Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : بے بس ماں

Updated: July 23, 2025, 4:25 PM IST | Zeenat Malik | Mumbai

آج سے ٹھیک سترہ برس پہلے کی بات ہے.... لاہور، جو پاکستان کا ایک قدیم اور جگمگاتا شہر ہے، اُس دن کچھ اور ہی روپ میں جگمگا رہا تھا۔ گلیاں، عمارتیں، فضا.... سب خوشیوں سے لبریز تھیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج سے ٹھیک سترہ برس پہلے کی بات ہے.... لاہور، جو پاکستان کا ایک قدیم اور جگمگاتا شہر ہے، اُس دن کچھ اور ہی روپ میں جگمگا رہا تھا۔ گلیاں، عمارتیں، فضا.... سب خوشیوں سے لبریز تھیں۔ شہر کے ممتاز معالج، ڈاکٹر طارق کی بیٹی شاہ نور کی شادی کا جشن عروج پر تھا۔ یہ صرف دو اجنبی دلوں کا ملاپ نہ تھا، بلکہ دو ملکوں کی سرحدیں بھی اس بندھن سے ایک نئے رشتے میں بندھنے جا رہی تھیں۔
 شاہ نور کے دل میں خوشی کے ساتھ ساتھ اضطراب بھی جاگا ہوا تھا۔ ہر لڑکی کی طرح اس کے ذہن میں بھی بے شمار سوالات آنے لگے تھے.... وہ سوچتی، سسرال کیسا ہوگا؟ لوگ کیسے ہوں گے؟ مگر یہاں تو معاملہ صرف گھر بدلنے کا نہ تھا، وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی دلہن بن کر جانے والی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔
 شام کے چھ بجے جب خبر آئی کہ دولہے اور اس کے خاندان والے لاہور ایئر پورٹ پر پہنچ چکے ہیں، ڈاکٹر طارق اپنے خاندان کے ہمراہ استقبال کے لئے روانہ ہوئے۔ نکاح کی مختصر سی مگر باوقار تقریب میں دولہے کی جانب سے صرف نو مہمان شریک تھے، مگر مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ آنے دی گئی۔ اور پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچا.... ایجاب و قبول کے کلمات ادا ہوئے، اور شاہ نور ہمیشہ کے لئے ولید کی شریک ِ حیات بن گئی۔ خوشیوں کی ان ساعتوں نے جیسے وقت کو پنکھ لگا دیئے۔ ایک ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ شاہ نور نے اپنے میکے کو الوداع کہا اور نئی زندگی کے خواب آنکھوں میں بسائے، سسرال کی سر زمین، ہندوستان روانہ ہوگئی۔ وہاں پہنچ کر ساس سسر نے بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ شاندار ولیمہ، مبارکبادوں کی بہار، اور نئی زندگی کا خوشگوار آغاز۔ دن مہینوں میں ڈھلے، مہینے سال بنے، اور پھر ماں بننے کی خوشخبری نے اس کی زندگی کو مکمل کر دیا۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی.... جیسے کائنات کے دو جگمگاتے تارے۔
 مگر زندگی ہمیشہ خواب نہیں ہوتی۔ ولید کے مزاج میں دھند اترنے لگی۔ وہ اجنبی بنتا گیا۔ ذرا سی بات پر غصہ، چیخ پکار، اور پھر.... ہاتھ بھی اُٹھنے لگا۔ شاہ نور نے ساس سسر سے فریاد کی، مگر وہ بھی بیٹے کے ہم نوا نکلے۔ بے یار و مددگار، اس نے سب کچھ سہنے کا فیصلہ کیا۔
 پھر ایک رات، شراب کے نشے میں دھت ولید نے بچوں کے سامنے طوفان برپا کر دیا۔ جھگڑا، چیخیں، اور.... تین لفظ، جنہوں نے ایک دنیا اجاڑ دی: ’’مَیں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔‘‘ اُسے بچوں سمیت گھر سے نکال دیا گیا۔ پریشان حال تنہا شاہ نور نے قریبی افراد کی مدد سے پولیس اسٹیشن کا رخ کیا۔ عدالت کے حکم پر اسے رہائش کے لئے ولید کے گھر میں ہی ایک الگ چھوٹا کمرہ دے دیا۔ اب یہ دونوں اجنبی تھے، بچوں سے بھی کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا تھا۔ شاہ نور نے اکیلے ہی بچوں کی پرورش کا بوجھ اٹھایا۔
 سال گزرتے گئے۔ بیٹا دس برس کا ہوچکا تھا، بیٹی چھ سال کی۔ زخموں نے دل کو چھلنی کر دیا تھا۔ شاہ نور کا دل چاہتا تھا کہ وہ بچوں کو لے کر پاکستان چلی جائے، مگر عدالت کا مقدمہ تاحال زیر ِ سماعت تھا۔ سرحد پار جانا اتنا آسان بھی نہ تھا۔
 پھر ایک اور کٹھن دن آیا.... ہندوستان میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا۔
 دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پھیل گئی۔ نفرت کی چنگاریاں سرحدوں سے نکل کر شہروں تک جا پہنچی تھیں۔ حکومت ِ ہند نے حکم دیا کہ تمام پاکستانی شہری فوری طور پر ملک چھوڑ دیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی اعلان ہوا۔
 شاہ نور کے لئے یہ فیصلہ ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے جانا چاہتی تھی، مگر حکومتی پالیسی نے دروازہ بند کر دیا۔ بتایا گیا کہ بچے ہندوستانی شہری ہیں، اُنہیں ساتھ لے جانا قانونی طور پر ممکن نہیں۔ ماں کے ہاتھ خالی تھے، دل زخمی، اور آنکھیں اشکبار۔ اس نے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھا، انہیں گلے سے لگایا، اور ہچکیوں میں ڈوبتی آواز میں بولی: ’’میرے بچو! نہ معلوم دوبارہ مل سکیں یا نہیں.... لیکن میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں گی۔ خوش رہنا، اپنے آپ کو کبھی تنہا نہ سمجھنا۔‘‘
 وہ منظر دیکھ کر وہاں موجود ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ پولیس اہلکار بھی نظریں چراتے ہوئے آنسو پونچھنے لگے۔ اور یوں.... ایک بے بس ماں، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو سرحد کی مٹی میں چھوڑ کر، وطن واپس روانہ ہو گئی.... اپنے دیس، مگر اپنے بچوں کے بغیر۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK