Inquilab Logo Happiest Places to Work

فرانس: حکومت ۷۳؍ سالہ ”واحد اسٹریٹ نیوز بوائے“ علی اکبر کو ”نیشنل آرڈر آف میرٹ“ سے نوازے گی

Updated: July 23, 2025, 10:11 PM IST | Paris

علی اکبر ۱۹۷۲ء میں ۲۰ سال کی عمر میں اپنے آبائی شہر راولپنڈی (پاکستان) سے ایک ’بہتر زندگی‘ کی تلاش میں فرانس آئے تھے۔ پیرس میں رہائش کے دوران، ان کی ملاقات ایک اسٹریٹ نیوز بوائے سے ہوئی۔ یہ کام ان کی دلچسپی کا باعث بنا۔

Ali Akbar. Photo: INN
علی اکبر۔ تصویر: آئی این این

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون جلد ہی ۷۳؍ سالہ ”اسٹریٹ نیوز بوائے“ علی اکبر کو، جو فرانس کے سب سے عمر رسیدہ اور اب واحد اسٹریٹ نیوز بوائے ہیں، کو باوقار اعزاز ”شویلیئر ڈینس ل`آرڈر نیشنل ڈو میرٹ“ سے نوازیں گے۔ علی اکبر ۱۹۷۲ء میں ۲۰ سال کی عمر میں اپنے آبائی شہر راولپنڈی (پاکستان) سے ایک ”بہتر زندگی“ کی تلاش میں فرانس آئے تھے تاکہ اپنی والدہ کو ان کے آبائی گھر میں ان کے خوابوں کا گھر بنانے میں مدد کر سکیں۔ دیگر کئی پناہ گزینوں کی طرح، وہ بھی کشتی کے ذریعے فرانسیسی ساحل تک پہنچے۔ فرانس پر پہنچنے کے بعد، انہوں نے روئین کے ایک ریستوراں میں باورچی خانے کے معاون کے طور پر کام کیا۔ اس وقت وہ فرانسیسی کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: فرانسیسی رکن پارلیمنٹ نے غزہ جانے والے جہاز’حنظلہ‘ سے حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی

پیرس میں رہائش کے دوران، ان کی ملاقات ایک اسٹریٹ نیوز بوائے سے ہوئی۔ یہ کام ان کی دلچسپی کا باعث بنا۔ پھر، طنز و مزاح پر مبنی فرانسیسی میگزین ’چارلی ہیبڈو‘ کے بانی پروفیسر کورون سے ایک اتفاقی ملاقات علی اکبر کے پیشہ ورانہ سفر میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ دونوں کے درمیان دوستی پروان چڑھی اور علی کا سڑک پر اخبار بیچنے کا شوق ایک جنون بن گیا۔ سینٹ جرمین-ڈیس-پریس کے امیر علاقے میں واقع سکستھ ایرونڈیسمٹ میں ۵۰ سال سے زائد عرصے سے علی اکبر کی شگفتہ آواز فرانسیسی اشاعتوں کی سرخیاں پکارتی سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنی حاضر جوابی اور خوشگوار شخصیت کیلئے جانے جاتے ہیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں ایک فرانسیسی نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ”لوگ سمجھتے ہیں کہ میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ میں یہ کام اکیلا کر رہا ہوں کیونکہ اب یہ موجود ہی نہیں ہے۔“ گزشتہ تقریباً ۱۵ برسوں سے علی اکبر کو شہر کے واحد اسٹریٹ نیوز بوائے ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جب انہوں نے ۱۹۷۲ء میں آغاز کیا تھا تو تقریباً ۴۰ دیگر اسٹریٹ اخبار فروش بھی اس پیشہ میں تھے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کی ظالمانہ امیگریشن پالیسی پر’’مجسمہ آزادی‘‘شرمندہ، فرانس میں منہ چھپائے مجسمہ کی نقاب کشائی

علی اکبر کے مطابق، پہلے وہ تقریباً ۳۰۰ اخبارات فروخت کرتے تھے، آج وہ بمشکل ۴۰ اشاعتیں فروخت کر پاتے ہیں۔ ایک ایسے پیشہ، جو تقریباً غائب ہو چکا ہے، کو جاری رکھنے کی مشکلات کے باوجود علی نے کبھی دکان بند نہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ وہ ایک معمولی پنشن بھی حاصل کرتے ہیں اور مشہور جارڈن ڈو لکسمبرگ کے ساتھ ایک فوڈ ٹرک بھی سنبھالتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK