زندگی کے میلے میں کچھ چہرے ہمیشہ دھندلے رہ جاتے ہیں، اگرچہ وہ اپنے رنگ کے خالص ہوتے ہیں۔ احمد اور کامران کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی دو دوست ایک خواب مگر راستے الگ۔
زندگی کے میلے میں کچھ چہرے ہمیشہ دھندلے رہ جاتے ہیں، اگرچہ وہ اپنے رنگ کے خالص ہوتے ہیں۔ احمد اور کامران کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی دو دوست ایک خواب مگر راستے الگ۔ چھوٹے سے محلے میں یہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ پروان چڑھے تھے۔ احمد ہمیشہ مطمئن منکسر المزاج اور صابر مزاج تھا۔ اسے معلوم تھا کہ عظمت کبھی شور کے ساتھ نہیں آتی بلکہ خاموشی میں پنپتی ہے۔ کامران کے لبوں پر ہمیشہ تبسم رہتا لیکن اس کے دل میں خواہشوں کا ایک سمندر تھرتھراتا رہتا جو اکثر سکون کے ساحلوں کو بہا لے جاتا۔ وقت گزرا۔ احمد نے محنت کی دعاؤں اور دیانت کے ساتھ علم حاصل کیا۔ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو محنت نے جیسے اس کے نصیب کے در وا کر دیئے۔ ہر امتحان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا گیا حتیٰ کہ اس کی شہرت استادوں کے درمیان تابناک مثال بن گئی۔ دوسری طرف کامران، جو پہلے خوداعتماد اور متحرک تھا آہستہ آہستہ احمد کی بلندیوں کو دیکھ کر اپنے ہی دل کے اندھیروں میں کھو گیا۔
اس کے دل میں ایک ایسی خموش چنگاری جاگی جس نے رفتہ رفتہ اس کی سوچوں کو بھسم کر دیا یہ سب اس کے نصیب میں کیوں نہیں۔ شروع میں وہ کوشش کرتا کہ اپنے جذبات پر قابو پائے لیکن حسد ایک ایسا زہر ہے جو دماغ کو نرم الفاظ کی صورت میں بہکاتا ہے۔ کامران کے چہرے کی چمک مدھم پڑنے لگی۔ نگاہوں میں چبھن پیدا ہوئی، لہجے میں تلخی در آئی اور دوستی کے رشتے پر ایک بے نام سا بوجھ چھا گیا۔ دن گزرتے گئے۔ احمد نے ایک بڑی غیر ملکی کمپنی میں ملازمت حاصل کی۔ اُس کی کامیابی کی خبر جب محلے میں پہنچی تو ہر طرف مبارکبادوں کی بارش ہوئی۔ احمد کے گھر کے دروازہ پر آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ مگر کامران کے گھر میں اس شام کا سکوت عجیب تھا۔
اس کے اندر ایک ایسی بے بسی نے جنم لیا جو نہ آنکھ سے بہتی تھی نہ زباں پر آتی بس جلتی سلگتی رہتی۔ پھر ایک دن ان دبی ہوئی آگ نے اسے اندھے فیصلے پر مجبور کیا۔ اس نے احمد کے خلاف جھوٹا الزام لگا دیا کہ اُس نے کسی پروجیکٹ میں خیانت کی ہے۔ مگر سچ کے پاس ہمیشہ ایک روشنی ہوتی ہے جو اندھیرے کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔ جب تحقیقات ہوئیں تو جھوٹ آشکار ہوا، اور کامران کا کردار سب کے سامنے ظاہر ہوگیا۔ اس دن کے بعد دنیا کے تمام رنگ جیسے اس کی زندگی سے نکل گئے۔ نیند دشمن بن گئی ذہن الجھنوں سے بھرا۔ ضمیر جیسے ہر لمحہ کانوں میں سرگوشی کرتا کہ حسد نے تجھے خالی کر دیا ہے۔
آخر وہ دن آیا جب اس کی اپنی کمپنی نے اسے نکال دیا۔ وہ گلیوں میں چلتا تو لوگوں کی باتیں اس کے پیچھے لہروں کی طرح گونجتیں۔ ایک شام، جب زندگی کے بوجھ نے اُس کے وجود کو چکنا چور کر دیا، دروازے پر دستک ہوئی۔ سامنے احمد کھڑا تھا۔ کامران اُس کے چہرے پر ناراضی ڈھونڈنے لگا مگر وہاں صرف نرمی تھی۔
احمد نے چپ چاپ ایک فائل میز پر رکھی اور بولا، ’’یہ ایک نئی نوکری کا موقع ہے.... تم اس کے مستحق ہو۔ ماضی کو راکھ ہونے دو۔ آگ اگر دل کے اندر جلتی رہے تو زندگی جلا دیتی ہے لیکن جب باہر راکھ بن جائے تب انسان کچھ نیا تعمیر کرسکتا ہے۔‘‘ اس لمحے کامران کے دل میں برسوں سے جمایا ہوا بوجھ پگھل گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا، ’’احمد مَیں نے تجھے بے وجہ دشمن سمجھا۔ حسد نے مجھے اس حد تک اندھا کر دیا کہ میں خود کو دیکھنا بھول گیا۔‘‘ احمد نے مسکرا کر جواب دیا، ’’یاد رکھو کامران دوسروں کی کامیابی کبھی تمہارا نقصان نہیں ہوتی۔ ہر انسان کی قسمت کا راستہ الگ ہے۔‘‘
کچھ برس بعد جب کامران نے اپنی زندگی سنبھالی تو اکثر شاموں میں وہ سوچا کرتا تھا کہ حسد دراصل روشنی کی دشمن نہیں بلکہ دل کے آئینے پر جم چکی گرد ہے۔ اگر انسان اسے صاف کر لے تو اپنی اصل پہچان دیکھ سکتا ہے۔
(افسانہ نگار مہاراشٹر کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کی ایم اے اُردو کی طالبہ ہیں۔)