سوسائٹی آف جرنلسٹس کے مطابق، بشار اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ غزہ شہر میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ خوراک ہے، نہ پانی اور نہ فرنیچر اور وہ ناقابل تصور مشکلات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 23, 2025, 10:11 PM IST | Gaza/Paris
سوسائٹی آف جرنلسٹس کے مطابق، بشار اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ غزہ شہر میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ خوراک ہے، نہ پانی اور نہ فرنیچر اور وہ ناقابل تصور مشکلات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
”اب مجھ میں میڈیا کیلئے کام کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ میرا جسم بہت لاغر ہو گیا ہے۔ میں اسے مزید جاری نہیں رکھ سکتا۔“ یہ الفاظ ایجنس فرانس پریس (اے ایف پی) کے ساتھ کام کرنے والے ۳۰ سالہ فلسطینی فوٹوگرافر بشار کی ایک دل دہلا دینے والی فیس بک پوسٹ کے ہیں جو وائرل ہو گئی ہے اور عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہے۔ ۱۹ جولائی کو بشار نے یہ فیس بک پوسٹ لکھی تھی۔ ان کے پیغام نے صرف ذاتی تکالیف کو ہی بیان نہیں کیا بلکہ محصور غزہ میں صحافیوں کو درپیش وسیع تر بحران کو بھی اجاگر کیا جو فاقہ کشی کا شکار ہیں اور اس کے باوجود وہاں سے رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بشار ۲۰۱۰ء سے اے ایف پی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں ایک فکسر کے رول سے شروعات کی اور اب وہ فوٹوگرافر ہیں۔ وہ اب غزہ میں باقی رہ جانے والے آخری فوٹو جرنلسٹس میں سے ہیں، جو انتہائی مشکل حالات میں جنگ کی کوریج کر رہے ہیں۔ ایک سال سے زائد عرصے سے، انہیں مسلسل اسرائیلی حملوں، بھوک، بیماری اور دربدری کا سامنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت بھی جاری ہے جب وہ اپنے ارد گرد کی ہولناکیوں کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ لیکن اب ان کی ہمت بھی جواب دے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ سمیت ۲۷؍ ممالک نے اسرائیل کی شدید مذمت کی
صحافیوں کی فاقہ کشی
اے ایف پی کی اندرونی صحافیوں کی یونین، سوسائٹی آف جرنلسٹس (ایس ڈی جے) کے مطابق، بشار اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ غزہ شہر میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ خوراک ہے، نہ پانی اور نہ فرنیچر اور وہ ناقابل تصور مشکلات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ۲۰ جولائی کو، بشار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے بھائی کی بھوک سے موت ہو گئی ہے۔ ایس ڈی جے نے ۲۱ جولائی کو ایک عوامی اپیل جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم انہیں مرتے ہوئے دیکھنے سے انکار کرتے ہیں،“ اور فوری مداخلت پر زور دیا۔
ایس ڈی جے کے بیان میں ایک سنگین نئی حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے: صحافی، جن کا کام دوسروں کی تکالیف کی رپورٹنگ کرنا ہے، اب خود تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایس ڈی جے نے کہا، ”۱۹۴۴ء میں جب سے اے ایف پی کی بنیاد رکھی گئی، ہم نے جنگوں میں صحافیوں کو کھویا ہے۔ لیکن کبھی بھوک سے نہیں۔“ اے ایف پی اس وقت غزہ میں ۱۰ مقامی فری لانسرز کی ایک انتہائی چھوٹی ٹیم کے ساتھ کام کر رہا ہے جن میں ایک ٹیکسٹ رپورٹر، تین فوٹوگرافر، اور چھ ویڈیو گرافر شامل ہیں۔ یہ سبھی اسی بھوک اور صدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن کے بارے میں وہ رپورٹ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ فاقہ کشی سے بے حال، بھوک کی بنا پر۲۴؍ گھنٹوں میں ۱۵؍ فوت
فرانسیسی صحافیوں کا فوری کارروائی کا مطالبہ
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فرانسیسی صحافیوں نے اپنی آواز بلند کی ہو۔ ۲۳ مئی کو، اے ایف پی، فرانس ۲۴، آر ایف آئی، لے مونڈے اور لائبریشن سمیت معروف میڈیا اداروں کی ادارتی ٹیموں نے فرانسیسی حکومت کو ایک کھلا خط بھیجا تھا۔ انہوں نے اپنے فلسطینی ساتھیوں کے فوری انخلاء پر زور دیا اور خبردار کیا تھا کہ بہت سے صحافی پہلے ہی زخمی، بمباری کا شکار یا اب فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ خط میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان مقامی صحافیوں کے بغیر، دنیا غزہ کی حقیقت سے ناواقف رہے گی، کیونکہ بین الاقوامی صحافیوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔