Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : چاند سے بچھڑا تارا

Updated: July 16, 2025, 12:58 PM IST | Jannat Mahmood | Mumbai

یہ افسانہ کرشن چند کے افسانے ’پورے چاند کی رات‘ سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

جنّت محمود
سپنوں کی نگری، عروس البلاد۔ رات کی تاریکی ہر پل گہری ہوتی جا رہی تھی۔ آج بھی رات ممبئی شہر میں اتری تھی تو بلند و بالا عمارت جگمگا اٹھی تھی۔ روڈ کے اطراف کی لائٹس اور بلڈنگیوں کی بتیاں بھی جلنے لگیں۔ ایسے میں خوبصورت تاج ہوٹل کی عمارت عروس کے مانند کھڑی تھی۔ سمندر کے لہریں جوش و خروش سے ساحل پر سر پٹک رہی تھیں۔ ہر رنگ کے لوگ، مسکراتا چہرہ، خوبصورت لباس، بے فکر سے گھوم رہے تھے۔
 آج چاند رات تھی زمین پہ جیسے آسماں اتر گیا ہو۔ پوری ممبئی دلہن بنی بیٹھی تھی۔ سمندر کے پاس عجب سا ہجوم تھا۔ لوگ تصویریں نکلواتے کبھی خود کی تو کبھی آسمان کے کنارے نکلے باریک کھجور کی ٹہنی سے چاند کی۔ چاند... جو اتنے بڑے آسمان و سمندر کے درمیان میں تھا۔ اکیلا بالکل اکیلا....
  کوئی ستارہ نہیں جیسے سارے ستارے کھو گئے کہیں۔ گیٹ آف انڈیا رات کے پہر میں بہت شاندار دِکھ رہا تھا۔ سمندر کے کنارے پتھریلی دیوار کو میں نے آہستہ سے پکڑا۔ اور چلتی رہی اور انتظار کرتی رہی۔ کبھی نہ آنے والے شخص کا انتظار جو عذاب ہوتا ہے۔ کیوں؟ کیوں انتظار عذاب ہوتا ہے۔ کیوں انتظار منتظر کے ہر منظر کو دھندلا کر دیتا ہے۔ کیوں انتظار بے مروت ہوتا ہے۔ یہ سوال میں خود سے پچھلے سترہ برس سے کرتی رہی ہوں۔ جب میں ممبئی کی سر زمین پر ہوتی ہوں۔ جب میں پتھریلی دیوار کو پکڑتی ہوں۔ جب میں سمندر آسمان کے درمیان چاند کو دیکھتی ہوں۔ کیا اس چاند کو انتظار نہیں ہوتا جو ستارے اس سے بچھڑ گئے یا بچھڑ جاتے ہیں۔ چاند انہیں نہیں ڈھونڈتا ستارے فوراً لوٹ کے نہیں آتے مگر کبھی تو آتے ہیں دیر سے ہی سہی مگر آتے ہیں شاید چاند کو یقین ہوتا ہے کہ ستارے لوٹ کے آئیں گے۔ کیونکہ چاند سے بچھڑا تارا بچھڑ کر زیادہ دیر نہیں رہ سکتا.... شاید!
 شاید وہ تارا بھی لوٹ آئے جس نے کئی سال پہلے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم کبھی بچھڑے تو یہی ملیں گے۔ یہیں اس شہر میں اس تاج ہوٹل کے سامنے اسی گیٹ آف انڈیا کے قریب اسی پتھریلی دیوار کو پکڑے ہوئے یوں ہی چاند کو دیکھتے ہوئے۔ کیا اسے اپنا وعدہ یاد نہیں؟ کیا وہ ستارہ نہیں لوٹے گا؟
 روشن سڑکوں پر لوگوں کا ریلا بڑھتا رہا۔ گاڑی کے ہارن سے رستہ گونجتا۔ کھجور کی ٹہنی سا چاند بھی چھپ گیا اور میرا دل بھی ڈوب گیا۔ میں نے پتھریلی دیوار کو چھوڑا اور یوں ہی چلتی رہی روڈ کے دوسری طرف ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ پھولوں کا گجرا لئے۔  وہ پوپلی بڑھیا۔
 ’’تنہا ہیں آپ؟‘‘ میں نے سرخ گلابوں کا گجرہ اٹھایا۔
 ’’نہیں چھوری ہے میری، تو کیوں پوچھ رہی ہے؟‘‘ وہ یونہی اپنے کام میں مصروف تھیں۔
 ’’روز آتی ہیں؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
 ’’ہاں!‘‘ اس نے سر اٹھا کر مشکوک نظروں سے دیکھا۔
 ’’یہ کتنے کا ہے؟‘‘ ہاتھ میں پکڑے سرخ گلابوں کے گجرے کی قیمت پوچھا۔
 ’’پچہتر روپے کا۔‘‘ وہ پھر سے پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگ گئیں۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے کلچ کو کھولا۔ میرے قریب کوئی آکے بیٹھا تھا۔ مگر میں نے نہیں دیکھا۔
 ’’ارے جب کچھ لیا ہی نہیں تو پیسے کیوں کر دیتی ہو؟‘‘ بوڑھی عورت کی آواز پر میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ میرے قریب بیٹھے شخص کو کہہ رہی تھی۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے شخص کو دیکھا۔ نظریں اٹھیں۔ اور ملی.... اور دنیا پل بھر کو تھم گئی۔ سمندر کے تلاطم ہزار رنگینیاں لئے خاموش ہوگئے۔ آوازیں رک گئیں، لوگ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
 اور وہ ستارہ لوٹ آیا جو سترہ برس پہلے بچھڑ گیا تھا۔
 چاند سے بچھڑا تارا لوٹ آیا تھا۔
 ’’تم کہاں تھی اتنے برس؟‘‘ میری آنکھ میں بے اختیار آنسو امڈ آے۔ وہ پرسکون تھی۔ بہت مطمئن، میرے ہاتھ سے آہستہ سے اس نے گجرے لئے میں بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔ ’’کہیں تو.... نہیں....‘‘ اس نے بوڑھی عورت کو پیسہ دیا۔ اور کھڑی ہوئی، ساتھ میں بھی کھڑی ہوگئی۔
 ’’نازش ہم تم سے پوچھ رہے ہیں؟‘‘
 ’’اور میں بھی تمہیں کو بتا رہی ہوں کہ یہی تھی۔‘‘ ہم دونوں نے پتھریلے دیوار کو پکڑا اور گیٹ آف انڈیا کے قریب بڑھنے لگے۔ میرے پاؤں کی لڑکھڑاہٹ پر وہ رکی۔
 ’’یہ.... یہ.... کیا ہوا؟‘‘ ایک جھٹکے سے وہ میرے پاؤں کے قریب جھکی۔
 ’’ایکسیڈنٹ تھا۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔
 ’’اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔‘‘
 ’’اور تم نے پوچھا بھی تو نہیں۔‘‘ ( یہ ایکسیڈنٹ تبھی تو ہوا تھا جب تم مجھے ملزم بنا چکی تھی) وہ چند لمحے لاجواب سی ہوگئی۔ اور تلخی سے چہرہ پھیر لیا۔ پھر گردن کڑا کر بولی، ’’کیوں پوچھتی؟ کیا لگتی ہو تم میری جو پوچھتی؟‘‘وہ ایک دم بگڑ گئی اور سمندر میں پہاڑ سی کشتیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
 ’’نازش کیا ہو گیا تم اس طرح کیوں ٹریٹ کر رہی؟‘‘
 ’’کیا ہوگیا ہے؟‘‘ وہ تلخی سے مسکرائی اور گیٹ آف انڈیا کے قریب بڑھتی رہی۔
 ’’تمہیں پتہ ہے کیا ہو گیا ہے؟ وہی ہو گیا ہے جو تم چاہتی تھی۔‘‘ اس کی آنکھیں گلابی پڑگئی۔
 ’’معلوم ہے ہیزل لوگ کہتے ہیں راز دشمن سے چھپایا کرتے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مخلص دوست بھی غیروں کو راز دیتے ہیں۔ کسی نے نہیں بتایا کہ ہم راز ہی راز فاش کرتے ہیں۔‘‘ اس کی آنکھیں نم ہوئیں مگر روئی نہیں۔
 ’’تم بھی وہی نکلی آستین کا سانپ....‘‘
 ’’کیا ملا تمہیں۔ بولو ہیزل.. میری زندگی برباد کر کے تمہیں کیا ملا؟‘‘ وہ چلائی ۔
 ’’ہم تمہاری زندگی برباد کیوں کریں گے!‘‘ جواب میں وہ بھی چلائی۔ 
 ’’کیونکہ تم مجھ سے جیلس ہو۔ تم نہیں چاہتی کہ میرا اتنے بڑے گھر رشتہ ہو۔ میں.... میں....‘‘ اس کے الفاظ زبان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ 
 ’’ت.... ت.... تم تمہیں معلوم ہے ہیزل میرے دل میں تمہارا الگ مقام تھا۔ لیکن شاید تمہیں وہ راس نہیں آیا۔ تمہیں میں نے اپنی بہن کی طرح ٹریٹ کیا۔ لیکن تم تو سنڈریلا کی بہن کہلانے لائق بھی نہیں۔ کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا؟‘‘
جنّت محمود
’’دوست تو دل کا سکون ہوتے ہے نا۔ ان کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں نا، یا تمہاری طرح جلن حسد میں آکے اس کے راز فاش کر دیتی ہے۔ یہ کہہ دیتی ہے کہ اسے سفید داغ کی بیماری ہے۔ اس کے دل کا آپریشن ہوچکا ہے۔ اور وہ.... وہ دل کی مریض....‘‘ کچھ دیر کا وقفہ ہوا۔ سمندر خاموش تھا۔ جیسے سامع ہو۔ پتھریلے دیوار ٹھنڈی پڑی تھی۔ تاج ہوٹل کی روشنی مدھم پڑنے لگیں۔ ’’کاش تم کبھی میری سنتی سترہ برس سے تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ راز ہم نے فاش کئے ہیں۔ سترہ برس سے تم ایک ہی سوال کرتی ہو۔ کاش کبھی جواب بھی سنتی۔ ہمیشہ تم گلہ کرتی ہو۔ کاش کبھی ہمارے دل کی شکایت بھی سنتی۔‘‘
 وہ جا چکی تھی۔ وہ بہت دور جا چکی تھی۔ بہت دور.... جتنی دور ٹوٹے ستارے چاند سے چلے جاتے ہیں۔ جتنی دور سوکھے پتے ہواؤں کے سنگ چلے جاتے ہیں۔ بہت خاموشی سے میں خیالات کی دنیا سے نکلی۔ رش بڑھتا رہا سیاہ آسمان اپنی سیاہی ممبئی شہر میں اتار نہ سکا۔ ہر طرف روشنی تھی کل عید تھی۔ لوگ چیزوں کی خرید و فروخت کر رہے تھے۔ ممبئی بہت خوبصورت ہے مگر احساس سے خالی ہے۔ روڈ کے دوسری طرف میں نے پوپلی بڑھیا کو دیکھا۔ اور انہی خیالوں میں اس کی طرف بڑھ گئی۔ راستے کے وسط میں میری بیساکھی لڑکھڑائی۔ اور ہاتھ سے کلچ زمین پہ گر پڑا۔ میں جھکی اور کلچ اٹھایا۔ اگلے لمحے میں نے سامنے سے آتے ٹرک کو دیکھا میرا چہرہ تیز لائٹ سے روشن ہوا۔ تیز روشنی۔ بہت تیز.... میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ اور کلچ واپس زمین پر گر پڑا۔ تیز ٹرک ہارن بجاتے میرے سر پر سوار ہوا۔ کئی آوازیں ایک ساتھ اٹھیں لیکن میرے ہاتھ پاؤں نے جواب دے دیا۔ میری رگ رگ سے جان نکل چکی تھی۔ مگر میری چیخ ان آوازوں پر بھاری پڑ گئی۔ جب میرا وجود کسی پہاڑ سے ٹکرا کے زمین پہ گر پڑا۔ اور میرا ذہن کسی تاریک غار میں کھو گیا۔
ز ز ز
 کوئی شخص تاریک غار سے آہستہ آہستہ باہر آرہا تھا۔ ہاتھ میں گیٹار لئے وہ آواز تیز ہوئی۔ وہ اور باہر آیا اور پھر سے آواز تیز ہوئی۔ ایک جھماکے سے آواز بند ہوئی۔ اور میں نے ہولے سے آنکھیں کھولیں۔ میں نے آنکھ کی پتلیوں سے سیاہ چادر کو اٹھتے دیکھا۔ پھر اپنے سر پر لٹکے پنکھے کو دیکھا۔ اور دیوار کو، پھر محسوس ہوا جیسے میں کسی دوا خانے میں ہوں، مگر یہ اسپتال نہیں تھا۔ اتنا مجھے معلوم ہوچکا تھا۔ میں نے بے اختیار نظر گھمائی۔ لیکن کہیں کوئی نہیں تھا۔ کمرہ خالی تھا بالکل خالی.... جب قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ساتھ ہی آواز بھی ابھری۔ کوئی اندر آرہا تھا۔
 ’’کون ہے؟‘‘ میں نے بولنا چاہا لیکن آوازیں بند ہو گئیں۔ کوئی بھاگتے ہوئے میرے پاس آیا۔
 ’’او مائی گاڈ ہوش آگیا... مَیں.... مَیں ابھی انکل کو بلاتی ہوں....‘‘ کوئی باہر بھاگتے ہوئے گیا۔ ’’تم ٹھیک ہو بیٹا؟‘‘ منظر بہت دھندلا تھا۔ میں پہچان نہ سکی۔ ’’بیٹا! مجھے پہچانوں میں تایا ابا۔‘‘ میرے ہاتھ کو احتیاطاً پکڑے ہوئے وہ جیسے رو رہے ہو۔ ’’مَیں ڈاکٹر کو انفارم کرتی ہوں۔ مَیں انہیں کال کرتی ہوں۔‘‘ کوئی باہر نکلا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد میں مکمل ہوش میں تھی۔ میرے قریب تایا ابا بیٹھے تھے۔ بہت بزرگ سفید داڑھی والے۔ روبی چچی، حنظلہ اور ریفہ تھے۔ مگر میری نظریں کسی اور کی تلاش میں تھی۔ ان کے علاوہ کوئی اور بھی میرا اپنا یہاں تھا۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا سامنے سیاہ لباس میں ملبوس عمر دراز عورت خود کو سرمئی شال میں لپیٹے اندر آرہی تھی۔ اور صرف ایک لمحہ لگا مجھے.... ’’ن... ن... نازش!‘‘ میں نے اپنے دونوں بازو کو پھیلا دیا پھر زور کی چیخ سے روئی۔ وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی۔ اس نے احتیاطاً مجھے زور سے گلے لگایا۔ اور مَیں نے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔ ہم بہت دیر تک روتے رہے۔ جب سارے شکوے، شکایت، تکلیف، اور بہت سی چیزیں آنسو کا سہارا لئے باہر نکل گئیں، تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ اور مَیں نے بھی بازو سمیٹے، اس نے میرے دونوں ہاتھ کو نزاکت سے اپنے ہاتھ میں دبایا، ’’مجھے معاف کر دو ہیزل۔‘‘ وہ تلملا کے پھر سے روئی۔
 ’’معاف؟ تمہیں معلوم ہے نازش میں ان سترہ سالوں میں تم سے کبھی ناراض ہوئی ہی نہیں۔ اور تمہیں پتہ ہے....‘‘ مَیں نے اس کے آنسو کو زخمی ہاتھوں سے پوچھا، ’’ابھی مَیں رات میں بھی تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ہماری باتیں یوں شروع ہوئی جیسے ہم یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے ہوں۔ آج رات ہی اور صبح تم یہاں.... کوئی معجزہ ہوگیا ہے۔‘‘ جیسے چہرے پر بہت سی خوشیاں یکایک عیاں ہونے لگیں۔ اس نے بہت نزاکت سے میرے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ ’’وہ آج رات نہیں تھی۔‘‘ اس نے ’آج‘ پر زور ڈالا، ’’وہ چار سال پہلے کی رات تھی جب....‘‘ وہ نظریں چرا گئی۔ اس کے چہرے پر ذرا ذرا سی جھریاں تھی اور چاندی کے بال۔ ’’تمہارا ایکسیڈنٹ آج رات نہیں بلکہ چار سال پہلے کی رات ہوا تھا۔ اور تب سے تم کوما میں تھی۔‘‘ ’’کیا بکواس کر رہی ہو؟ تایا ابا یہ کیا بک رہی ہے؟‘‘ تایا ابا نے خاموشی سے گردن جھکائی۔ پھر کھڑے ہوئے، ’’سنبھالو اسے!‘‘ کہتے ہوئے نکل گئے۔
 ’’نازش؟‘‘ میں نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
 ’’ ہاں!‘‘ اس نے خود پر ضبط کیا۔ پھر بولی۔ بولی تو رکی نہیں، ’’مجھے معاف کر دو ہیزل پلیز مجھے معاف کر دو۔ تم جو سن رہی ہو وہ سچ ہے۔ یہ حادثہ آج رات کا نہیں ہے۔‘‘ اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں جیسے بے دم سی ہوگئیں، ’’جس کے کچھ مہینے پہلے مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرا راز ہیزل نے نہیں بلکہ میری ہم عمر پھپھو زاد بیٹی جویریہ نے فاش کیا تھا۔ اور یہ بات خود اس کے بھائی روحیل نے مجھے بتایا تھا۔ اس کے بعد میں تمہارے پاس آنے کی ہمت نہ کرسکی۔ اور جب ہمت ہوئی تو، تم نے آنکھ، کان اور زبان بند کر لی۔ پھر میں ان چار سالوں میں ہفتہ میں چار مرتبہ یہاں چکر لگانے لگی وہ بتاتے گئی اور میں دم سادھے سنتے گئی اور اب۔ اب اس بات کو لے کے ہماری زندگی کا اکیس سال گزر گیا ہے۔‘‘ ’’مطلب میری زندگی کا مکمل چھیالیس سال بیت گیا۔‘‘ بہت دیر کے بعد میں بولی تو وہ مسکرا دی۔
 ’’ہاں اور میری زندگی کا اڑتالیس مجھے معاف کر دو!‘‘ اس نے پھر سے کہا۔ ’’غلط فہمیاں ہماری ملاقات کے درمیان بیڑیاں بن سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے متصل قلب کے درمیان نہیں۔‘‘
 ’’تم میرے لئے آج بھی اتنی ہی خاص ہو جتنی اکیس سال پہلے تھی۔ تم میرا.... وہ عزیز ’ستارا‘ ہو جیسے چاند سے بچھڑا تارا چاند کو ہوتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK