Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : بند مٹھی

Updated: January 08, 2024, 1:27 PM IST | Khan Umira Irfan | Mumbai

درد کی بیلیں جب جسم سے لپٹتی ہیں تو چیخیں دل سے نکلتی ہے لیکن درد جب روح تک رسائی حاصل کر لے تو چیخیں خاموش ہو جاتی ہیں اور یہ خاموشی دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں جو کبھی نہیں جڑ سکتے، کبھی بھی نہیں !

Photo: INN
تصویر : آئی این این

درد کی بیلیں جب جسم سے لپٹتی ہیں تو چیخیں دل سے نکلتی ہے لیکن درد جب روح تک رسائی حاصل کر لے تو چیخیں خاموش ہو جاتی ہیں اور یہ خاموشی دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں جو کبھی نہیں جڑ سکتے، کبھی بھی نہیں ! اس آدمی کے جسم میں نہ تھرتھراہٹ تھی اور نہ آنکھوں میں بےچینی، وہ کسی سنگ مرمر کے بت کی مانند کھڑا تھا۔ دھول اور مٹی سے اَٹے ہوئے جسم سے نکلنے والا خون اسی طرح منجمد ہوگیا تھا جیسے قریب کھڑے شخص کی حسیات پر حاوی ہونے والا سکوت۔ سہولیات کی قلت نے مریضوں کو مخصوص کمرہ تو دور اسٹریچر تک نصیب نہ ہونے دیا۔ مریضوں کو میسر سہولیات میں یخ بستہ ہوائیں اور سخت ماربل کا فرش تھا جس پر لوگ جوتے پہن کر چلا کرتے تھے۔ آج اسی فرش پر زخمی جسم لٹائے گئے تھے، ان حالات کے مارے ہوؤں کے لئے تو شاید آج خدا کی وسیع و عریض زمین بھی تنگ پڑ چکی تھی۔ زمین پر نیم مردہ اس وجود کا معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے جھریوں سے لبریز ایک ادھیڑ عمر کے شخص کی جانب دیکھا جو مسلسل اس زخموں سے چور وجود کو کرچی کرچی نظریں ٹکائے دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس اس سنگ مرمر کے آدمی کو دینے کیلئے دلاسہ، تسلی، ہمدردی کچھ نہیں تھا۔ غزہ میں خون کا بازار گرم تھا اور اس نفرت کی آگ نے سب سے زیادہ معصوموں کو جھلسایا۔ مسجد اقصیٰ کی پاک سر زمین پر آج کئی ننھی کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل ڈالا گیا۔
 ’’آپ کا معصوم فرزند اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکا ہے یقیناً وہ آپ کو بھی جنت ساتھ لے جائے گا، ان شاءاللہ!‘‘ ڈاکٹر نے اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سوہان روح خبر سنائی جسے سن کر اس شخص کی حسیات ہلکی بیدار ہوئیں اور اس نے آنکھوں کو نرمی سے بند کیا۔
 شادی کے طویل عرصے بعد خدا نے اس آدمی کو اولاد دی تھی اور آج وہ بچہ جن نظروں کا نور تھا انہیں کو کرچی کرچی کئے اپنا رستہ چن چکا تھا۔ آنکھیں بند کئے وہ شخص جذبات پر قابو پانے کی ایک ادنیٰ کوشش کر رہا تھا۔ اس کے آنسو بھی اس کے بیٹے کے وجود کی طرح منجمد ہو گئے تھے۔ وہ نہیں جانتا اسے اور اس کے بیٹے کو یہاں کون لایا کیسے لایا۔ اسے خود کے سر پر لگی چوٹ اور الٹے پاؤں کا فریکچر تک یاد نہ تھا۔
 ایک ہولناک آواز اور لمحے میں گرتی عمارت کو اس نے دیکھا اور آگے کچھ بھی یاد نہیں ۔ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ کر بیٹے کے بےحس و حرکت وجود کو سینے سے لگائے وہ کھڑا تھا۔ ننھے وجود پر لگے زخم اور گھاؤ سے چور نازک بدن پر جلد کا گورا پن کم اور خون کے دھبے زیادہ نظر آ رہے تھے۔ آنکھوں پر گرد کی ایک تہہ تھی ساتھ ہی ماتھے سے نکلا ہوا خون اب جم چکا تھا۔ اس کا دل پھٹ سا گیا تھا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن زبان بےدم ہوگئی تھی، وہ رونا چاہ رہا تھا لیکن آنکھیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں ۔ اس کے الفاظ زبان کی نوک تک آکر دم توڑ رہے تھے۔ اس نے اپنے لخت ِ جگر کے گالوں کو چوما پھر چھوٹے چھوٹے پیروں کو چومنے لگا۔ ابھی ہفتہ ہی تو گزرا تھا کہ ان پیروں نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے شروع کئے تھے جنہیں آج ہمیشہ کے لئے مفلوج کر دیا گیا۔ بیٹے کے ہونٹ دیکھ کر دل میں عجب سی ٹیسیں اٹھنے لگیں ، یہ ہونٹ جب بھی کھلے تھے ’’بابا.... بابا....‘‘ کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ اب تاعمر یہ رس بھری پکار سننے کے لئے کان ترستے رہیں گے۔
 اپنے کئی جان سے پیاروں کو جان کی بازی ہارتے ہوئے وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ تو آج تک ان خسارے سے نکل نہ پایا تھا اور آج اس کا آخری اثاثہ بھی لٹ گیا۔ ہاتھوں میں اپنے بیٹے کو بھینچے اس کے ذہن کے کینوس پر ایک پرانی تصویر ابھری، اس کی پہلی محبت، شریک ِ سفر دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ ان دونوں کے بیٹے کو لئے کھڑی تھی۔ وہ عزیزہ اپنی ترنم بھری آواز میں کہہ رہی تھی کہ، ’’پیارے ضارب، کئی دنوں سے میں نے اسے گود میں نہیں اٹھایا اب تم اسے مجھے دے دو۔ میں اسے سنبھال لوں گی اور ہاں جنت میں بھی مجھے تمہارا ساتھ چاہئے۔ صرف تمہارا ! تم نہیں جانتے ہمارے بیٹے کو میں کتنی شدت سے یاد کر رہی تھی۔ لاؤ.... مجھے تھماؤ....‘‘
 درد کا دریا دل میں شور برپا کرنے لگا جیسے دل کسی نے مٹھی میں دبا لیا ہو۔ ذہن میں آئی تصویر کہیں دھندلا گئی۔ خون آلود پیشانی پر اس نے اپنے کانپتے لب رکھ دیئے پھر زبان سے اتنے عرصے میں پہلا جملہ ادا ہوا ’’حسبنا الله ونعم الوكيل‘‘۔
 بچے کے الٹے ہاتھ کی ہڈیاں بہت ٹوٹی تھیں ، ایک ہڈی تو کہنی سے باہر نکل گئی تھی۔ ڈاکٹر جا چکا تھا لیکن وہاں پر موجود ایک بوڑھی عورت بہت دیر سے اِس شخص کو دیکھ رہی تھی اور شخص کو اپنے بیٹے کے علاوہ کچھ نظر ہی کہاں آ رہا تھا۔ اپنے بیٹے کا دایاں ہاتھ پکڑے ہوئے بڑے غور سے وہ دیکھ رہا تھا۔ یکایک اس بوڑھی عورت سے اس کی نظریں ملیں ۔ عورت کو یہ آنکھیں کچھ بولتی نظر آئی۔ شخص نے پھر اپنے بیٹے کی جانب دیکھا، اسے محسوس ہوا کہ وہ عورت قریب آرہی ہے، پھر اس کی نظروں کے سامنے بوڑھے ہاتھ نظر آئے جو اس کے لخت ِ جگر کے دائیں ہاتھ کی بند مٹھی شاید کھولنے آگے بڑھے تھے۔ اس نے نظریں اٹھا کر بوڑھی عورت کو دیکھا اور انکار میں سر ہلا کر پیچھے ہو گیا۔ عورت نے اشارہ سمجھ کر اپنے قدم پیچھے لئے۔
 اس شخص نے آج تک کئی جنازے اٹھائے تھے لیکن یہ اس کی زندگی کا سب سے بھاری جنازہ تھا جس کا بوجھ اٹھانے میں مانو اس کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے لڑکھڑاتے قدم اور ٹوٹے پیر سے اپنے بوجھل وجود کو گھسیٹتے ہوئے چلنا شروع کیا۔ کچھ دور نکل جانے پر بھی عورت کی نظریں اس بچے کے دائیں ہاتھ پر ٹکی ہوئی تھی۔ اس نے بہت قریب سے دیکھا کہ جنازہ بہت بھاری تھا کہ اٹھانے والے کندھے گر گئے۔ شخص اور بچہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے لیکن اس ننھے ہاتھ کی بند مٹھی میں موجود گرد و لہو میں لپٹی ہوئی ایک بڑی سی چاکلیٹ اس عورت کی نظروں سے اوجھل ہی نہ ہو سکی! بند مٹھی کی گرفت بہت مضبوط تھی جیسے وہ کبھی نہ کھلے گی۔ مرنے والوں کو درد سے نجات مل جاتی ہے لیکن مر مر کے جینے والوں کا درد کون جانے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK