مَیں جب اس کے پاس سے گزرتی تھی، وہ مجھے محسوس ہوتا تھا۔ بہت بار، یہی ہوا۔ مَیں وہاں سے گزرتی.... اور وہ بھی وہاں سے گزرتا ہوتا۔
EPAPER
Updated: August 20, 2025, 6:00 PM IST | Azra Abbas | Mumbai
مَیں جب اس کے پاس سے گزرتی تھی، وہ مجھے محسوس ہوتا تھا۔ بہت بار، یہی ہوا۔ مَیں وہاں سے گزرتی.... اور وہ بھی وہاں سے گزرتا ہوتا۔
مَیں جب اس کے پاس سے گزرتی تھی، وہ مجھے محسوس ہوتا تھا۔ بہت بار، یہی ہوا۔ مَیں وہاں سے گزرتی.... اور وہ بھی وہاں سے گزرتا ہوتا۔ مجھے وہ ہوا کی طرح محسوس ہوتا، جو مجھے چھو جاتی تھی۔ مجھ پر کپکپی سی چڑھنے لگتی۔
یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ میرے پاس سے گزرے اور مجھے پتہ نہ چلے۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ وہ پیچھے سے آرہا ہوتا اور میں اس کے بارے میں سوچے بغیر راستہ چل رہی ہوتی۔ لیکن میں ٹھٹک جاتی۔ اسکے قریب آنے سے پہلے ہی مجھے پتہ چل جاتا کہ میرے پیچھے وہ ہی ہے۔ وہ گزر جاتا، یہ جانے بغیر کہ مَیں کون ہوں، اور کیا سوچ رہی ہوں۔
وہ صرف اسی راستے میں مجھے نہیں ملتا۔ اکثر کسی بھی کوریڈور میں، کسی بھی جگہ۔ لیکن مجھے اسکے ہونے کا وہاں شبہ نہیں بلکہ یقین ہوجاتا۔ خواہ وہ کسی مجمع میں کسی بہت تیز چلنے والی بھیڑ میں ہی ہو۔
یہ اکثر ہوتا۔ کبھی یہ ہوتا رہتا۔ اور کبھی یہ اکثر نہیں بھی ہوتا۔ اور بہت بہت دن نکل جاتے۔ وہ مجھے نظر نہیں آتا۔ یہ بھی نہیں کہ اگر مجھے وہ نہیں ملتا، تو مجھے کوئی ملال ہوتا یا میں اس کی تلاش میں رہتی۔ میں نے کئی بار اپنی اس حالت پر سوچا، ایسا کیوں ہوتا ہے، جب کوئی اتنی بھیڑ میں پہچان میں آجاتا ہو، تو وہ بعد میں بھی یاد رہ جانا چاہئے۔ بعد میں کچھ بھی نہیں ہوتا، وہ گزر جاتا یا مَیں اسکے پاس سے گزر جاتی اور میری حالت پہلے جیسے ہی ہوجاتی۔ کوئی بیقراری نہیں، کوئی بے چینی، بہت سپاٹ، اور جو میں کام کر رہی ہوتی، وہ بڑی دلجمعی سے کرتی رہتی۔
اس کی ابتدا بھی بہت معمولی طریقے سے ہی ہوئی تھی۔ وہ دن میری زندگی کا شاید مصروف ترین دن تھا۔ مجھے اپنے کاغذات، آنیوالے امتحان کیلئے جمع کرانے تھے اور ضروری اسناد، جو مَیں ابھی تک مختلف امتحانات میں حاصل کرکے آئی تھی، مَیں نے دوڑ بھاگ کر جمع کی تھیں اور اب میں سب کو اکٹھا کئے ایک لائن میں کھڑی تھی، جہاں میرے جیسے بہت سے اس لائن میں کھڑے، اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ دن بھر کی تھکن اور بھوک.... صبح سے مجھے کھانے کا ہوش بھی نہیں تھا، وہ کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ مَیں اپنے آگے لمبی لائن کو کبھی کبھی سَر نکال کر دیکھ لیتی اور گنتی کرتی جاتی کہ کتنے رہ گئے۔ دھوپ اور بھوک اور تھکن مجھے کم و بیش نڈھال کئے ہوئے تھے۔ مَیں نے اپنے پیچھے کھڑی ایک لڑکی سے کہا، مجھے پیاس لگی ہے، سامنے کولر سے پانی پی آؤں۔ تم جگہ کا خیال رکھنا۔ اس نے میرا چہرہ دیکھ کر رضا مندی میں سَر ہلایا اور میرے کاغذات تھام لئے۔ مَیں نے کولر کی طرف دوڑ لگائی، وہاں پہلے سے کوئی جھکا پانی پی رہا تھا۔ ایک ہی نل تھا۔ مَیں نے کولر کے قریب پہنچ کر اپنی رفتار کم کر دی تھی۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے لگا تھا، جیسے موسم خوشگوار ہوگیا ہے، دھوپ کی تمازت کم ہوگئی ہے اور میری تھکن بھی۔ مَیں نے اپنے جسم میں چستی محسوس کی، یہ کیا ہوا؟ اچانک۔ اتنی دوڑ لگا کر مَیں یہاں تک آئی تھی۔ میری سانس پھولنی چاہئے تھی۔ جھکے ہوئے، پانی پینے والے نے سَر اٹھایا اور مجھے دیکھے بغیر.... اپنے ہونٹوں کو پونچھتا ہوا، میرے قریب سے گزر گیا۔ مَیں کولر سے پانی پی رہی تھی، اور اس تبدیلی پر سوچ رہی تھی پانی پی کر سَر اٹھا کر، مَیں نے اُسے دیکھنا چاہا، وہ بہت دور جا چکا تھا۔ مجھے یوں لگا، جیسے بادل کا ٹکڑا میرے سَر سے گزر گیا ہو۔ تھوڑی سی پھوار پڑی ہو۔ مَیں اس غیر معمولی صورتحال کی انتہائی معمولی رویے سے محسوس کرتی ہوئی پھر لائن میں آ کھڑی ہوئی۔ ایک سیکنڈ کیلئے مجھے وہ چہرہ یاد کرنے کا خیال آیا، جو کولر کی ٹونٹی سے پانی پی رہا تھا۔ لیکن لائن کے دھکوں نے مجھے یہ اختیار نہیں دیا۔ بھاگم بھاگ مچی ہوئی تھی۔ میں بھی اسی میں شریک تھی۔
کئی دن گزر گئے۔ اب میرا روز آنا ہو رہا تھا۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں میرا پہلا سال تھا۔ یہاں کے کوریڈورز اور سیڑھیاں اکثر آنے جانے والوں کے تانتے سے بھرے رہتے تھے۔ کوئی کلاس لے کر آرہا ہوتا اور کوئی جا رہا ہوتا۔ ان کئی دنوں کے بیچ مجھے وہ غیر معمولی واقعہ تو یاد آیا لیکن وہ چہرہ میرے دھیان سے نکل چکا تھا۔ لیکن ایک دن، ایک کلاس میں، مَیں لیٹ پہنچ رہی تھی، چپلوں کو پاؤں میں اپنے انگوٹھوں سے پھنسائے، تیز تیز چلتے ہوئے، جو میرے پاؤں میں ڈھیلی تھیں اور مجھے کلاس میں وقت پر نہ پہنچانے کی ذمہ دار بن رہی تھیں۔ مَیں کلاس میں ہڑبڑاتی ہوئی گھسی تھی اور بغیر یہ دیکھے کہ کلاس شروع ہوچکی ہے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھی لیکن سیٹ پر بیٹھتے ہی مجھے غیر معمولی کیفیت اپنے چاروں طرف دائرے کی شکل میں نظر آئی۔ تروتازہ، مطمئن کر دینے والی، پاؤں میں پڑے ہوئے ڈھیلے سلیپروں نے تیز تیز چلتے ہوئے جو زخم میرے انگوٹھے اور انگلی کے بیچ ڈال دیا تھا، وہ بھی مَیں بھلا چکی تھی۔ کلاس میں پڑھانے والے کی آواز کی گونج کے ساتھ کوئی اور گونج بھی تھی، جو بہت مہین، سرسراہٹ میں میرے چاروں طرف تھی۔ مَیں نے جھکے ہوئے، لکھتے ہوئے خود کو اکسایا، قلم کی نوک کو کاغذ پر ٹکا کر مَیں نے جلدی سے اپنا سَر گھما کر ساری کلاس کو اس طرح دیکھا، جیسے مَیں گردن کو جھٹکا دے کر اس میں ہونے والے درد کو ٹھیک کر رہی ہوں کہ میری گھومتی نگاہ کے ساتھ میری آنکھیں ایک چہرے پر رکتے رکتے بچیں۔
اب مَیں دوبارہ لکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی، کہاں دیکھا تھا۔ یہ عجیب سا سکون، بلاوجہ میرے جسم میں اسی طرح پہلے بھی، کبھی.... یاد آتے ہی مَیں بوکھلا گئی۔ قلم نے لکھنا چھوڑ دیا۔ مَیں نے بے بسی سے اپنی انگلیوں کی طرف دیکھا، جو مجھے مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔ کلاس ختم ہوچکی تھی، سب جا چکے تھے۔ مَیں بیٹھی رہ گئی۔ ایسا کیوں ہوا، کیا سبب ہے۔ مَیں اس اَن جانے سکون کو محسوس کرتی رہ گئی۔ پھر نہ جانے کب وہاں سے اٹھی۔
اور یہ اب اکثر ہوتا۔ وہ چہرہ اب پہچان میں تھا جو قریب سے گزرتے ہوئے کلاس میں ہوتے ہوئے، یا کبھی راستے یا کوریڈور میںمڈبھیڑ کا حصہ بنتا۔ اور مَیں اپنی حالت پر حیران ہوجاتی۔ لیکن اس کے ماسوا، کبھی مَیں نے خود کو اس حالت میں نہیں پایا۔ وقت بھی گزرتا رہا۔ مَیں اپنا کورس پورا کر چکی تھی۔ اور مڈبھیڑ کے دوران اپنی اس حالت کے باوجود جو مجھے سکون کی ایک ایسی صورتحال میں لے جاتی تھی جو میرے لئے ناقابل بیان تھی، کے باوجود، مَیں تجزیہ نہیں کرسکی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اسی وقت، جب وہ چہرہ میرے قریب یا دور اس زمانے میں ہی ہوتا ہے جس میں، مَیں موجود ہوتی ہوں، وہ دوپہر ہو یا صبح، سڑک ہو یا کوریڈور۔
گزرتے ہوئے وقت نے اپنے کریئر کے ٹارگٹ کے دوران کی گہماگہمی نے مجھے رکنے نہیں دیا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے کورس کو مکمل کرکے آگے بڑھ گئی۔ اور یہ نہیں کہ اپنی اس حالت پر حیران نہیں تھی، لیکن وقت نے مجھے موقع نہیں دیا کہ مَیں تسلی سے کچھ سوچ سکوں۔
پھر بہت دن گزر گئے۔ میرا شوہر، میرے بچّے اور مَیں.... زندگی ایسی نظر آئی جیسی کسی بھی خوشگوار صورتحال میں ہونی چاہئے۔
اس بیچ میں کبھی کبھی اپنی اس کیفیت کو مَیں یاد کرتی تھی جو طمانیت کی بھرپور زندگی کے باوجود مجھے نہیں ملی تھی۔ مَیں کبھی کسی خوشی میں اسے تلاش کرنا چاہتی۔ لیکن وہ کیفیت کبھی نہیں ملی۔
پھر ایک دن جب مَیں ایک بھرپور زندگی گزار ہی چکی تھی، میرے بچے مجھے وہیل چیئر پر بٹھائے ایک دور دراز علاقے کی طرف لے جانے کی تیاری کر رہے تھے جہاں وہ خود بس گئے۔ مَیں نے ہوائی جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے، خود کو اسی کیفیت کے حصار میں دیکھا اور اپنی بجھی ہوئی آنکھوں میں وہ روشنی جو عرصہ دراز سے ماند پڑ چکی تھی۔ ہوائی جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر اور پورے سفر کے دوران مَیں اسی کیفیت کے حصار میں تھی جو بادل جیسی میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، اور مجھے ایک خنکی میں ڈبو رہی تھی۔
مَیں نے سیٹ پر کمر سیدھی کرنے کیلئے خود کو شاید اونچا کیا تھا۔ یا مَیں کچھ کھوجنا چاہتی تھی۔ میرے دائیں طرف، تیسری سیٹ پر جانی پہچانی ایک شبیہ میری آنکھوں سے ٹکرائی۔ اور مَیں عرصہ دراز کے بعد اپنی کیفیت کی اس تکرار پر نڈھال سی ہوگئی۔