فیفا کلب ورلڈکپ کا آغاز ہوچکا ہے، جبکہ امریکی صدر کی جانب سے متعدد ممالک پر سفری پابندی، اور آئس محکمہ کے افسران کی موجودگی نے شائقین میں خوف پیدا کردیا ہے۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 6:02 PM IST | Washington
فیفا کلب ورلڈکپ کا آغاز ہوچکا ہے، جبکہ امریکی صدر کی جانب سے متعدد ممالک پر سفری پابندی، اور آئس محکمہ کے افسران کی موجودگی نے شائقین میں خوف پیدا کردیا ہے۔
نیا فارمیٹ اختیار کرنے والا فیفا کلب ورلڈ کپ، جسے پہلے فیفا ورلڈ چیمپئن کپ کہا جاتا تھا، باقاعدہ طور پر شروع ہو گیا۔ افتتاحی میچ میں لیونل میسی کی ٹیم اور میزبان انٹر میامی نے مصری ٹیم ال اہلی کے خلاف بنا گول ڈرا کھیلا۔سال۲۰۰۰ء میں شروع ہونے والا فیفا کلب عالمی چیمپئن شپ اس بار کافی تبدیلیوں کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے۔ اب تک۷؍ ٹیموں پر مشتمل یہ ٹورنامنٹ اب ۳۲؍ ٹیموں تک وسیع ہو گیا ہے جو چھ مختلف براعظموں سے شرکت کر رہی ہیں۔کلب ورلڈ کپ پہلے سالانہ ہوتا تھا، لیکن نئے فارمیٹ کے تحت یہ اب ہر چار سال بعد منعقد کیا جائے گا، جو اسے فیفا ورلڈ کپ جیسا ایک بڑا عالمی ایونٹ بنا دے گا۔ ٹورنامنٹ کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کا ریکارڈ انعامی فنڈ مقرر کیا گیا ہے، جو اب تک کی کسی بھی کلب چیمپئن شپ کے لیے سب سے بڑی رقم ہے۔۱۴؍ جون سے شروع ہونے والا ٹورنامنٹ امریکہ کے متعدد مقامات پر کھیلا جائے گا، جبکہ فائنل میچ ’’میٹ لائف اسٹیڈیم‘‘میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: فیفا کلب ورلڈ کپ میں یورپ کے بڑے کلب فاتح
ٹورنامنٹ کی تشہیر اور خوبصورتی پر کثیر رقم خرچ کیے جانے کے باوجود، ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن اور ملک بدری کی پالیسیاں اس پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ اسٹیڈیم میں امریکی امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ (آئس)کے اہلکاروں کی موجودگی، شائقین کی رسائی میں رکاوٹیں اور ٹورنامنٹ کے کم جامع ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔۴؍ جون کو صدر ٹرمپ نے ایک اعلان نامے پر دستخط کیے جس کے تحت۱۲؍ ممالک کے شہریوں کو امریکہ آنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم ’’غیر ملکی دہشت گردوں‘‘ اور دیگر سیکیورٹی خطرات سے بچاؤ کیلئے ضروری ہے۔ نئی پالیسی۹؍ جون سے نافذ ہوگی۔ اس پابندی سے زیادہ ترسیاہ فام اور مسلم اکثریتی ممالک متاثر ہوں گے، جن میں افغانستان، میانمار، چاڈ، کانگو ریپبلک، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیتی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔اس کے علاوہ برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا سے آنے والے افراد پر بھی جزوی پابندیاں عائد ہوں گی۔ ایک ویڈیو پیغام میں ٹرمپ نے کہا، ’’ہم ان لوگوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے جو ہمارا نقصان چاہتے ہیں،‘‘ اور مزید کہا کہ اس فہرست میں نئے ممالک شامل کرکے اس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔گزشتہ ہفتے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ سفری پابندیوں کے دائرے میں آنے والے ممالک کی تعداد کو تقریباً تین گنا کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں جن۱۹؍ ممالک پر مکمل یا جزوی پابندیاں عائد تھیں، ان میں مزید۳۶؍ ممالک شامل کیے جا سکتے ہیں۔اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی ٹرمپ نے سات مسلم اکثریتی ممالک کے مسافروں پر اسی قسم کی پابندی عائد کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: کئی یورپی ممالک نےاسرائیل سے اپنے سیکڑوں شہریوں کی وطن واپسی کا اعلان کیا
ٹرمپ انتظامیہ کی ملک بدری کی مہمات اور تارکین وطن کے حقوق پر پابندیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تشویش کے علاوہ، محکمہ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ کلب ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران آئس کے اہلکار موجود رہیں گے۔مزید یہ کہ محکمہ نے ایک یاد دہانی جاری کی کہ ’’تمام غیر امریکی شہریوں کو کھیلوں میں شرکت کے دوران اپنی قانونی حیثیت کا ثبوت اپنے پاس رکھنا ہوگا۔‘‘بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان چند ایک میچوں کو چھوڑ کر، زیادہ تر اسٹیڈیم خالی پڑے رہے، جن میں سے نصف سے زیادہ سیٹیں خالی تھیں۔اگرچہ فیفا نے ٹکٹوں کی قیمت میں خاطر خواہ تخفیف کر دی ہے۔خبر ہے کہ کالج کے طلبہ کو میچ کے ٹکٹ ۲۰؍ ڈالر میں یا `ایک خریدو، چار مفت کے آفر کے ساتھ فروخت کیے جا رہے ہیں۔
دریں اثناء تارکین وطن کے ساتھ سلوک پر ’’سنگین تشویش‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے، ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ مہینے فیفا پر زور دیا تھا کہ وہ امریکہ کو ورلڈ کپ کی میزبانی کی اجازت دینے پر دوبارہ غور کرے۔ اس کے علاوہ اکثریت نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ فیفا کے اتحاد پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔