Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : بوڑھا برگد

Updated: May 20, 2025, 1:21 PM IST | Najma Mahmood | Mumbai

میں نے جواب دیا، ’’ہاں جو لوگ میرے بہت قریب آتے ہیں بس وہی میری بات سمجھ سکتے ہیں چند لوگوں کے سوا کوئی اور میری بات سمجھ نہیں سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ میں خاموشی تک کی زبان سمجھ لیتا ہوں۔ مثلاً میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اس وقت تم اپنے گھر والوں سے روٹھ کر یہاں آئے ہو۔ ہے نا یہی بات؟‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

میرے گھر کے سامنے برگد کا ایک درخت ہے۔ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو اس کی شاخیں ہلتی ہیں۔ لیکن تیز ہوائیں ادھر بہت کم آتی ہیں۔ برگد پھر بھی تیز ہواؤں کا انتظار کرتا ہے۔ میں اسی درخت کی ایک تصویر بناؤں گا۔
 ایک دن اُس درخت نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ ہوا میدان میں بھرے ہوئے پانی پر سوئی ہوئی تھی اور میں ایک کہانی، کوئی بھی کہانی سننے کو بیتاب تھا۔ کہانیاں اور تصویریں۔ تصویریں اور کہانیاں.... برگد نے جب اپنی کہانی شروع کی تو چاند دھیرے دھیرے اپنا زرد چہرہ ابھارنے لگا۔ اُس کے چہرے کو بادل کبھی چھپا لیتے تو وہ پھر بڑی تیزی سے اُن کا سینہ چیرتا ہوا سامنے آجاتا۔ شاید چاند کو یہ بڑ کا درخت بہت پسند ہے۔
 اُس درخت نے مجھے بتایا کہ جب وہ پیدا ہوا تھا تو اُن دنوں اس کے پاس بہت سے اور بھی درخت تھے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ اس کا جنم ایک جنگل میں ہوا تھا۔ اُس نے بتایا کہ اس کا بچپن ان درختوں کے ساتھ کھیل کود کر بڑی ہنسی خوشی گزرا اُس نے یہ بھی بتایا کہ اُن دنوں اس کی شاخیں ہر وقت ناچتی رہتی تھیں....
 ’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘ مَیں نے بچوں کی طرح سوال کیا۔
 ’’تو بھئی ان انسانوں کو نہ جانے کیا سوجھا کہ جنگل کو کاٹ کر سڑکیں بنا لیں، گھر بنا لئے۔ مجھ کو بھی کاٹ کر پھینک دیا ہوتا تو ان کا کیا بگڑ جاتا۔ مگر سنا ہے کہ مجھے صرف اس لئے نہیں کاٹا کہ مَیں اس جگہ پر بڑا ’رومینٹک‘ لگتا ہوں اور تب سے میں یہاں تنہائی کے عذاب میں جل رہا ہوں میرے آس پاس ایک بھی درخت نہیں.... جن دنوں میں درختوں میں گھرا ہوا تھا اُن دنوں مئی جون کی تپتی دوپہروں میں گرمی کم لگتی تھی۔ میری شاخیں دوسرے درختوں کی شاخوں سے ہر وقت آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھیں اور میرا سارا وجود مگن رہتا تھا۔‘‘ برگد لمحہ بھر کو رُکا پھر بولا، ’’مجھے کہانی سنانے کا بڑا شوق ہے۔ جب بھی تیز ہوائیں چلتی ہوں، بادل بڑے زور زور سے گرجتے ہوں اور میری شاخیں سرسرا رہی ہوں تو سمجھ لو کہ مَیں کوئی کہانی سنا رہا ہوں لیکن کسے؟ اپنے آپ کو.... بھلا کون ہے جو میری کہانیاں سنے.... مَیں جو سالہا سال سے کھڑا بوڑھا درخت ہوں اور زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوں۔ عموماً بوڑھے لوگوں سے کسی کو یوں بھی دلچسپی کم ہوتی ہے۔ ایک تم ہو جو میری کہانی سن رہے ہو اس لئے کہ تم کو خود کہانی سننے اور سنانے کا شوق ہے۔ بھیّا میں نے تو ایک بڑی عجیب بات دیکھی کہ جب سے درخت کٹے ہیں لوگوں کا کہانی کہنے اور سننے کا شوق ہی کچھ کم ہوگیا ہے بلکہ تقریباً ختم سا ہوگیا ہے جب میں چھوٹا تھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لوگ میرے اور دوسرے درختوں کے نیچے الاؤ جلا کر جاڑوں کی سرد اور طویل راتیں کہانی کہنے اور سننے میں گزار دیتے تھے۔ اُن دنوں میں بھی ایک آدھ کہانی سنا لیا کرتا تھا۔ بچے عموماً میری کہانیاں بڑے شوق سے سنتے تھے اور بھیّا اس زمانے کے تو بچے بھی عجیب ہیں ان کو کہانیاں سننے کا شوق ہی نہیں۔ ہاں مجھے یاد آیا ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک بچہ آیا اور آکر میری جڑ پر بیٹھ گیا۔‘‘
 ’’تو پھر کیا ہوا؟ وہ بچہ کون تھا؟‘‘ مَیں نے سوال کیا۔
 بوڑھے برگد نے جواب دیا، ’’وہ بچہ مجھے عجیب سا لگا۔ چپ چاپ، کچھ رنجیدہ سا۔ اتنے عرصے بعد کسی بچے کو خود سے اتنا قریب دیکھ کر جی خوش ہوگیا بچپن کی یادیں ایک ایک کرکے اُبھرنے لگیں۔ میری شاخوں نے دل بھر بھر کر ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ تب میں نے اُس بچے سے پوچھا، ’’میاں تم اتنے چپ چاپ سے یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ یہاں تو کوئی نہیں بیٹھتا ہے؟‘‘
 ’’ارے درخت بابا تم بول بھی لیتے ہو؟‘‘ بچہ بڑی حیرت سے بولا۔
 میں نے جواب دیا، ’’ہاں جو لوگ میرے بہت قریب آتے ہیں بس وہی میری بات سمجھ سکتے ہیں چند لوگوں کے سوا کوئی اور میری بات سمجھ نہیں سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ میں خاموشی تک کی زبان سمجھ لیتا ہوں۔ مثلاً میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اس وقت تم اپنے گھر والوں سے روٹھ کر یہاں آئے ہو۔ ہے نا یہی بات؟‘‘ درخت بڑی شفقت اور محبت سے مسکرا کر بولا۔
 ’’ارے تم یہ کیسے جان گئے؟ تم کو کیسے پتہ چلا کہ مَیں اپنے گھر والوں سے روٹھ کر یہاں بیٹھا ہوں؟‘‘ ’’مَیں سب کچھ جانتا ہوں بچے۔ میری آنکھیں کبھی بند نہیں ہوتیں۔ دنیا دیکھی ہے مَیں نے۔ بڑا تجربہ کار ہوں.... دھیرے دھیرے اب چہرے بھی پڑھنے لگا ہوں۔ ہاں تو مَیں نے صحیح کہا تھا نا کہ تم گھر والوں سے روٹھ کر یہاں آئے ہو؟‘‘
 ’’ہوں اوں....‘‘ بچہ کچھ کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔
 ’’کیوں؟‘‘ مَیں نے اس سے سوال کیا وہ بولا، ’’اس لئے کہ اپنے گھر پر بالکل اکیلا ہوں اور چونکہ ابھی چھوٹا ہوں اس لئے محلے کے بچے مجھے اپنے کھیلوں میں شریک نہیں کرتے۔ میری ایک چھوٹی سی بہن ہے مَیں چاہتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کھیلے۔ میں فٹ بال کھیلتا ہوں، ’آئش پائش‘ کھیلتا ہوں تو وہ میرے ساتھ نہیں کھیل سکتی اور کھیل بھی کیسے سکتی ہے ابھی بہت چھوٹی ہے۔ اس پر مجھے غصہ آجاتا ہے تو میں اس کی مرمت کر دیتا ہوں۔ کوئی بڑا بھی میرے ساتھ دیر تک کھیلنے پر آمادہ نہیں ہوتا.... میری شرارتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مجھے اسکول جیسی جگہ پر بھیج دیا جاتا ہے تو مَیں ہفتوں بیمار بن جاتا ہوں۔ طبیعت ٹھیک بھی ہوجاتی ہے تو بھی کہتا ہوں کہ ابھی کچھ کچھ خراب ہے۔‘‘ بچے نے یہ ایک ٹھنڈی سانس بھری، ’’لیکن درخت بابا میری ٹریجڈی یہ ہے کہ میری ماں پاس کے کسی اسکول میں پڑھانے جاتی ہیں۔ جہاں وہ گھر سے گئیں اور میری دنیا سونی ہوگئی۔ پھر تو کسی بات میں لطف نہیں آتا اور میں بہت دکھی ہوجاتا ہوں۔ ابھی ابھی آپ نے یقیناً رکشے پر ان کو ادھر سے گزرتے دیکھا ہوگا۔ کالج کے کسی فنکشن میں ان کو چھ بجے شام کو پہنچنا تھا جب بہت رونا آیا میں اِدھر چلا آیا آپ کے پاس۔ بوڑھے بابا آپ بھی اکیلے ہیں اور میں بھی.... کیوں نہ ہم دوستی کرلیں آپ روز کہانیاں سنایا کیجئے گا اس طرح آپ کا دل بھی بہلے گا اور میرا بھی.... مجھے کہانیوں کا بڑا شوق ہے....‘‘ درخت سانس لینے کو رُکا۔
 ’’پھر.... پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
 ’’پھر یہ ہوا میاں صاحبزادے کہ اُس بچے نے مجھ سے بہت سی باتیں کیں۔ یہ بتایا کہ اس کو باتیں کرنے کا بہت شوق ہے اور یہ کہ جب گھر کے سارے لوگ کام میں لگے ہوتے ہیں تو وہ خود سے باتیں کیا کرتا ہے۔ پانی کی طرف دیکھ کر بولا، ’’دیکھئے تو درخت بابا ان پانیوں میں ایک خواب سا لگتا ہے....‘‘ پانی پر پڑتا ہوا پورے چاند کا عکس واقعی ایک خواب سا ہی لگ رہا تھا۔ پھر تو میں نے اُس سے بہت سی باتیں کیں، اُسے کہانیاں سنائیں۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اس کو خرگوش والی کہانی بہت پسند ہے.....

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : ساس اور بہو

....اور وہ والی کہانی سخت ناپسند ہے جس میں ایک چڑیا آتی تھی اور ایک دانہ لے جاتی تھی۔ اُس کی بہ نسبت وہ کہانی بہت پسند ہے جس میں ایک چڑیا نے اپنے میاں کے ساتھ مل کر کھچڑی پکائی۔ چڑا بچارہ جب گھی لینے گیا تو وہ ساری کھچڑی چٹ کر گئی۔ پھر آنکھوں پر پٹی باندھ کر لیٹ رہی۔ بڑی مکّار اور پیٹو تھی....‘‘
 یہ کہہ کر وہ بچہ زور سے ہنسنے لگا۔
 ’’تو بھئی ہم نے تو خرگوش والی کہانی سنی ہے وہی سناؤ ہم کو....‘‘ مَیں نے کہا۔
 بچہ بولا، ’’یہ کہانی امی اور ابّا روز مجھے سناتے ہیں۔ چونکہ یہ مجھے بہت پسند ہے اس لئے ہر روز اسے ضرور سنتا ہوں اور جب کبھی دن میں اسے سنانے کی فرمائش کرتا ہوں تو امی کہتی ہیں کہ دن کو کہانی کہنے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ اور تب مَیں کہانی سننے کا ارادہ ترک کرکے دیر تک ان مسافروں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں جو سمندروں میں، میدانوں میں اور پہاڑوں پر راستہ بھٹک گئے ہوں گے اور منزلوں کی تلاش کر رہے ہوں گے۔‘‘ اور پھر تو جناب اُس بچے نے خرگوش کی کہانی جس طرح شروع کی مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔‘‘
 ’’کیسے شروع کی....؟‘‘ مَیں نے جلدی سے پوچھا۔
 ’’ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ....‘‘ مَیں نے کہا، ’’ارے میاں تم خرگوش کی کہانی سنا رہے ہو کہ بادشاہ کی؟‘‘ کہنے لگا کہ، ’’میرے امی اور ابا مجھے بادشاہوں کی کہانیاں بہت سناتے ہیں اور شروع کرنے سے پہلے یہ جملہ ضرور کہتے ہیں ’ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ پھر اس بچے نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی سنائی....‘‘ اتنا سب کہنے کے بعد درخت بولا، ’’بچپن بھی کتنا سادہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی اپنا بچپن بہت یاد آتا ہے اور پھر تو صاحب وہ بچہ میرا گہرا دوست بن گیا۔ ایک دن کہنے لگا، ’’بوڑھے بابا! چاند بھی تو اکیلا ہے۔ مَیں آپ کی شاخوں پر بیٹھ کر اُسے چھو کر دیکھوں گا اور پھر اس کو بھی کہانی سناؤں گا۔ میرے بہت منع کرنے پر بھی وہ میرے تنے پر چڑھنے لگا اور سب سے اوپر کی شاخ پر جا کر بیٹھ گیا۔ چاند اب سرکتا ہوا بالکل میرے سَر کے اوپر تھا۔ بچہ چاند سے بولا، ’’چندا ماموں تم اتنے پیلے کیوں لگتے ہو۔ لگتا ہے تم کو کوئی مرض ہے۔ خون کی کمی ہے شاید۔ اپنے ماموں کو مَیں اتنا اداس نہیں دیکھ سکتا جب مَیں چھوٹا سا تھا تب سے تم کو ’’چندا ماموں‘‘ کہہ کر پکارتا رہا ہوں۔ اب مَیں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ سکتا۔ تمہیں چھو کر ہی دیکھوں گا۔ چندا ماموں تمہاری ڈاڑھی چھو کر دیکھوں؟ کیسی روئی کے گالوں جیسی لگتی ہے۔ مگر یہ روئی زرد کیوں ہوگئی؟‘‘ چاند بچے کی شوخ باتوں پر بڑی نرمی سے مسکرایا۔ اس مسکراہٹ نے اُس کی تھکن اور اداسی کو اور واضح کر دیا۔ وہ جواب سوچ رہا تھا کہ بچہ پھر بول پڑا، ’’چندا ماموں تم بڑے تھکے تھکے سے لگتے ہو۔ رات بھر چلتے رہنے سے تو تم بہت جلد بوڑھے ہوجاؤ گے۔ تھوڑی دیر آرام بھی کر لیا کرو۔ دیکھو تو یہ درخت بابا کتنے اکیلے ہیں۔ ان کے آس پاس ایک بھی درخت نہیں ہے۔ تم بھی ان ہی کی طرح اکیلے اور اداس ہو۔ تم جب تھک جایا کرو تو تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس آجایا کرو۔ پھر کچھ ہی روز میں تم دیکھو گے کہ ان کا بڑھاپا رخصت ہوجائے گا اور یہ پھر زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے۔‘‘ اتنا سب بتانے کے بعد درخت کی شاخوں میں ایک عجیب طرح کا ارتعاش پیدا ہوا جیسے اُس کی سانس پھول رہی ہو۔ جیسے وہ تھک گیا ہو۔
 ’’پھر.... آگے کیا ہوا....؟‘‘ مَیں نے بے چینی سے پوچھا۔
 درخت بولا، ’’ہاں تو چاند بچے کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر بہت حیران تھا۔ وہ بے حد تھکا ہوا تھا۔ آسمانوں کا طواف کرتے کرتے وہ اکتا سا گیا تھا۔ بہت آہستگی سے، لیکن مسکرا کر، اُس نے کہا، ’’کیا ہرج ہے۔ تھک جانے کے بعد میں اسی درخت کے پاس آجایا کروں گا اچھا ہے ذرا دل بہل جائے گا۔‘‘
 بچہ جھٹ سے بول پڑا، ’’ہاں تب تو خوب مزہ آئے گا۔ ہم کبھی کبھی ’آئش پائش‘ بھی کھیل لیا کریں گے۔‘‘
 ’’یہ کون سا کھیل ہوتا ہے بھئی....؟‘‘ چاند نے پوچھا۔
 ’’اس میں ایک چھپ جاتا ہے اور دوسرا اُسے ڈھونڈتا ہے۔‘‘ بچہ بولا۔
 اتنے میں سیاہ بادل کے ایک ٹکڑے نے چاند کا چہرہ چھپا لیا۔ بچے نے پھرتی سے بادل کو ہاتھوں سے ہٹا دیا۔ اب چاند پھر سامنے تھا تب بچے نے کہا، ’’اب سمجھے چندا ماموں؟ آپ چھپ گئے تھے۔ میں نے آپ کو ڈھونڈ لیا۔ بس یہی ’آئش پائش‘ ہے۔‘‘ درخت ذرا سانس لینے کو رُکا۔
 ’’پھر.... اسکے بعد....؟‘‘ میں نے پوچھا۔
 برگد نے کہا، ’’اور تب سے چاند کا معمول ہے تھک جانے کے بعد میرے پاس آجاتا ہے اور مجھے اپنے سفر کی تمام روداد سناتا ہے! چاند کی باتیں سننے کے بعد میں اُسے اپنی کہانیاں سناتا ہوں۔ وہ بچہ بھی آکر میری جڑ پر بیٹھ جاتا ہے کبھی میری شاخوں پر جھولتا ہے تو کبھی میرے سر پر چڑھ جاتا ہے اور چاند کی ڈاڑھی چھوتا ہے.... وہ....‘‘ درخت نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ ’’وہ دیکھو چاند کتنی تیزی سے بادلوں کو چیرتا میری طرف چلا آرہا ہے۔ اس وقت تو وہ کچھ اور بھی تھکا اور پریشان معلوم ہوتا ہے۔ شاید زمین پر پھر کوئی ان ہونی بات دیکھ کر آیا ہے۔ اور ہاں.... اور ہاں وہ دیکھو اُدھر.... زمین پر.... وہ بچہ کتنی تیزی سے بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ ہم تین بڑے اچھے دوست ہیں۔ مجھے لگتا ہے جیسے مَیں پھر بچپن کی طرف لوٹ رہا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر بوڑھے برگد نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا جو زمین سے باتیں کر رہی تھی!
 میں نے دیکھا وہ بچہ آتے ہی درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ چاند اب برگد کے بالکل اوپر تھا۔ تینوں ایک دوسرے کو اپنی اپنی کہانیاں سنانے لگے۔
 ’’....میں نے آج پھر ایک دریا دیکھا جس کا رنگ پہلے نیلا تھا پھر سرخ ہوگیا....‘‘
 چاند نے جلدی سے اپنی کہانی ختم کی اور اطمینان کا سانس لیا۔ پھر بچے نے اپنی کہانی شروع کی.....
 ’’ایک خرگوش تھا جس کا رنگ تو کالا تھا پر آنکھیں ہیرے کی طرح چمکتی ہوئی تھیں....‘‘
 اب درخت کی باری تھی چنانچہ اس نے کہنا شروع کیا کہ، ’’ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اس شہر سے ایک مسافر گزرا وہ میرے قریب آیا۔ وہ بہت پیاسا تھا، راستہ، بھول گیا تھا کہ اس کو اپنی منزل کا علم نہ تھا اور اپنا سفر جاری رکھنا تھا.... اور...‘‘
 ’’اُس نے ضرور اپنی ماں یا دادی سے دن کے وقت کوئی کہانی سنی ہوگی تبھی تو راستہ بھول گیا۔‘‘ بچہ بولا۔
 درخت کی کہانی بڑی طویل تھی۔ اسے سن کر میں گھر کی طرف چل پڑا۔
 یہ میرا کمرہ ہے اور سامنے کی دیوار پر برگد کی جڑیں، تنہ، شاخیں اور اوپر آسمان پر چاند.... اور جڑ کے پاس بیٹھا چھوٹا سا بچہ....!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK