا ہوگا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ غضنفر آمنہ کے لئے کبھی ’ہاں‘ نہیں کرے گا اور دوسری طرف چودھری صاحب جن کو کبھی ’ناں‘ سننے کی عادت نہیں تھی۔ اور بشریٰ کا سوچ کر تو ان کا دل ہول رہا تھا۔ اگر غضنفر زور زبردستی سے راضی ہو بھی گیا تو بشریٰ کا کیا ہوگا؟ وہ تو جیتے جی مر جائے گی.... کیا سوچے گی وہ کہ خالہ نے اپنی یتیم بھانجی کے ساتھ اتنا گندا مذاق کیا۔ بیگم صاحبہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی تھیں جبکہ ظفر احمد بے حد اطمینان کے ساتھ پلنگ سے اٹھ کر کمرے کے باہر جا چکے تھے۔ جاتے وقت ان کی آنکھوں میں کوئی شیطانی چال تھی۔ گویا کہ وہ ترپ کا پتہ پھینکنے والے تھے۔
سورج غروب ہونے والا تھا۔ آمنہ معمول کے مطابق چھت کی سیڑھیوں پر خاموش بیٹھی بہت غور سے اس ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ تبھی نصرت چلّاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی، ’’آمنہ.... آمنہ.... کہاں گئی تو بیٹا؟‘‘
’’ کیا ہوا اماں....؟‘‘
’’بیٹا جلدی آ....‘‘
’’آرہی ہوں امّاں۔ ٹھہر ذرا....‘‘ ماں کی آواز پر آمنہ جلدی جلدی سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی۔ اس نے نصرت کو دیکھا وہ بہت ہڑبڑائی ہوئی تھی۔
’’کیا ہوا اماں.... سب خیر تو ہے.... حویلی والوں نے پھر سے کچھ کہا ہے تجھے؟‘‘
وہ اس سے سوال پر سوال کئے جا رہی تھی لیکن وہ کوئی جواب ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے کو ٹھری کے اندر لے گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ پلنگ پر بیٹھ کر پہلے ایک لمبا سانس لیا پھر اس کا چہرا اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی روشن پیشانی کو پیار سے بوسہ دیا۔ آمنہ نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے رہا نہ گیا،
’’کیا ہوا اماں.... یہ سب تو کیا کررہی ہے؟‘‘
’’مَیں کہتی تھی نہ کہ تیری قسمت میں ایک راجکمار لکھا ہے۔‘‘ ’’ہاں! لیکن یہ سب....‘‘
’’ادھر آ....‘‘ اس نے بہت آہستہ سے اس کے قریب جا کر کہنا شروع کیا، ’’حویلی والوں نے اپنے چھوٹے صاحب کے لئے مجھ سے تیرا ہاتھ مانگا ہے۔‘‘
’’یہ تُو کیا کر کہہ رہی ہے۔‘‘ وہ چونکتے ہوئے بولی۔
’’مَیں سچ کہہ رہی ہوں۔ چودھری تجھے اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’پھر تُو نے کیا کہا؟‘‘
’’مَیں کیا کہوں گی؟ مَیں نے تو فوراً ہاں کر دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا ارادہ بدل جائے؟ ارے تیری تو قسمت کھل گئی، مولا تیرا لاکھ لاکھ شکر....‘‘
اس کو خوشخبری سنا کر نصرت کو ٹھری سے باہر نکلی، کچے آنگن میں لگے ہوئے پرانے نلکے سے پانی نکال کر وضو کیا اور اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوگئی۔
آمنہ ابھی بھی اپنی جگہ پر ساکت بیٹھی تھی۔
’’چودھری تجھے اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں....!‘‘
غضنفر اور آمنہ کا کیا جوڑ ہو سکتا ہے بھلا....
ایک محلوں کا راجکمار اور ایک، آہ....!
اس نے اپنے اطراف پر نگاہ ڈالی۔ در و دیوار سے بوسیدگی ٹپک رہی تھی۔ گھر ایک کمرہ اور ایک صحن پر مشتمل چھوٹا سا کوارٹر تھا جو عرصہ پہلے اسکے ابّا کی موت کے بعد ظفر احمد نے انہیں اس وقت دیا تھا جب اس کے ددھیال والوں نے اسے اور نصرت کو منحوس کہہ کر گھر سے نکال دیا تھا۔
نگاہ اوپر کرکے دیکھا تو بھوسے اور مٹی سے بنی کچی چھت جگہ جگہ سے چٹکی ہوئی تھی جس پر نصرت آئے دن لیپ لگا کر مرہم پٹی کیا کرتی تھی۔ باہر چھوٹے سے صحن میں دائیں جانب گیرو کی مدد سے بنائے گئے ہاشیہ میں دو منہ والا چولہا اور اس کے قریب ہی دیوار میں کیل پر ان کے لکڑی کے پٹرے پر چند برتن اور کچھ دبے کچلے ڈبے رکھے تھے جو عمو ماً خالی رہتے تھے۔ بانس کو ستون بنا کر اس پر چھت کی شکل میں چھپر ڈالا گیا تھا۔ یہی ان کا باورچی خانہ تھا۔ بائیں ہاتھ پر او پر چھت پر جانے کے لئے مٹی کی سیڑھیاں تھیں اور انہی سیڑھیوں کے نیچے جو جگہ بنی تھی وہیں چار پائی کھڑی کرکے ڈال دی جاتی تو ان کا غسل خانہ بن جاتا تھا۔ اس کی نگاہیں ایک بار پھر کمرے میں لوٹ آئی تھیں۔ ایک پلنگ جس پر ابھی وہ بیٹھی تھی اور ایک ٹین کا پرانا ٹرنک اور اس کے علاوہ مچان پر رکھی اس کی اسکول کے زمانے کی چند کتابیں جنہیں بہت پہلے ابّا کی زندگی میں جب وہ چھٹی ساتویں جماعت میں تھی پڑھا کرتی تھی۔ یہی ان کا کل اثاثہ تھا۔ جسے اس نے چند منٹ پہلے اپنی انگلیوں پر گن لیا تھا۔ غضنفر کے جسم پر جو کپڑے ہوتے تھے ان کی قیمت بھی اس کے کل اثاثہ کو بیچ کر ادا نہیں کی جاسکتی تھی۔
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
نصرت نے جا کر دیکھا حویلی سے کچھ آدمی آئے تھے، ’’کل چودھری صاحب اپنے چار پانچ عزیزوں کے ساتھ رسم کے لئے آئیں گے۔ انہوں نے یہ رقم بھجوائی ہے اور کہلوایا ہے کہ انتظام میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ لوگ دروازے ہی سے واپس لوٹ گئے تھے۔
اگلے روز نصرت صبح اٹھتے ہی رسم کی تیاریوں میں لگ گئی تھی۔ اندر کوٹھری سے لے کر باہر صحن تک پورے گھر میں صاف صفائی کرنے کے بعد چونے اور گیرو سے لپائی کر دی تھی۔ پڑوس کے گھر سے کچھ کرسیاں اور تخت منگوا کر آنگن میں ڈلوائے۔ مہمانوں کے لئے ناشتے اور کھانے پینے کا انتظام کروایا۔ اس نے چودھری صاحب کی بھیجی ہوئی رقم میں سے ایک روپیہ بھی اپنے لئے بچا کر نہیں رکھا سب کچھ ان کے استقبال اور میز بانی پر صرف کر دیا تھا پھر بھی اس کا دل نہیں بھرا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا ور نہ حویلی سے لے کر گھر تک پورے راستے میں پھول بچھا دیتی۔ آج اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
شام ہوتے ہوتے چودھری صاحب اور بیگم صاحبہ چار پانچ قریبی رشتے داروں کو لے کر ان کے گھر آئے۔ آمنہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ تھوڑی دیر گفتگو کے بعد چودھری صاحب نے آمنہ کو بلوایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ پیسے اس کی تھیلی پر رکھ دیئے۔ وہاں سب کو گواہ بناتے ہوئے انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ پندرہ دنوں کے اندر اندر اس کو غضنفر کی دلہن بنا کر اپنی حویلی میں لے جائیں گے۔ انہوں نے بیگم صاحبہ کو اشارہ کیا تو انہوں نے مخملی ڈبیہ سے ایک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی نکال کر اس کی نازک انگلی میں ڈال دی۔
پچھلی رات تو کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد نیند آ بھی گئی تھی لیکن آج ساری رات ایک لمحے کے لئے بھی وہ سو نہیں سکی تھی۔ یہ بات اس کے لئے قابل یقین نہیں تھی کہ وہ چودھریوں کے خاندان کی بہو بننے والی ہے۔ سمندر کی مانند خاموش رہنے والی آمنہ کی زندگی میں یہ واقعہ زور سے پھینکے جانے والے پتھر کی مانند تھا۔
چودھری صاحب کے وعدے کے مطابق پندرہ دنوں کے اندر ہی اس کا اور غضنفر کا نکاح ہوگیا تھا۔ نصرت بے چاری کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لئے نہ تو زیورات تھے نہ ہی جہیز سوائے شہر میں جو اس کی چند ایکڑ زمین تھی اس کو ہی جہیز میں دے ڈالا۔ چونکہ آمنہ پڑھی لکھی نہیں تھی اس لئے چودھری صاحب کے مشورے پر زمین کے کاغذات غضنفر کے نام کروا دیئے تھے۔
نصرت کی دعائیں دامن میں لئے وہ اپنے چھوٹے سے گھر سے سیدھا حویلی پہنچ گئی تھی۔ ابتداء میں تین چار ماہ تک غضنفر کا رویہ اس کے ساتھ اچھا تھا لیکن جب سے وہ امید سے ہوئی تھی اس کے بعد ہی سے غضنفر کے مزاج میں ایک عجیب سا چڑ چڑا پن شامل ہوگیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اس سے بیزاری کا اظہار کرنے لگا اور اس کے اندر اس کو طرح طرح کی خامیاں نظر آنے لگیں۔ وہ کبھی اس کو اس کے کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے جاہل کہتا کبھی اس کی غریبی کا اسے طعنہ دیتا تو کبھی اس کیلئے پھوہڑ اور بدسلیقہ جیسے الفاظ استعمال کرتا۔ وہ کئی دفعہ اسے سب کے سامنے ذلیل بھی کر چکا تھا۔ آمنہ اس کے اس رویہ سے اندر ہی اندر ٹوٹتی جا رہی تھی۔ حمل کے ۳؍ ماہ گزر چکے تھے ایسے میں اسے غضنفر کے پیار اور توجہ کی سخت ضرورت تھی مگر وہ اکثر کئی کئی دن غائب رہتا اور آمنہ وجہ پوچھتی تو وہ اس پر چڑھ بیٹھتا۔
اس دفعہ پھر وہ اسے بغیر کچھ بتائے چلا گیا اور پورے دو ہفتے کے بعد واپس آیا۔ یہ دو ہفتے آمنہ پر بہت بھاری گزرے تھے۔ وہ نہ تو اپنی ماں سے اپنا درد بانٹ سکتی تھی کہ وہ بے چاری صدمے ہی سے مر جائے گی اور نہ ہی حویلی میں کسی سے اپنا حال کہہ سکتی تھی۔ بیگم صاحبہ کے علاوہ اس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں تھا لیکن وہ بھی چودھری صاحب کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔ وہ جو بڑے شان سے اس کو بہو بنا کر لے گئے تھے وہ دوبارہ اس کے پاس کبھی حال پوچھنے بھی نہیں آئے تھے۔
آمنه غم و غصے میں بھری بیٹھی تھی جیسے ہی غضنفر نے کمرے میں پہلا قدم رکھا وہ پوچھ بیٹھی، ’’کہاں تھے آپ؟‘‘ ’’تم سے مطلب، مَیں کہاں تھا؟‘‘ اس نے تیز آواز میں چلّا کر کہا۔
’’شادی ہوئی ہے ہماری غضنفر، مَیں بیوی ہوں آپ کی اور آپ کے ہونے والے بچے کی ماں بھی۔‘‘ اس کا اتنا کہنا کہ وہ پھٹ پڑا۔
’’چپ ہو جاؤ تم.... کیسی بیوی کیسی شادی، وہ سب ایک جھوٹ تھا، جھوٹ بولا تھا سب نے، کوئی شادی وادی نہیں تھی وہ، سب کچھ اس زمین کے لئے کیا گیا تھا۔ نفرت کرتا ہوں مَیں تم سے نفرت، مَیں بریرہ سے محبت کرتا تھا اور تم سے شادی کرنی پڑی مجھے.... تمہاری وجہ سے بریرہ مجھ سے ناراض ہوگئی تھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی.... کتنی مشکلوں سے مَیں نے اسے پھر سے شادی کے لئے راضی کیا ہے اور تم ہو کہ....‘‘ ’’آپ دوسری شادی کریں گے....‘‘ وہ حیرانی کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔
’’ہاں!‘‘
’’لیکن غضنفر م م م.... میرا کیا ہوگا....؟‘‘ اس کا لہجہ التجائیہ تھا یوں جیسے وہ اس سے اپنے رشتے کی بھیک مانگ رہی ہو۔ ’’مجھے نہیں پتا کہ تمہارا کیا ہوگا.... تمہیں جتنے پیسے چاہئے مجھ سے لے لومگر خدا کیلئے میرا پیچھا چھوڑ دو، چلی جاؤ یہاں سے ہمیشہ کیلئے اور دوبارہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا...‘‘
ایک ہی نشست میں پانچویں قسط مکمل ہوچکی تھی۔ اس نے میز پر رکھی کٹنگز میں سے اگلی قسط اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھانا چاہا مگر یہ کیا۔ کٹنگز تو ختم ہوچکی تھیں۔
’’مگر اس کے بعد کیا ہوا ہوگا؟‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچے جا رہی تھی۔ تبھی ڈور بیل بجی اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ سامنے اداس چہرے اور نم آنکھوں کے ساتھ احمد صاحب کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا ڈیڈی.... سب خیریت تو ہے، آپ رو کیوں رہے ہیں؟‘‘ انہیں اس قدر اداس دیکھ کر اس کو فکر ہونے لگی تھی۔
’’بیٹا! مَیں جنہیں دیکھنے گیا تھا ان کا ابھی کچھ دیر پہلے میرے سامنے ہی انتقال ہوگیا۔ ان کی ایک بیٹی ہے تمہاری طرح، وہ جاتے جاتے اس کو مجھے سونپ گئے ہیں، کل ان کی آخری رسومات ادا ہونے کے بعد مَیں اسے اپنے ساتھ یہاں لے آؤں گا، اسے تم اپنی بہن کی طرح سمجھنا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ سمیرا پہلی بار ان کو کسی کی موت پر اس قدر رنجیدہ دیکھ کر حیران تھی۔
احمد صاحب اس وقت اپنے آفس میں بیٹھے کسی گہری سوچ میں مبتلا تھے جب وہ دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اندر آیا اور کہا، ’’سر، مَیں سمیرا سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
سمیرا اور فاخر کے رشتے کے سلسلے میں سمیرا کی جانب سے مثبت جواب ملنے کے بعد وہ بے حد خوش تھے۔ انہوں نے بغیر کسی بات کا انتظار کئے اگلے روز ہی جب میٹنگ ختم ہوئی تو فاخر کو اپنے آفس میں بلا کر براہِ راست اس سے اس رشتے کے لئے اس کی مرضی پوچھ لی۔ انہیں اس کی طرف سے بھی ’ہاں‘ کی امید تھی مگر انہیں حیرانی ہوئی جب فاخر نے انہیں صاف منع کر دیا اور تو اور اس نے انکار کی وجہ بتانے سے بھی گریز کیا۔
اس بات کو تقریباً ایک ماہ گزر چکا تھا اور اب تک سمیرا بھی یہ جان چکی تھی کہ فاخر نے انہیں منع کر دیا ہے۔
حالانکہ اسے تکلیف ضرور ہوئی تھی پھر بھی اس نے نہ تو احمد صاحب کو کچھ ظاہر ہونے دیا نہ ہی فاخر سے اس انکار کی وجہ پوچھی۔ احمد صاحب اس کی بات سن کر پہلے تو حیران ہوئے لیکن پھر مسکرا دئیے۔ یوں جیسے اس وقت فاخر کے اس جملہ سے انہیں ان کی تمام پریشانیوں کا حل مل گیا ہو۔
’’بیٹھ جاؤ، آرام سے بات کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کرسی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ فاخر کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ اور کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔
’’دیکھو فاخر مَیں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ اُس وقت تم نے انکار کیوں کیا تھا اور اب تم اچانک راضی کیسے ہو گئے۔ یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب شاید سمیرا اس شادی کے لئے تیار نہ ہو۔‘‘
’’کوئی بات نہیں سر، مَیں نے تو اس لئے آپ کو بتا دیا تھا کہ شاید آپ نے سمیرا کو نہ بتایا ہو۔‘‘
’’ایک منٹ رکو....‘‘ وہ کرسی سے اٹھ ہی رہا تھا کہ انہوں پھر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’اگر مَیں تم سے کہوں کہ سمیرا کے بجائے عروہ سے شادی کر لو تو....‘‘
’’عروہ.... مگر وہ تو آپ کے دوست کی بیٹی....‘‘
’’ہاں میرے دوست کی بیٹی ہے بلکہ تم یوں سمجھو کہ میری ہی بیٹی ہے....‘‘ انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اگر ایسا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر مَیں تمہارے والد صاحب سے بات کرتا ہوں۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے۔‘‘
’’کیا اب مَیں جا سکتا ہوں سر؟‘‘ ’’بالکل!‘‘ ان کے چہرے پر اطمینان بخش مسکراہٹ تھی۔
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی احمد وِلا سے ہو کر آیا تھا۔ احمد صاحب کے انتقال کا آج تیسرا دن تھا۔
۶؍ ماہ پہلے جب اس نے عروہ سے طلاق لی تھی اسی دن احمد انڈسٹریل سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا اور اس دن کے بعد سے اس نے دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا تھا۔
۲؍ روز پہلے جب وہ تیار ہو کر آفس کے لئے نکل رہا تھا تب سمیرا نے اسے کال کرکے احمد صاحب کے انتقال کی خبر دی تھی۔ اس دن وہ وہاں گیا تو تھا مگر اس کی سمیرا سے بات چیت نہیں ہوسکی تھی اس لئے آج ایک مرتبہ پھر اس کا حال پوچھنے وہاں چلا گیا۔
’’مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ احمد سَر اب ہمارے درمیان نہیں ہیں....‘‘ وہ سمیرا کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا کہہ رہا تھا۔
’’مَیں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ڈیڈی اتنی جلدی مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ سب کچھ بہت اچانک ہوا۔ جس وقت تمہاری اور عروہ کی شادی ہوئی وہ بہت خوش تھے لیکن پھر تم نے اچانک عروہ کو طلاق دے دی اور بغیر وجہ بتائے یہاں سے چلے گئے۔ تمہارے یہاں سے جانے کے کچھ دن بعد ہی عروہ بھی اپنے گھر چلی گئی تھی۔ ڈیڈی نے بہت چاہا کہ وہ یہاں آکر رہے مگر وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئی۔ عروہ کے ساتھ جو ہوا اس کے لئے وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بولنا اور بات کرنا بھی بہت کم کر دیا تھا۔ وہ گھر آنے کے بعد سارا وقت اپنی اسٹڈی روم میں بیٹھے رہتے تھے....‘‘ بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی اور وہ سسکیوں کے ساتھ رونے لگی۔
’’بس کرو سمیرا، کیوں گزری باتوں کو دہرا کر اپنے آپ کو تکلیف دے رہی ہو۔‘‘
’’فاخر مجھے اب سمجھ آرہا ہے کہ ڈیڈی مجھ سے دور اسی لئے رہنے لگے تھے تاکہ مجھے ان کے بغیر رہنے کی عادت ہوجائے۔‘‘
’’سمیرا پلیز چپ ہو جاؤ۔ تم اگر اس طرح روؤں گی تو احمد صاحب کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔ تم تو بہت مضبوط لڑکی ہو نا تو پھر یہ آنسو کیسے؟ گڈ گرلز روتی نہیں ہیں.... اب چلو جلدی سے اپنے آنسو پونچھ لو.... شاباش....‘‘ وہ اسے بچوں کی طرح سمجھانے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرا دی۔
وہ جب نارمل ہوئی تو وہ جانے کے لئے کھڑا ہوگیا مگر سمیرا کی آواز پر اسے پھر رکنا پڑا، ’’فاخر مَیں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں؟‘‘
’’مجھ سے سوال، اچھا ٹھیک ہے پوچھو....‘‘
’’فاخر جب تم نے میرے رشتے سے انکار کیا تو مجھے دکھ ہوا تھا لیکن جس وقت تم نے عروہ کو طلاق دی اس وقت مجھے حیرانی ہوئی تھی، کیا مَیں ان کے پیچھے کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘
’’ان دونوں باتوں کے پیچھے وجہ ایک ہی ہے، وہ یہ کہ مَیں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔ عروہ سے شادی مَیں نے اس لئے کرلی تھی کیونکہ مَیں اپنی محبت کی طرف سے نا اُمید ہوگیا تھا، کسی نہ کسی سے تو شادی کرنی ہی تھی اس لئے سَر کے کہنے پر عروہ سے کر لی۔ چونکہ مَیں اپنی محبّت کو بھول نہیں پا رہا تھا اور میرے اندر محبّت کی ناکامی کا جو غصہ بھرا ہوا تھا وہ مَیں عروہ پر نکال کر اس پر ظلم کر رہا تھا اس لئے مَیں نے اسے طلاق دے دی....‘‘ وہ ایک سانس میں بول کر چپ ہوگیا۔
سمیرا جھٹ پوچھ بیٹھی،’’کیا مَیں تمہاری اس ناکام محبّت کا نام جان سکتی ہوں؟‘‘
’’بنت ِ حوا۔‘‘
یہ نام سنتے ہی سمیرا کو جھٹکا سا لگا پھر کچھ سنبھلتے ہوئے اگلا سوال کر ڈالا، ’’فاخر تم کب تک اپنی اس ناکام محبّت کا سوگ مناتے رہو گے؟‘‘
’’جب تک زندہ رہوں گا....‘‘ اس کے اس جواب پر وہ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہ گئی اور پھر ایک آخری سوال کیا، ’’اگر بنت حوا تمہیں مل گئی اور اس نے تم کو اپنانے سے انکار کر دیا، کیا اس وقت تم میرے پاس آؤ گے؟‘‘
’’سمیرا تم نے مجھ سے ایک سوال پوچھنے کو کہا تھا اور اب تک مَیں تمہارے کئی سوالوں کے جواب دے چکا ہوں لیکن تمہارے ہر سوال کا جواب نہیں ہے میرے پاس.... مجھے دیر ہو رہی ہے اب مَیں چلتا ہوں....‘‘
جب وہ وہاں سے لوٹنے لگا تو سمیرا نے اسے اس کا وہ سامان بھی لوٹا دیا جسے وہ جاب سے ریزائن کرتے وقت اپنے آفس کیبن میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ وہ سامان اٹھا کر الماری میں رکھنے لگا تو اس کی نظر ایک زرد لفافے پر پڑی۔ یہ وہی لفافہ تھا جسے اس نے ایک مرتبہ احمد صاحب کی الماری سے نکالا تھا مگر اسے رکھ کر بھول گیا تھا۔ آج یہ لفافہ پھر اس کے ہاتھ لگا تھا اس نے اس لفافے کو کھول کر پڑھنا شروع کیا:
’’بشیر احمد عرف چھوٹے صاحب!
اُمید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور اپنی نئی زندگی میں خوش ہوں گے۔
یوں تو زندگی میں پہلے کبھی آپ کو خط لکھنے کا اتفاق ہوا نہ ضرورت محسوس ہوئی۔ لیکن آج زندگی میں پہلی بار آپ کو خط لکھ رہی ہوں اس لئے نہیں کہ اس مشکل وقت میں آپ آکر میری مدد کریں بلکہ صرف یہ بتانے کے لئے آج مجھے بیٹی ہوئی ہے۔
آج سے ایک سال قبل جب میری بھولی بھالی ماں نے خوشی سے جھومتے ہوئے مجھے یہ خبر سنائی تھی کہ چودھری صاحب تجھے اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے تو مَیں حیران رہ گئی تھی۔ مجھے اپنی خوش قسمتی پر بالکل یقین نہیں آرہاتھا کیونکہ اس سے پہلے زندگی مجھ پر کبھی بھی اتنی مہربان نہیں ہوئی تھی۔
یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ مَیں کبھی چودھری صغیر احمد کے اکلوتے صاحبزادے بشیر احمد یعنی آپ کی بیوی بنوں گی۔ لیکن جب اگلے روز بڑے صاحب نے آکر نوٹوں سے بھری ایک گڈی میرے ہاتھ پر رکھ دی اور بیگم صاحبہ مجھے آپ کے نام کی انگوٹھی پہنا گئیں تو مجھے پہلی بار اپنی قسمت پر رشک ہوا۔ مَیں جب بھی اس انگوٹھی کو دیکھتی تھی مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا مَیں دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہوں۔ یوں تو ہمارا کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اور مجھے نہیں یاد جو مَیں نے بچپن میں بھی آپ کو کبھی دیکھا ہو اس کے باوجود اس دن کے بعد ہی سے لاشعوری طور پر میرے دل و دماغ میں آپ کی ایک تصویر بنتی جا رہی تھی۔ کب میرے دل کے سادہ کینوس پر آپ کا عکس ابھرتا چلا گیا مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔ روز بروز آپ کے لئے میری محبّت گہری ہوتی جا رہی تھی۔ پھر وہ دن بھی جلد ہی آگیا جب میرے ہاتھوں پر آپ کے نام کی مہندی رچائی گئی۔ مَیں نے محسوس کیا تھا کہ آس پڑوس کی ہرلڑ کی مجھ پر رشک کر رہی تھی۔ اگلے روز مَیں اپنے چھوٹے سے گھر سے نکل کر حویلی آچکی تھی۔ جب حویلی میں سب مجھے بشیر کی دلہن اور چھوٹی بیگم صاحبہ کہہ رہے تھے اس وقت مَیں نے خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ شادی کے بعد آپ کا رویہ میرے ساتھ بس لئے دئیے کا ہی تھا مگر مَیں اس پر بھی خوش تھی۔ مَیں یہی سمجھ رہی تھی کہ ہمارے درمیان جو بھی تھوڑا بہت فاصلہ ہے اس کی وجہ ہماری حیثیت اور سوچ کا الگ ہونا ہے، کہاں مَیں آٹھ تک پڑھی گاؤں کی ایک معمولی لڑکی اور کہاں آپ جو باہر سے پڑھ کر آئے تھے اور پھر چودھری صغیر احمد کے بیٹے تھے۔
مجھے اُمید تھی کہ میری محبّت ایک دن یہ فاصلہ بھی ختم کر دے گی۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ آپ کے بنائے ہوئے ہر سانچے میں ڈھل جاؤں لیکن جب یہ سانچه روز بروز بدلتا ہی گیا تو مَیں نااُمید ہوگئی۔
مَیں ہار ماننے ہی والی تھی کہ مجھے پھر سے ایک اُمید اس وقت ملی جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے جسم میں ایک ننھا وجو د سانس لے رہا ہے۔ مجھے لگا تھا یہ خبر سنتے ہی آپ خوشی سے جھوم اُٹھیں گے اور ہمارے درمیان کا ہر فاصلہ مٹ جائے گا لیکن یہ محض ایک بھول تھی۔ خبر سنتے ہی آپ نے جو ردّ عمل ظاہر کیا اس کو دیکھ کر مَیں حیران تھی، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر میرا قصور کیا ہے؟ اور جب قصور سمجھ آیا تو میرے پاس سوائے صبر کوئی چارہ نہیں تھا کہ اب تک بھی یہی کرتی آرہی تھی۔ جس وقت آپ نے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکالا، مجھے تین ماہ کا حمل تھا۔ جب مَیں اپنی ماں کے ساتھ حویلی سے واپس ہو رہی تھی اس وقت کسی نے بھی مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی، سب تماشائیوں کی طرح کھڑے میرا تماشا دیکھ رہے تھے۔ مَیں اسی حالت میں واپس اپنے گھر آگئی تھی، میری بوڑھی ماں جب بھی مجھے اور میرے ابھرے ہوئے پیٹ کو دیکھتی زار و قطار رونا شروع کر دیتی۔ اس کی بوڑھی روح یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور دو مہینے کے بعد میرا واحد سہارا بھی دنیا سے چلا گیا۔ اس دن میں بہت روئی تھی اور میرے دل سے بد دعائیں نکلی تھیں آپ کے لئے۔ اسی دن سے مَیں یہ دعا کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹی دینا بیٹا نہیں۔ آج مَیں بہت خوش ہوں کہ میری یہ دعا قبول ہوگئی ہے۔‘‘
وہ زندگی میں پہلے کبھی شاید ہی اتنا حیران ہوا ہو جتنا کہ اس خط کو پڑھ کر ہوا تھا۔ جب خط مکمل ہوا اس لمحے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
بنت ِ حوا کا لکھا ہوا ناول جسے اس نے ادھورا چھوڑ دیا تھا وہ کسی اور کی نہیں بلکہ اس کے باس بشیر احمد کی کہانی ہے۔
اس نے تاریخ دیکھی....
۲۹؍ نومبر.... بنت ِ حوا کی سالگرہ....
اس کا مطلب بنت ِ حوا کوئی اور نہیں بلکہ اس کے باس بشیر احمد کی لڑکی ہے۔
بشیر احمد یعنی غضنفر....
وہ دونوں ہاتھ اسٹیرنگ پر جمائے تیز رفتار سے کار چلا رہا تھا۔ اس کا رخ بنت ِ حوا کے گھر کی جانب تھا۔ خط کے لفافے پر جو پتہ لکھا ہوا تھا وہاں پہنچ کر اسے بنت ِ حوا کے موجودہ گھر کا پتہ مل گیا تھا۔
وہ بنت ِ حوا.... جس کا ناول پڑھتے پڑھتے وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ جس کی جانب سے اسے کبھی کوئی جواب نہیں ملا تھا اس کے باوجود وہ اسے میل کرتا رہا تھا، وہ بنت ِ حوا جس کے لئے اس نے سمیرا کو ٹھکرا دیا تھا، جس کی محبّت میں وہ اس قدر گرفتار تھا کہ کوشش کے باوجود وہ عروہ کو اپنا نہ سکا اور بالآخر اسے طلاق دینی پڑی تھی۔ وہی بنت ِ حوا جسے وہ اب تک نہیں بھول سکا تھا۔ آج اس میں اور بنت ِ حوا میں بس چند منٹ کا فاصلہ تھا۔ بہت جلد وہ اپنی محبّت سے ملنے والا تھا۔
تقریباً چالیس منٹ کے بعد وہ ایک خستہ حال مکان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا۔
اندر سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی کوئی دروازے کی طرف ہی آرہا تھا۔
’’کون ہے؟‘‘ اگلے ہی لمحے وہ دروازہ کھولے ہوئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
’’بنت ِ ح....‘‘
اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا تھا۔
عروہ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عروہ ہی بنت ِ حوا ہے۔
خود عروہ بھی اس کو دیکھ کر ششدر رہ گئی تھی۔
اس نے دروازے سے اپنے ہاتھ ہٹا لئے اور خود بخود دو قدم پیچھے ہوگئی۔ فاخر اب گھر کے اندر کھڑا تھا۔ وہ دروازہ بند کرکے واپس ہوئی اور آنگن میں پڑے تخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ خاموشی سے تخت پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک تو وہ جوں کی توں کھڑی رہی پھر اندر کمرے میں گئی اور ایک کرسی لا کر تخت سے دو ہاتھ کی دوری پر ڈال کر اس پر بیٹھ گئی۔
’’آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ اس نے بیٹھتے ہی فاخر سے پہلا سوال کیا۔
’’مجھے بنت ِ حوا سے ملنا تھا۔‘‘
’’مَیں ہی بنت ِ حوا ہوں۔ بشیر احمد اور ان کی پہلی بیوی عائشہ (آمنہ) کی منحوس بیٹی۔‘‘
اس کے لہجے میں جس قدر درد تھا وہ اس کے چہرے پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔
’’لیکن تم تو ان کے دوست کی بیٹی ہو نا....‘‘ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں....
ان دنوں امی اسپتال میں ایڈمٹ تھی اور مَیں ان کی تیمارداری کر رہی تھی۔ جب اتفاق سے وہ بھی اپنے کسی دوست کو دیکھنے کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔ مَیں دوائیاں لینے کے لئے باہر گئی تھی۔ واپس آئی تو دیکھا وہ امی کے پاس بیٹھے ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ دونوں خاموش ہوگئے تھے۔ امی مجھ سے ہمیشہ یہی کہتی آئی تھیں کہ تمہارے ابو تمہاری پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے جس کو مَیں سچ مانتی آرہی تھی لیکن جب مَیں نے امی کی ڈائری پڑھی تب مجھے پتا چلا کہ وہ فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے امی کو طلاق دی تھی۔ مَیں نے اس دن زندگی میں پہلی دفعہ اپنے باپ کو دیکھا تھا۔ حالانکہ امی نے اس وقت بھی مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ میرے ابو ہیں لیکن مَیں نے اندازہ لگا لیا تھا اور میرا اندازہ درست تھا۔
ان سے مجھے ملواتے وقت امی نے مجھ سے بس اتنا کہا کہ یہ تمہارے ابو کے دوست ہیں، اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم ان کے پاس چلی جانا.... اور پھر کچھ دیر بعد ہی امی کا انتقال ہوگیا اور مَیں ان کے کہنے کے مطابق احمد وِلا پہنچ گئی اور پھر جو ہوا اس کے تو آپ خود ’گواہ‘ ہیں....‘‘
گواہ پر زور دیتے ہوئے آخری جملہ اس نے طنزیہ انداز میں ادا کیا تھا۔
’’مَیں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں....‘‘ وہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’مَیں گزری باتوں کو دہرانا نہیں چاہتی ہوں.... میرے خیال میں آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا....‘‘ اس کا لہجہ سخت تھا۔
’’مَیں یہاں اپنی محبّت سے ملنے آیا ہوں....‘‘ فاخر نے بولنا شروع کیا اور شروع سے لے کر اب تک جو بھی اس کے ساتھ ہوا وہ سب کہہ ڈالا اور یہ بھی کہ اصل میں وہ وہی ابن ِ آدم ہے جو اسے میل کیا کرتا تھا۔
ساری حقیقت جاننے کے بعد وہ دونوں پتھر کے مجسموں کی مانند اپنی اپنی جگہ پر ساکت بیٹھے تھے۔
کافی دیر بعد فاخر نے سکوت توڑا۔
’’بنت ِ حوا (عروہ) کیا سب کچھ دوبارہ سے شروع نہیں کیا جا سکتا ہے؟‘‘
’’ہر گز نہیں....‘‘ اس نے بلا تامل سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’لیکن کیوں نہیں عروہ.... ہم ایسا کرسکتے ہیں.... ہم گزری باتوں کو بھول کر نئی زندگی شروع کرسکتے ہیں۔‘‘ اس نے اس کے انکار پر تڑپتے ہوئے کہا۔
’’مَیں نے آپ پر پابندی نہیں لگائی ہے آپ آزاد ہیں، آپ جائیے اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیجئے.... اور ویسے بھی بنت ِ حوا کو لے کر آپ کے اندر جو تجسس تھا وہ تو ختم ہوچکا ہے۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے عروہ.... تجسس ایک وقت کے بعد ختم ہو جاتا ہے محبت ختم نہیں ہوتی ہے.... اور مَیں تم سے محبّت کرتا ہوں....‘‘
’’آپ کے کہنے پر مان بھی لوں کہ یہ تجسس نہیں تھا بلکہ محبّت ہے تب بھی مَیں یہی کہوں گی کہ یہ محبّت آپ کو مجھ سے نہیں بنت ِ حوا سے ہے اور بنت ِ حوا کا وجود اس ادھوری کہانی کے ساتھ ہی ختم ہوچکا ہے۔‘‘
’’عروہ پلیز.... پلیز میرا یقین کرو، مَیں تم سے محبّت کرتا ہوں....‘‘ وہ اس کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔
’’فاخر مجھے اب نہ تو مرد ذات پر اعتبار رہا ہے نہ ہی ان کی محبّت پر....
تم کیا چاہتے ہو کہ کسی ایک مرد کی غلطی کی وجہ سے کسی دوسرے مرد سے دھوکہ کھانے کے بعد واپس پھر اسی مرد کے پاس آنے کے لئے اب میں کسی تیسرے مرد کے پاس جاؤں....
ہر گز نہیں میں مر جاؤں گی لیکن ایسا ہر گز نہیں کروں گی....‘‘
’’سبھی مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں عروہ....‘‘
’’ہاں سبھی مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں لیکن ہر عورت کی زندگی میں مردوں کو لے کر جو نظریہ قائم ہوتا ہے وہ اس کی زندگی میں آنے والے چار مردوں کے بنا پر ہوتا ہے۔ اس کا باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا.... وہ دنیا کے ہر مرد کو آزمانے نہیں نکل جاتی بلکہ انہیں چاروں کی پہنائی ہوئی عینک سے باقی تمام مردوں کو بھی دیکھتی ہے اور اگر یہی اس کے معیار پر پورے نہ اترے تو اس کے لئے دنیا کے کسی بھی مرد پر اعتبار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کی اس بات کا فاخر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا.... وہ تقریباً ہتھیار ڈال چکا تھا۔
’’عروہ اب بھی مَیں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں ایک دفعہ پھر سوچ لو.... ابھی تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے.... اکیلے کیسے گزار سکو گی یہ پہاڑ جیسی زندگی....‘‘
اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اس نے ایک آخری کوشش کی تھی۔
’’اگر عائشہ اکیلے زندگی گزار سکتی ہے تو عروہ بھی گزار سکتی ہے....‘‘
’’اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ تم اپنی ماں کی طرح ہی پوری زندگی تنہا گز ار دو گی تو یہ تمہاری بھول ہے، کیونکہ وہ اکیلی نہیں تھیں ان کے پاس تم تھی اور....‘‘
’’اور میرے پاس میری بیٹی ہے....‘‘
اس نے فاخر کی بات کو وہیں پر کاٹتے ہوئے کہا۔
دروازے کی طرف بڑھتے اس کے قدم وہیں رک گئے تھے۔
’’فاخر اگر تم واقعی میرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو تو مجھ پر ایک احسان یہ کر دو کہ میری اور میری بیٹی کی زندگی سے دور ہو جاؤ۔‘‘
وہ بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
’’عروہ....‘‘
اس کے لب ہلے ہی تھے کہ وہ کھلے ہوئے دروازے کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی....
’’پلیز فاخر مَیں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں....‘‘ اس کے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
دونوں ہی بہتے آنسوؤں سے ایک دوسرے کے دھندلائے ہوئے چہروں کو دیکھ رہے تھے۔
لمحے گزرتے رہے۔ تقریباً پانچ منٹ بعد عروہ کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو جوں کا توں دیکھ کر فاخر نے بڑی بے بسی سے دروازے کے اس پار قدم رکھ دیا۔