• Thu, 02 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : دل شیشہ، دل پتھر

Updated: September 25, 2025, 4:46 PM IST | Tarranum Saba | Mumbai

”حبا، ربا کہاں ہو تم لوگ؟“ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اونچی آواز میں پکارا۔ ”جی بھائی!“ وہ دونوں لمحوں میں حاضر ہوگئیں۔  ”کہاں گم تھیں تم لوگ، لو حبا پکڑو یہ تمہارا فرمائشی پروگرام اور ربا یہ تمہارے لئے۔“

Picture: INN
تصویر: آئی این این

”حبا، ربا کہاں ہو تم لوگ؟“ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اونچی آواز میں پکارا۔ ”جی بھائی!“ وہ دونوں لمحوں میں حاضر ہوگئیں۔
 ”کہاں گم تھیں تم لوگ، لو حبا پکڑو یہ تمہارا فرمائشی پروگرام اور ربا یہ تمہارے لئے۔“
 اس نے ہاتھ میں پکڑے شاپرز  دونوں کی طرف بڑھائے۔
 ”واؤ بھائی آپ ڈریس لے آئے۔یُو آر گریٹ بھائی!“ حبا خوشی سے اچھل پڑی۔ شجاع مسکرا دیا۔
 ”اس کی کیا ضرورت تھی بھائی؟!“ ربا سنجیدگی سے بولی۔ ”تم یہ فارملٹی رہنے دو اور بڑھیا سی چائے پلاؤ۔“ وہ صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔
 ”ابھی لیجئے۔“ ربا کہہ کر کچن کی طرف چل دی۔ صوفے پر بیٹھی قریشہ بیگم پیار سے  بیٹے کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھیں۔
 ”بھائی کتنا پیارا سوٹ لائے ہیں۔“ کمرے  کی طرف بڑھتے ہوئے حبا نے شاپرز  سے کپڑا نکال کر دیکھتے ہوئے کہا۔
 ”تم نے بھائی سے سوٹ کے لئے کیوں کہا تھا؟“ باورچی خانے کی طرف بڑھتی ربا نے حبا کو روکا، ”ہمارے پاس کتنے سارے اچھے سوٹ ہیں۔ ہم انہیں پہن کر بھی تو نازیہ کی انگیجمنٹ میں جاسکتے تھے نا!“ اس نے حبا کو گھورا۔
 ”تمہارا مطلب ہے کہ مَیں نازیہ جیسی امیر کبیر لڑکی کی منگنی میں وہ دسیوں بار کے پہنے ہوئے  ڈریس پہن کر چلی جاتی۔“ حبا نے بھویں سکیڑیں ۔
 ”وہ ڈریس اتنے بھی پرانے نہیں ہیں۔ اور کیوں بناتی ہو اتنے امیر دوست کہ انہیں دیکھ دیکھ کر تم احساس کمتری کا شکار ہو جاؤ۔ انسان کی پہچان اس کے کپڑوں سے نہیں اس کے اخلاق سے ہوتی ہے اور اس کی قدر بھی اسکے لباس سے نہیں بلکہ اس کے کردار اور قابلیت سے ہوتی ہے۔“ حبا نے کہا۔
 ”تم یہ لیکچر بند کرو اور جاکر چائے بناؤ۔ جب بھائی نے کچھ نہیں کہا تو تم کیوں اتنا ہنگامہ کر  رہی ہو؟ بھائی نے تمہیں بھی تو سوٹ لا کر دیا ہے نا!“ حبا نے منہ بنا کر کہا۔
 ”کتنی بے حس ہو تم حبا! تمہیں اپنے علاوہ کبھی کسی کا خیال نہیں آتا۔ اور میں نے بھائی سے سوٹ کیلئے نہیں کہا تھا۔ مجھے اتنی خواہش نہیں کپڑوں کی میری طرف سے وہ ڈریس بھی تم ہی رکھ لو۔“ ربا چڑ کر بولی اور کچن میں آگئی۔
 ”کتنی لاپروا اور بے مروت ہے حبا اسے کوئی بات محسوس ہی نہیں ہوتی۔ پتہ نہیں بھائی نے یہ پیسے کس ضرورت کے لئے سنبھال کر رکھے ہوں گے۔“ وہ چائے بناتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔
 ”میری کوئی بھی ضرورت میری بہنوں سے زیادہ اہم نہیں ہے۔“ کچن میں داخل ہوتے ہوئے شجاع نے کہا۔
 ”بھائی! آپ.... مَیں بس چائے لا ہی رہی تھی۔“ اس نے جلدی سے بات بدلنی چاہی۔ شجاع اپنی اس مخلص اور نرم دل بہن کو دیکھ کر مسکرا دیا، ”مجھے پتہ تھا تم یہی سب بےکار کی باتیں سوچ رہی ہوگی۔ تمہیں کسی بات کی فکر کرنے یا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ربا! ابو اس گھر کی ذمے داری مجھ پر چھوڑ کر گئے ہیں۔ کتنی محبت کرتے تھے وہ ہم تینوں سے۔ تم میں اور حبا میں تو ان کی جان بستی تھی۔“
 ”مجھے تو لگتا ہی نہیں ہے بھائی کہ ابو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ آپ کی محبت اور شفقت نے مجھے کبھی ان کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔“ ربا نے بہت پیار اور مان سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا۔ ”بہت بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے میری ننھی سی گڑیا۔ مگر صرف باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا بھئی۔ بھوک لگ رہی ہے جلدی سے چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی لے کر آؤ۔“
 شجاع نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا اور باہر نکل گیا۔ ربا دھیمے سے مسکرا دی۔
ز ز ز
 ”یہ نہیں ہوسکتا مَیں یہ شادی نہیں کروں گی۔“ حبا کے صاف انکار پر ربا سناٹے میں رہ گئی۔
 ”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا! تمہیں پتہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟“ ربا نے اسے گھور کر کہا۔
 ”مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے کہ مَیں کیا کہہ رہی ہوں۔ بھائی اس طرح میری مرضی کے بغیر میری شادی نہیں کر سکتے۔“
 ”حبا! بھائی نے آج تک ہمارے لئے جو بھی چنا بیسٹ ہی چنا اور تم انہی کے انتخاب پر شک کر رہی ہو!“ ربا حیران تھی۔ حبا نے ایک نظر سے دیکھا پھر بے نیازی سے اپنے ہاتھوں کو تکنے لگی۔
 ”ذرا سوچو تو حبا! بھائی نے ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ اپنی کتنی ہی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر انہوں نے ہماری فرمائشیں پوری کیں۔ ایک باپ کی طرح ہی ہمیشہ ہمارا خیال رکھا تو کیا  وہ ہماری زندگی کا ایک فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔“ ربا نے پیار سے اسے سمجھانا چاہا۔
 ”انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کا فرض تھا۔ ہر بھائی اپنی بہن کے لئے یہی سب کرتا ہے۔ انہوں نے کوئی احسان نہیں کیا ہم پر۔ اور جسے تم ایک فیصلہ کہہ رہی ہو وہ میری زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہے۔“  حبا تنک کر بولی۔
 حبا! تمہیں بھائی پر یقین نہیں ہے؟“ ربا کو حیرت ہو رہی تھی حبا کی باتوں پر۔
 ”ایسی بات نہیں ہے ربا۔ بس میں یہ شادی نہیں کرسکتی۔“ وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔
 ”مگر کیوں؟ بھائی نے اتنا اچھا لڑکا پسند کیا ہے اور تم....“
 ”بھائی نے پسند کیا ہے نا! مَیں نے تو نہیں۔ مجھے کوئی اور پسند ہے۔“ آخر سچ بات حبا کے منہ سے نکل ہی گئی۔ ربا ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔
 ”تو یہ وجہ ہے تمہارے انکار کی۔“ اس نے استہزائیہ نظروں سے حبا کو دیکھا۔
 ”تمہاری پسند کون ہے حبا؟“ آواز شجاع کی تھی۔ وہ دونوں بہنیں بحث میں ایسا الجھی تھیں کہ انہیں شجاع کے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا جو نہ جانے کب سے دروازے پر کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ربا کا گھبراہٹ کے مارے گلا سوکھنے لگا۔ حبا بھی پل بھر کو چپ رہ گئی۔ اسے امید نہیں تھی کہ بھائی کو یوں اچانک سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ شجاع نے کمرے میں قدم رکھا، ”بولو حبا! کسے پسند کرتی ہو تم؟“ سنجیدگی شجاع کے چہرے  کے ساتھ ساتھ اس کی آواز سے بھی جھلک رہی تھی۔ حبا بھی گھبرا گئی تھی لیکن وہ اس موقع کو کھونا نہیں چاہتی تھی اس لئے نظریں جھکائے ہوئے اس نے اس شخص کا نام بتا ہی دیا جسے سن کر ربا کے ہاتھوں سے پانی کا گلاس چھوٹا تھا تو شجاع کے چہرے پر بھی پہلے حیرت اور پھر غم و غصے کا طوفان امڈ آیا تھا۔
 ”تمہارا دماغ خراب ہوگیا حبا۔ تم اس آوارہ اور بیہودہ شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جس کا نہ تو کوئی حال ہے اور نہ ہی مستقبل۔ معصوم اور بھولی بھالی لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسانا ہی جس کا کام ہے۔ پورا محلہ اس کی اور اس کے خاندان کی  اصلیت سے واقف ہے۔ تم  نے کیا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے جو ایسے گھٹیا انسان کو اپنی زندگی کا شریک سفر بنانا چاہتی ہو۔“ شجاع غصے سے بولا۔

”بھائی مَیں فیض علی کے علاوہ اور کسی سے شادی نہیں کروں گی۔“
 حبا نے ڈھٹائی اور بے خوفی سے کہا۔
 ”تم سچ میں پاگل ہوگئی ہو حبا جو اپنا اچھا، برا بھی نہیں سمجھ پا رہی مگر مَیں پاگل نہیں ہوں۔ مَیں تمہیں جانتے بوجھتے اس آگ میں کودنے نہیں دوں گا۔ کان کھول کر سن لو مَیں اس لفنگے سے تمہاری شادی ہرگز نہیں کرسکتا۔“ شجاع فیصلہ کن انداز میں کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ ربا نے سہمی ہوئی نظروں سے حبا کو دیکھا جس کے چہرے پر بغاوت کے آثار نظر آرہے تھے۔
 قریشہ بیگم دونوں ہاتھوں سے سَر پکڑے بیٹھی تھی۔ ان کی آنکھوں سے انسو رواں تھے۔ ربا بھی ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی اور شجاع کے چہرے پر بے یقینی بکھری تھی۔
 ”لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں امی کہ لڑکیوں کو زیادہ چھوٹ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں کبھی ضرورت سے زیادہ آزادی نہیں دینی چاہئے۔ مَیں بے وقوف تھا جو کسی کی بھی بات نہ مان کر اپنی بہنوں کو اتنا پیار کرتا رہا، ان پر اندھا اعتماد کرتا رہا۔“ کافی دیر بعد جب وہ بولا تو اس کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔ روتی ہوئی ربا نے اس کی بات پر سَر اٹھا کر شاکی نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ کیا کرتی۔ کچھ کہنے کی حالت میں ہی نہیں تھی۔
 ”اب بس کریں آپ لوگ۔ یہ رونا دھونا بند کریں۔ رونے سے گیا ہوا وقت واپس پلٹ کر نہیں آجائے گا۔“
 ”شجاع بیٹا! حبا....“
 ”کون حبا؟“ شجاع نے تیزی سے ان کی بات کاٹی، ”مَیں کسی حبا کو نہیں جانتا اور نہ ہی آئندہ یہ نام سننا چاہتا ہوں۔ آج سے وہ ہمارے لئے مر چکی ہے۔“ وہ سخت انداز میں کہہ کر وہاں سے اٹھ گیا اور وہ اپنے ہاتھ میں تھمے اس چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھتی رہ گئی جس نے ان کی زندگی میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔ اس کی نظریں پھر سے خط پر جم گئیں۔
 ”امی مَیں فیض عالم کے علاوہ اور کسی سے شادی نہیں کرسکتی اور آپ لوگ میری بات ماننے کو تیار نہیں اس لئے مَیں گھر چھوڑ کر فیض عالم کے ساتھ جا رہی ہوں۔“
 یہ حبا کا خط نہیں بلکہ ایک بم تھا جو ان سب کے سَر پر پھٹا تھا۔ وہ حبا کی اس جرأت اور غلط قدم پر ماتم ہی کر رہی تھی کہ اس کا موبائل بج اٹھا ’شاید حبا کا فون ہو‘ اس نے آس کے جگنو پکڑنے چاہے۔ جلدی سے فون اٹھایا، مگر دوسری طرف اس کی سہیلی تھی جس نے اسے یاد دلانے کے لئے فون کیا تھا کہ اج کمپیوٹر سینٹر جلدی جانا تھا۔ ربا نے منع کر دیا۔ گھر میں صفِ ماتم بچھی تھی ایسے میں کہیں بھی جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
 ”کس سے بات کر رہی ہو؟“ شجاع نے اسے فون پر بات کرتے دیکھا تو تیر کی طرح لپک کر اس کی طرف آیا اور تیز آواز پوچھا۔ اس نے جلدی سے فون کاٹ دیا۔
 ”وہ بھائی! میری.... سہیلی.... کا فون تھا.... کمپیوٹر سینٹر.... میں آج.... اسپیشل کلاسیز تھیں.... اسی لئے جلدی جانا تھا ممم.... مگر مَیں نے منع کر دیا۔“ وہ اٹک اٹک کر بولی۔
 ”ٹھیک کیا۔ اب تم کبھی بھی کمپیوٹر سینٹر نہیں جاؤ گی۔ کالج کو چھوڑ کر تمہاری ساری دوسری ایکٹیوٹیز آج سے بند ہوں گی سمجھی....“ شجاع کی سخت آواز پر ربا کے آنسو آنکھوں میں ہی تھم کر رہ گئے۔ شجاع لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ ’اب تمہارے حصے کی سزا بھی مجھے ہی کاٹنی ہوگی حبا‘ ربا نے زور سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔
زندگی جیسے بوجھ بن گئی تھی۔ حبا کے گھر سے چلے جانے کی وجہ سے پورے خاندان اور معاشرے میں ان کی جو بدنامی اور بے عزتی ہوئی تھی اس نے انہیں کسی کے سامنے سَر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ قریشہ بیگم نے تو بستر ہی پکڑ لیا تھا۔ شجاع کو بھی اگر آفس نہ جانا ہوتا تو شاید وہ بھی گھر سے باہر نہ نکلتا اور ربا اس ساری صورتحال سے بوکھلائی سی پھرتی تھی۔ شجاع بہت سنجیدہ رہنے لگا تھا۔ اس سے تو برائے نام کو بات کرتا تھا۔ اس کی طرف اتنی کاٹ دار نظروں سے دیکھتا کہ اس کا جرم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ مجرم بن جاتی اور اس سے بات کرنے کا حوصلہ نہ کر پاتی۔ اس دن بھی ربا نے بہت ہمت کرکے شجاع کو پکارا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رک گیا لیکن پلٹا نہیں۔ ربا کچھ بول ہی نہیں پائی۔ یہ وہی بھائی تھا جس سے وہ گھنٹوں باتیں کرتی تھیں اور اپنے لاڈ اٹھواتی تھی۔ آج اسے مخاطب کرتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا۔
 ”جلدی بولو ربا! کیا بات ہے؟“ شجاع کی آواز سنجیدہ تھی۔
 ”وہ.... بھائی.... میری سہیلی کے گھر پر....“
 ”کوئی ضرورت نہیں کہیں جانے کی۔“ شجاع نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی، ”پہلے سگے رشتوں کو نبھانا سیکھو پھر دوستی نبھانا....“ وہ خشک لہجے میں بولا تو ربا سہہ نہ سکی۔ اس نے شجاع کے ہاتھ تھام لئے، ”آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں بھائی؟ جو کچھ بھی کیا حبا نے کیا اس میں میری کیا غلطی ہے؟ آپ مجھے کیوں سزا دے رہے ہیں؟ کیوں اتنی بے رخی برت رہے ہیں میرے ساتھ؟ “ وہ رو پڑی۔
 ”سزا تو مجھے مل رہی ہے ربا۔ گھر سے باہر نکلتا ہوں تو لوگوں کی مذاق اڑاتی نظریں پیچھا کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ مَیں کس طرح ان کا سامنا کرتا ہوں یہ مَیں ہی جانتا ہوں۔ اعتماد کا شیشہ ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر جڑتا نہیں۔ میں تمہیں دکھ پہنچانا نہیں چاہتا لیکن اب مَیں کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ تم پر بھی نہیں۔“ شجاع سنجیدگی سے کہہ کر واپس مڑ گیا۔ ربا تھکے تھکے قدموں سے ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔
 ”ربا بیٹی! تمہیں تو آج اپنے سہیلی کے یہاں میلاد شریف میں جانا تھا نا! اب تک تم تیار نہیں ہوئی؟“ قریشہ بیگم اسے دیکھ کر بولیں تو باہر نکلتے شجاع کے قدم ٹھٹکے۔
 ”میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے امی! مَیں نہیں جاؤں گی۔“ وہ بھاری آواز میں بولی اور ان کی گود میں سَر رکھ کر لیٹ گئی۔
 شجاع سرد سانس بھر کر باہر نکل گیا۔
 کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مسیحا ہوتا ہے جو انسان کے سارے درد و غم کا علاج کر دیتا ہے۔ ان کے زخموں کو بھی اس مسیحا نے مندمل کر دیا تھا۔ شجاع کا رویہ بھی قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ حالانکہ اب وہ پہلے جیسی بے تکلفی اور اپنائیت تو نہیں رہ گئی تھی مگر وہ سرد مہری بھی نہیں تھی جو ربا کو ایک تکلیف میں مبتلا رکھتی تھی۔ انہی دنوں ربا کے لئے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا شجاع کا دیکھا بھالا تھا اور اکیلا تھا۔ اس کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ اسے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، ہاں شجاع نے ضرور ربا سے کہا تھا، ”ربا! اگر تمہیں یہ رشتہ منظور نہیں ہے تو مجھے صاف صاف بتا دینا مگر پلیز.....

....تم بھی میری غیرت کو اپنے پیروں تلے مت روندنا....“ شجاع کے درد میں ڈوبے الفاظ ربا کے دل میں نشتر کی طرح چبھے تھے۔
 ”بھائی آپ جہاں چاہیں میری شادی کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ اس نے سارے آنسو اپنے اندر اتار لئے۔ شجاع خاموشی سے باہر نکل گیا۔
 ”آپ کا اعتماد دوبارہ پانے کے لئے اگر مجھے تپتے صحرا میں برہنہ پا بھی چلنا پڑا تو مَیں چلوں گی بھائی....“ وہ بے آواز آنسوؤں سے رو دی۔ اس کے سامنے سچ میں درد کا ایک صحرا ہی تو بکھرا تھا اور اسے اب اس سلگتے صحرا میں ایک نہ ختم ہونے والا سفر کرنا تھا۔ شادی بہت سادگی سے ہوئی۔
 رخصتی کے وقت شجاع نے ربا کے سَر پر ہاتھ رکھا، ”آج تم نے میرے ٹوٹے ہوئے بھروسے کو پھر سے جوڑ دیا ہے ربا۔ مجھے تم پر فخر ہے۔ میں تم سے اپنے سخت رویہ اور ساری کوتاہیوں کے لئے معافی مانگتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ تم رضا کے ساتھ سدا خوش رہو۔“
 شجاع کے یہ چند الفاظ سن کر ربا کو یوں لگا جیسے اسے اپنی ساری قربانیوں کا صلہ مل گیا۔ اس کے دل میں سکون اترتا چلا گیا اور وہ رضا کے سنگ رخصت ہوگئی۔
 شجاع اپنی کوئی فائل ڈھونڈ رہا تھا جو اسے مل ہی نہیں رہی تھی۔
 ”ربا نے سارے پیپرز جانے کہاں چھپا دیئے ہیں؟“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے نیچے گرے ڈائری کو واپس ریک میں رکھنا چاہا مگر کور پر ربا کا نام پڑھ کر ٹھٹک گیا۔
 ”ربا کی ڈائری! ربا کو تو ڈائری لکھنے کی عادت نہیں تھی۔“ حیران ہوتے ہوئے اس نے صفحہ پلٹے تو تاریخ پر نظر پڑتے ہی ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا کیونکہ ڈیٹ حبا کے گھر چھوڑ کر جانے کے کچھ دن بعد کی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ربا کی ڈائری پڑھنے لگا:
 ربا کے اس طرح چلے جانے سے زندگی کتنی دشوار لگنے لگی ہے۔ امی نے تو بستر ہی پکڑ لیا ہے۔ بھائی بھی اپنا غصہ، اپنا دکھ، اپنی جھلاہٹ مجھ پر نکالتے ہیں لیکن مَیں کیا کروں، کس سے کہوں اپنے دل کی باتیں اسی لئے ان بے جان کاغذوں کو ہی اپنا ساتھی بنا لیا۔
 پڑھ کر شجاع کے دل میں درد سا اٹھا۔ اس نے صفحہ پلٹا:
 بھائی مجھ سے کتنی بیگانگی سے بات کرتے ہیں۔ میرا دل دکھ سے بند ہونے لگتا ہے۔ کہاں تو مَیں گھنٹوں ان سے باتیں کرتی تھی اور اب انہیں مخاطب کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ لگتا ہے حبا کے کئے کی سزا مجھے ساری زندگی کاٹنی پڑے گی۔
 شجاع کی آنکھیں جلنے لگیں۔ سچ ہی تو لکھا تھا ربا نے۔ غلطی حبا کی تھی لیکن سزا اس نے ربا کو دی تھی۔ اسے اپنی زیادتی کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلے صفحے پر لکھا تھا:
 آج بھائی نے کہا کہ ان کا اعتماد ٹوٹ چکا ہے وہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتے مجھ پر بھی نہیں۔ کاش! مَیں اپنی جان دے کر بھی بھائی کا اعتماد جیت پاتی تو جان بھی دے دیتی....
 شجاع نے درد سے آنکھیں بند کر لیں۔ اسے آج ربا کی ہر تکلیف کا، اس کے وجود میں اترے ہر طوفان کا احساس ہو رہا تھا۔ ربا نے شاید اپنے دل کا سارا درد ان بے جان صفحات پر نکال دیا تھا لیکن آخری پیج پر شجاع کہ ہاتھ کانپ کر رہ گئے۔ سانسیں جسے رکنے لگیں۔ اس کی دکھ سے پھیلی آنکھیں سطروں پر جمی تھیں:
 آخر مجھے بھائی کا اعتماد واپس پانے کا موقع مل ہی گیا۔ بھائی تو میرے لئے رضا کا رشتہ لائے ہیں، اگر وہ کسی راہ چلتے بھکاری سے بھی میری شادی کرتے تو مَیں انکار نہ کرتی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کے لئے مجھے اپنے دل کا دیا بجھانا پڑے گا لیکن سگے رشتوں کو نبھانے کے لئے مَیں اس دل کے رشتے سے بھی ناتا توڑنے کے لئے تیار ہوں۔ آج کے بعد مَیں اس شخص کا نام تو کیا خیال بھی اپنے ذہن  میں نہیں لاؤں گی۔
 مَیں جانتی ہوں ڈاکٹر صاحب! آپ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں مگر زندگی میں کچھ درد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی مداوا نہیں ہوتا۔ مجھے بے وفا مت سمجھئے گا یہ میری بدقسمتی ہے کہ آپ جیسے نیک اور کھرے انسان کی محبت اور رفاقت میرے نصیب میں نہیں لکھی۔ مجھے معاف کر دیجئے گا۔ آپ ہی تو کہتے ہیں نا کہ محبت کبھی بھی مرتی نہیں بس اپنا معیار بدل دیتی ہے۔ میں نے بھی اپنی محبت کا معیار بدل دیا ہے۔ اگر میری اس چھوٹی سی قربانی سے میری امی اور بھائی کو خوشی اور سکون حاصل ہوتا ہے تو یہ سودا برا نہیں ہے....
 پنوں پر جگہ جگہ آنسو کے دھبے تھے لیکن شجاع کو لگا گویا وہ ربا کے دل کے خون کے چھینٹے تھے۔ ڈائری اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ بے جان سا کرسی پر گر گیا۔ ربا نے اس کی خوشی کے لئے اتنی بڑی قربانی دی تھی۔ رضا ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا جبکہ ربا کا معیار کتنا بلند تھا۔ اس نے محبت بھی کی تھی تو ایک نیک، شریف اور کامیاب انسان سے۔ اس نے اپنی محبت کو اپنے لئے الزام نہیں بننے دیا تھا۔ دل کی محبت میں وہ بھلے ہی ہار گئی تھی مگر فرض اور خونی رشتوں کی محبت میں وہ سرخرو ہوئی تھی۔ ربا نے تو اس کی نظروں میں اپنا مقام بلند کر دیا تھا۔ لیکن دکھ، درد، افسردگی اور پشیمانی کا ایک سیلاب تھا جو شجاع کو اپنے ساتھ بہائے لئے جا رہا تھا ۔ اپنی بدگمانی میں اس نے ربا کے ساتھ کتنی بڑی ناانصافی کی تھی۔
 خطا حبا کی تھی، سزا ربا کو ملی تھی اور پچھتاوے شجاع کا مقدر بن گئے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK